BBC
’میں نے کبھی لاہور نہیں دیکھا تھا۔ مجھے لاہور شہر دیکھنے کا بے حد شوق تھا اسی لیے بچپن میں گھر والوں کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور گھومنے آیا۔‘
’ہم ایک دو منزلہ مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ دل میں خیال آیا چھت پر جا کر دیکھوں وہاں سے لاہور کیسا لگتا ہے؟ چھت پر جا کر جیسے ہی نیچے دیکھنے کے لیے دیوار پر ہاتھ رکھا تو ایسا کرنٹ لگا کہ میرا جسم ہی جل گیا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ دیوار سے ایک ننگی تار گزر رہی تھی۔‘
32 سالہ محمد حسنین جو واقعہ سنا رہے تھے وہ اس زمانے میں پیش آیا جب وہ تیسری حماعت کے طالب علم تھے۔ لاہور شہر دیکھنے کا شوق ان کی زندگی بدلنے والا تھا۔
اس حادثے کے بعد حسنین کو ہسپتال پہنچایا گیا تو ایک ایک کر کے ان کے جسم کے اعضا کٹتے چلے گئے۔
چار بہنوں کے اکلوتے بھائی کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ خاندان کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حسنین کے ذہن میں یہ خیال پختہ ہوتا چلا گیا کہ وہ اس معذوری کو اپنے خوابوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔
حسنین کو اگر آج کام کرتے ہوئے دیکھیں تو ایک لمحے کے لیے یہ خیال نہیں آتا کہ وہ دو ٹانگوں اور ایک بازو سے محروم ہیں۔
محمد حسنین شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہونے کے ساتھ ساتھ اب گاڑی بھی چلاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ پولیس میں شامل ہونے کے خواب کی تکمیل میں بھی کامیاب رہے ہیں تاہم یہ سفر ان کے لیے آسان نہیں تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سب نے مجھے کہا کہ تم یہ کبھی بھی نہیں کر پاؤ گے کیونکہ نہ تو تم چل سکتے ہو اور نہ ہی تمھارا بازو ہے۔‘
حسنین کہتے ہیں کہ لوگوں کی ایسی باتوں سے ایک طرف دل دُکھتا تھا تو دوسری جانب یہی باتیں ان کے ارادوں کو مزید پختہ کر دیتی تھیں۔
محمد حسنین کیسے پولیس کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئے اور اس سفر میں درپیش مشکلات کا سامنا انھوں نے کیسے کیا؟ اس سے قبل جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا، اس کے بعد وہ اپنے پیروں پر کیسے کھڑے ہوئے؟
’ایک حادثے نے میری زندگی بدل دی‘
محمد حسنین کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد ان کی دونوں ٹانگیں اور ایک بازو کاٹ دیا گیا۔ جس کے بعد انھیں ایسا لگنے لگا تھا کہ اب وہ کُچھ نہیں کر پائیں گے۔
محمد حسنین کا علاج تقريباً چھ ماہ تک جاری رہا۔ مایوسی کے ان دنوں میں ان کی والدہ نے ان کو حوصلہ دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میری والدہ نے مجھے کہا کہ تم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو، چار بہنوں کا سہارا اور ہمارے جینے کا مقصد بھی، اگر تُم ہمت ہار گئے تو ہمارا کیا ہو گا؟‘
وہ کہتے ہیں کہ ’والدہ کی اس بات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ میں نے اب زندگی میں آگے بڑھنا ہے۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میں آگے تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ جس پر انھوں نے کہا کہ ہم پورا ساتھ دیں گے۔‘
’تیسری جماعت سے لے کر میٹرک تک میری والدہ مجھے روزانہ اپنے کندھوں پر اٹھا کر دو کلومیٹر پیدل چل کر سکول لے جاتیں اور چھٹی تک وہیں سکول کے باہر بیٹھی رہتیں۔ جیسے ہی چھٹی ہوتی تو وہ مجھے اپنے کندھوں پر اٹھا کر واپس گھر لاتیں۔ اپنی والدہ کی بدولت میں نے میٹرک کا امتحان بھی پاس کر لیا۔
یہ بھی پڑھیےکراچی کی ٹیچر عروسہ جن کے رویے سے وہیل چیئر پر آنے والا بچہ کھیلنے اور بولنے لگا’معذور افراد کو گناہوں کی سزا سمجھ کر گھروں میں عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے‘’لوگ سمجھتے ہیں کہ میں اپنے بوائے فرینڈ کی تیماردار ہوں‘وہیل چیئر پر موجود لڑکی ماں بن سکتی ہے تو آپریشن کا مشورہ کیوں
