انڈین ڈاکٹر کا ریپ اور قتل: سوشل میڈیا پر نظم شیئر کرنے پر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں دو طلبہ کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات درج

بی بی سی اردو  |  Aug 27, 2024

Getty Images

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں حالیہ احتجاجی مظاہروں میں سرگرم رہنے والے دو سٹوڈنٹ رہنماؤں کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

جن دو افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، ان میں ایک خاتون طالب علم بھی شامل ہیں، جنھیں عباس پور پولیس نے گرفتار بھی کر لیا ہے۔ دوسرے طالب علم رہنما کے خلاف بھی راولاکوٹ کے ایک تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تاہم ان کی گرفتاری اب تک عمل میں نہیں آئی۔

ان دونوں افراد نے انڈیا کے شہر کولکتہ میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے پر ایک نظم سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی۔ یہ نظم پاکستان میں بھی متعدد افراد نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی ہے۔

خاتون سٹوڈنٹ رہنما کے بھائی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’فیس بُک پر پوسٹ کے بعد میری بہن اور ہمیں دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں، لوگ ہمارے آبائی علاقے میں جمع ہو جاتے اور نعرے بازی کرتے۔‘

ان کے مطابق علاقے میں خوف کی فضا پیدا کی جا رہی تھی اور اس سبب ان کی بہن نے گرفتاری دے دی کیونکہ ’کم از کم پولیس کی حفاظت میں ان کی جان کو تو خطرہ نہیں ہو گا۔‘

سٹوڈنٹ رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات

خاتون سٹوڈنٹ رہنما کے خلاف مقدمے کے مدعی مقامی مذہبی شخصیت طاہر بشیر ہیں۔ ان کے خلاف درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے ’گُستاخانہ پوسٹ‘ کی۔

دوسرے سٹوڈنٹ رہنما کے خلاف درج مقدمے کے مدعی خرم جاوید ہیں اور ان کی درخواست کا متن بھی طاہر بشیر کی درخواست سے ملتا جُلتا ہے۔

خاتون سٹوڈنٹ رہنما کا آبائی تعلق کنٹرول لائن سے قریب واقع علاقے عباس پور سے ہے اور وہ کراچی یونیورسٹی کی طالبہ بھی ہیں۔

وہ گذشتہ چھ برس سے کراچی اور راولاکوٹ میں سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں کافی متحرک رہی ہیں اور ایک طلبہ تنظیم کی فعال رہنما ہیں۔

طلبہ تنظیم کے مرکزی صدر خلیل بابر کا کہنا تھا کہ گرفتار کی گئی طالبہ ایک ’ترقی پسند رہنما اور کارکن ہیں جو عام عوام کے حقوق کے لیے آواز بُلند کرتی رہی ہیں۔‘

’حالیہ عرصے میں جب (پاکستان کے زیرِ انتظام) کشمیر میں لوگوں کے بنیادی حقوق، بجلی کے بلوں اور مہنگائی کے خلاف چلنے والی کامیاب تحریک میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ گرفتار کیے گئے دونوں افراد کی ’جدوجہد اور مستقبل کی سیاست سے حکومت خوفزدہ ہے اور اسی بنا پر ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ان کی تنظیم اس ساری صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھے گی۔

سرگودھا: توہین مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم کا حملہ، یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام کون روکے گا؟توہین مذہب کے الزام کا خوف: ’لگتا ہے کسی بھی وقت کوئی ہمیں ختم کر دے گا‘مدین میں توہینِ قرآن کے الزام میں سیاح کی ہلاکت اور مشتعل ہجوم کے حملے پر دو مقدمات درج: پولیسمقدمے کے اندراج کے وقت قانونی ضابطوں کا خیال نہیں رکھا گیا: خاندان

گرفتار کی گئی خاتون سٹوڈنٹ رہنما کے بھائی کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ان کی بہن کے خلاف مقدمے کا اندراج کرتے وقت قانونی ضابطوں کا خیال نہیں رکھا۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سپریم کورٹ کے وکلا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

وکیل شمشاد حسین کہتے ہیں کہ ’دیکھا جا رہا ہے کہ عموماً مقدمات میں قانونی ضابطوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔‘

’توہین مذہب سے متعلق قوانین کا تقاضا ہے کہ ایسے کسی بھی الزام پر ایک کمیٹی بنے، جس میں پولیس کا کم از کم ایک افسر اور ایک مذہبی عالم شامل ہوں۔ یہ کمیٹی تمام حالات و واقعات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرتی ہے کہ توہین ہوئی یا نہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتہا پسندی عروج پر پہنچ رہی ہے۔

’کچھ عرصہ قبل ایک مولوی صاحب درس دے رہے ہیں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور وہ کافی دن جیل میں رہے۔ ایک نفسیاتی مریض کو موت کی سزا سنائی گئی۔‘

شمشاد حسین نے الزام عائد کیا کہ پولیس اس احتجاج تلے دب کر مقدمات درج کرلیتے ہیں۔

ایک اور سینیئر وکیل اور قانون دان جاوید ناز کہتے ہیں کہ ’ایسے معاملات اور فوجداری کے مقدمات میں نیت کو دیکھا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر خاتون سٹوڈنٹ رہنما کی نیت کچھ اور تھی۔

’وہ غالباً انڈیا میں پیش آنے والے بدترین واقعہ پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی تھیں۔ وہ واقعہ انسانیت کی تذلیل تھا، جس پر ہر ایک کو احتجاج کرنا چاہیے۔ بظاہر لگتا ہے کہ ایک وائرل نظم کے ذریعے انھوں نے احتجاج کیا تھا۔‘

اس حوالے سے راولا کوٹ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ریاض مغل کہتے ہیں کہ یہ مقدمات علما کی جانب سے درج کروائے گئے اور اس پر احتجاج بھی ہو رہا ہے۔

’ہمیں ایسی پوسٹیں کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔ پولیس تفتیش کے دوران شیئر کیے گئے مواد اور ہر چیز کو بہت باریک بینی سے دیکھے گی، اس میں مذہبی لوگوں سے بھی رائے لی جائے گی۔‘

وکلا اور خاندان کے قانونی تقاضوں کو نظرانداز کرنے کے الزام پر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ دونوں طلبہ رہنماؤں کے خلاف مقدمات دفعہ 295 کے تحت نہیں درج کیے گئے بلکہ توہینِ مذہب کی دیگر دفعات 298 اور 489 کے تحت درج کیے گئے ہیں اور اس کے لیے کوئی کمیٹی بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

لاہور میں خاتون کے لباس کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام: ’اگر چیخ کر ہجوم کو قائل نہ کرتی تو حالات بدتر ہوتے‘توہین مذہب کا الزام: ’میں سوچ رہا تھا کہ مجھے تشدد کر کے قتل کیا جائے گا یا آگ لگا کر‘توہین مذہب کا الزام: ننکانہ صاحب میں مشتعل ہجوم نے پولیس حراست سے چھڑوا کر ایک شخص کو ہلاک کر دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More