کراچی کا نیا شاپنگ سٹور جس نے شہریوں کو سمندری طوفان کا ڈر بھلا دیا: ’کاش یہ اپنے حق کے لیے نکلتے‘

بی بی سی اردو  |  Aug 31, 2024

Getty Images

ایک طرف تو پاکستان میں عوام مہنگائی اور پریشانیوں کا رونا روتے نہیں تھکتے اوپر سے بارش کے تباہ کاریاں جس کی وجہ سے کہیں سڑکوں پر پانی کھڑا ہے تو کہیں بجلی پانی غائب ہے وہیں کچھ برسوں سے کپڑے ہوں یا کسی برانڈ کی سیل، کوئی نیا ہوٹل ہو یا نیا شاپنگ مال یہی لوگ سب کچھ بُھلا کر ایسے ٹوٹ پرے ہیں جیسے سب کچھ مفت بٹ رہا ہے۔

ایسے ہی کچھ تبصرے اس وقت بھی پاکستان کے سوشل میڈیا پر جاری ہیں جہاں کراچی کا علاقے گلستانِ جوہر کے ایک بہت بڑے مال کے اطراف سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں اور ایک شاپنگ مال کے اندر جانے کی کوشش میں ہلکان سینکڑوں لوگوں کا ہجوم اور سٹور کے اندر تور پھوڑ اور افراتفری کے منظر دیکھنے کو ملے۔

اب اس کا کریڈٹ اچھی مارکیٹنگ کو جاتا ہے یا مہنگائی سے تنگ آکر سستے سامان کی خواہش کو لیکن سوشل میڈیا پر مختلف پوسٹس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی کے ایک شاپنگ مال میں ’ڈریم بازار‘ نامی سٹور میں جمعے کے روزبہت زیادہ رش کی وجہ سے اس وقت ہنگامہ آرائی کی سی صورتحال پیدا ہو گئی جب اس سٹور کا افتتاح ہونے جا رہا تھا۔

مگر یہ اگست کا عام دن نہیں تھا بلکہ مون سون کے دوران سمندری طوفان، موسلا دھار اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور ہوا کے جھکڑوں کے متعدد الرٹس بھی کراچی کے شہریوں کے پیش نظر تھے اس کے باوجود سینکڑوں لوگ سستی شاپنگ کی آس یا لالچ میں وہاں جا پہنچے۔

واضح رہے کہ اس شاپنگ مال کے افتتاح سے قبل ہی سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ڈریم بازار کی جانب سے دعوے کیے جا رہے تھے کہ ان کے ہاں 50 روپے سے ایک ہزار روپے میں برانڈڈ کپڑے دستیاب ہوں گے۔

غالبا یہی وجہ بنی ہو کہ مہنگائی کے ستائے لوگوں نے سستی شاپنگ کے لیے قسمت آزائی کا سوچا لیکن کم وقت میںسینکڑوں کی تعداد میں وہاں لوگ پہنچ گئے اور یوں صورت حال وہ بنی جس کے وڈیو کلپس سوشل اور لوکل میڈیا پر وائرل ہوتے گئے۔

اس ’بے قابو ہجوم‘ کے ہاتھوں بگڑتی ساری صورتحال کو سنبھالنے کے لیے پولیس وہاں پہنچی اور یوں اس ہنگامہ آرائی پر قابو پایا گیا۔

اس ساری صورت حال کے بعد ڈریم بازار کو افتتاح کے ساتھ ہی اپنا سٹور بند کرنا پڑا جس کے بعد انھوں نے اپنے فیس بک پیج پر کراچی کے شہریوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’ڈریم بازار کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے کچھ دن درکار ہیں۔ جلد واپس آئیں گے۔ ‘

دھکم پیل اور خالی ہینگز کا ڈھیر

یاد رہے کہ کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں پرانے اور استعمال شدہ کپڑوں کی فروخت کے لیے 30 اگست کو ’ڈریم بازار تھرفٹ سٹور‘ کا افتتاح کیا جانا تھا جس کے لیے سستے اور برانڈڈ کپڑوں کی تشہیر کے دعوےٹک ٹاک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی وڈیوز پر کیا جا رہا تھا۔

یہی نہیں بلکہ مختلف وی لاگرز کی جانب سے کی جانے والی تشہیری مہم میں ڈریم بازار سے سستے اور معیاری ’پری لوڈ‘ (استعمال شدہ) کپڑے کراچی میں کہیں اور سے دستیاب نہ ہونے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا تھا۔

سوشل میڈیا پر تشہیر دیکھ کر عوام کی کثیر تعداد پہنچی اور پھر انتظامیہ کے ہاتھ سے صورتحال بے قابو ہو گئی۔

سوشل میڈیا کے وڈیو کلپس میں ان مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مال میں لوگ داخل ہونے کی کوشش میں دھکم پیل کر رہے ہیں جبکہ کچھ مناظر میں خالی ہینگز کا ڈھیر موجود ہے جس پر لٹکے کپڑے غائب ہیں۔

کئی کلپس میں لوگوں کو مال کے اندر داخل ہونے کی کوشش میں ریمپ پر افرا تفری میں اوپر نیچےہوتے دیکھا جا رہا ہے۔

وڈیوز میں ایک جانب فیملیز والوں سے لے کر نوجوان افراد کے ٹولے کھڑے دکھائے گئے ہیں تو دوسری جانب گلستان جوہر کی سڑک پر ٹریفک جام اور اس میں پھنسے لوگوں کا جم غفیر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

کچھ وڈیو کلپس میں مال کے سامنے ڈنڈا پکڑے افراد کو بھی دیکھا جا سکتا ہے تاہم ان وڈیوز کی بی بی سی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔

پاکستانی خواتین اور استعمال شدہ کپڑوں کی خرید و فروخت: ’ان کپڑوں کی تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹا دیں، کسی کو پتا نہ چلے‘عبداللہ شاہ غازی کی کرامات یا سائنسی وجوہات: کراچی ہر بار سمندری طوفان سے کیسے بچ نکلتا ہے؟سٹور کا افتتاح روٹین معاملہ تھا اور پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی: پولیس

اس صورت حال کو پولیس کی مداخلت پر سنبھال تو لیا گیا تاہم واقعے کی تفصیلات جاننے کے لیے بی بی سی نے کراچی پولیس کے ترجمان سے رابطہ کیا۔

ترجمان نے بتایا کہ ’جمعے کی سہہ پہر میڈیا ذرائع سے رپورٹ ہوا تھا کہ گلستان جوہر میں شہریوں کی کثیر تعداد ایک نئے سٹور کے سامنے موجود ہے اور وہاں ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے۔‘

پولیس کے مطابق ’سٹور کا افتتاح ایک روٹین معاملہ تھا جس کی کوئی پیشی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ عوام کی کثیر تعداد کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس نے بروقت جا کر معاملے پہ کارروائی کی۔‘

یاد رہے کہ مال میں ڈریم بازار نامی دکان کے افتتاح پر رش زیادہ ہونے کی وجہ سے مال اور دکان انتطامیہ کی جانب سے مال کو بند کر دیا تھا جس کے بعد لوگوں نے زبردستی اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔

پولیس ترجمان کے مطابق ’مال بند ہونے کی وجہ سے کچھ ’شرانگیز‘ متحرک ہوئے جنھوں نے پتھراؤ کرنے کی کوشش کی تاہم پولیس نے بروقت صورتحال کو سنبھال لیا۔‘

ایس ایچ او شاہراہ فیصل، جو خود بھی موقعے پر موجود تھے، نے مجمعے کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید نفری بھی طلب کی اور یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔

’کاش یہ اپنے حق کے لیے نکلتے‘

کراچی میں بارش اور طوفان کی پیش گوئی کے دوران شاپنگ حد سے بڑھے شوق کو سوشل میڈیا پر بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔

کئی صارفین نے اس ساری صورت حال کو دیوانگی سے مشابہت دی ہے۔

بیلا کیانی نامی صارف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا،

’کراچی میں آج نئے شاپنگ مال کی اوپننگ ہوئی تو اتنے لوگ آئے کہ ٹریفک ہی جام ہو گئی۔ کاش یہ اپنے حق کے لیے نکلتے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’عوام اپنی مدد آپ کےتحت باہر کیوں نہیں نکلتے جیسے بنگلہ دیشی بغیر کسی لیڈر کے نکلے تھے۔ خدا کے لیے جاگ جائیں۔‘

ایک صارف نے دل جلے انداز میں لکھا کہکراچی کو عبداللہ شاہ غازی پر اتنا بھروسہ ہے کہ ڈریم شاپنگ مال کے افتتاح پر گلشن میں سڑکیں بلاک کر رکھی ہیں. آہا طوفان بڑا مزیدار.‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی فیض اللہ نے ایکس پر لکھا،

’گلستانِ جوہر میں ایک مال سیل آفر کے ساتھ کھلا۔ بارش طوفان کے باوجود ہزاروں بندہ پہنچ گیا۔ رش بڑھا توڑ پھوڑ بھی ہوگئی۔‘

انھوں نے لکھا، ’اس افتتاح کی بابت بہت کم لوگ جانتے ہوں گے مجھے بھی علم نہ تھا۔ مہنگائی اور حقوق کا رونا ہے مگر اس کے لیے کوئی نکلنے کو تیار نہیں۔ قوم کے حالات اس کی ترجیحات کے سبب ہیں۔‘

فیض اللہ نے مزید لکھا کہ ’کراچی میں اس وقت آندھی طوفان ہے بارشوں کا موسم ہے اور گلستانِ جوہر میں ایک بڑے سٹور کی افتتاحی تقریب میں بلا مبالغہ ہزاروں ’عام ‘ بندہ فیملیز کے ساتھ پہنچ گیا یہاں تک کہ رش کے سبب مال بند کرنا پڑا۔‘

’فلاں جگہ احتجاج ہے آپ آئیں اپنی نسلوں کی خاطر تو یہی لوگ مہنگائی پہ ٹسوے بہاکر کہیں گے کہ آپ مہنگائی کم کرالو میں تو شریک نہیں ہوسکتا۔ واضح رہے یہ بہت بےضرر سے مہنگائی کیخلاف احتجاج پہ جواب ہوتا ہے ، ریاست سے انسانی حقوق مانگنے کا سوال ہی نہیں۔‘

قدیر نامی صارف نے ایکس پر شاپنگ کے ’جنون‘ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان میں یہ والا طوفان کبھی نہیں رکنا‘

پاکستان میں آنے والے بڑے سمندری طوفان: ’میرے والد سمیت لاپتہ ہونے والوں کی لاشیں سمندر کی لہریں اپنے ساتھ لے گئی تھیں‘پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ان دیکھے اثرات: ’اچھی تنخواہ کے باوجود دوسری نوکری کرنی پڑی‘پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام: ’اب ہم ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکتے ہیں‘شرح سود میں کمی: پاکستان میں مہنگائی کم ہوئی یا اس کی مزید بڑھنے کی رفتار رُک گئی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More