’میٹرک کر لینے کے بعد ریسرچ کی تو مجھے پتا چلا کہ مصنوعی اعضا بھی کوئی چیز ہوتے ہیں۔ جب اس بارے میں پتہ چلا تو میں نے حکومت سے رابطہ کیا اور ان سے مدد کی اپیل کی۔ حکومت نے میری مدد کی مگر بیرونِ مُلک سے ڈاکٹرں نے میرے لیے یہ کہتے ہوئے مصنوعی ٹانگیں ڈیزائن کیں کہ میں کبھی ان کی مدد سے چل نہیں سکوں گا۔‘
حسینین بتاتے ہیں کہ ’ڈاکٹروں کی جانب سے ایسا اس لیے کہا گیا کہ کیونکہ میرا بازو بھی نہیں تھا جس کی وجہ سے دونوں مصنوعی ٹانگوں کو جسم کے وزن کے ساتھ توازن برقرار رکھنے میں مُشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔
’ڈاکٹروں کی اس بات نے مجھے بہت مایوس کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر ان مصنوعی ٹانگوں سے میں چل نہیں سکتا تو یہ میرے کسی کام کی نہیں اس لیے آپ انھیں واپس لے جائیں۔‘
BBC’میں نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی اور ہمیشہ کوشش جاری رکھی‘
حسنین کے مطابق ڈاکٹروں کے انکار کے بعد بھی ان کی دوباره اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی چاہ ختم نہیں ہوئی۔
’میں ڈاکٹروں سے ملتا اور کوشش کرتا تھا کہ کہیں سے کوئی راستہ نکل آئے۔ اسی طرح ایک دن مجھے ایک پاکستانی ڈاکٹر ملے اور انھوں نے میری کہانی سننے کے بعد مجھ سے سوال کیا کہ کیا تم دوبارہ چلنا چاہتے ہو؟ ان کے اس سوال نے میری زندگی میں ایک نئی امید پیدا کر دی۔ میں نے جواب دیا کہ بالکل میں چلنا چاہتا ہوں۔
’اس کے بعد انھوں نے میرے لیے دو مصنوعی ٹانگیں اور ایک بازو بنایا اور ان کی مدد سے دو تین ماہ تک مجھے ان کے سہارے سے کھڑا ہونے کی مشق کروائی۔ جب میں دو ماہ تک جاری رہنے والی اس کوشش کے بعد پہلی مرتبہ ان مصنوعی ٹانگوں پر کھڑا ہوا تو اُس دن مُجھ ایسا لگا کہ جیسے میں نے کوئی بلند چوٹی سر کر لی ہو۔‘
حسنین کا کہنا تھا کہ ’اس دن میں نے دل میں بس یہ ٹھان لی کہ اگر میں ان مصنوعی ٹانگوں پر بنا کسی سہارے کے کھڑا ہو سکتا ہوں تو میں ان کے سہارے اپنی منزل کی جانب قدم بھی اُٹھا سکتا ہوں۔ بس اسی طرح میں نے اپنی کوشش جاری رکھی اور ایک دن وہ بھی آیا کہ میں نے انھیں مصنوعی ٹانگوں کی مدد سے چلنے میں بھی کامیاب ہوا۔‘
BBC
ان سب مُشکلات کے درمیان حسنین نے اپنی تعلیم مکمل کی اور پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے امتحان دیا جسے پاس کر کے وہ میرٹ پر پنجاب پولیس کے محکمے میں بھرتی ہوئے۔
محمد حسنین کا کہنا ہے کہ انھوں نے پنجاب پولیس میں پولیس اسسٹنٹ یا کلرک کے طور پر ملازمت شروع کی۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’میں نے آئی سی ایس کیا ہوا تھا اور اسی کی بنیاد پر میں نے پولیس کے محکمے میں ملازمت کے لیے ٹیسٹ دیا۔ سافٹ ویئر انجینیئر ہونے کی وجہ سے پولیس کے کام میں معاونت کے لیے سافٹ ویئر پر کام شروع کیا۔
’2016 سے لے کر اب تک پولیس میں آنے کے بعد میں نے ہر وہ کام کیا جس نے مجھے اپنے مقصد کے حصول اور آگے بڑھنے میں مدد کی۔ میں نے پنجاب پولیس کے تمام فرنٹ ڈیسک بنانے میں مدد کی اوران کی مدد سے میں نے آئی ٹی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا۔‘
حسنین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت پنجاب پولیس میں آئی ٹی ٹرینر کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ حال ہی میں دبئی میں ہونے والے ایک ایونٹ میں دنیا بھر سے پولیس افسران نے شرکت کی جن میں حسنین بھی شامل تھے۔
حسنین کا کہنا ہے کہ ’دبئی میں ہونے والے اس ایونٹ میں، میں نے بھی پاکستان اور اپنی پنجاب پولیس کے لیے ایوارڈ جیتا، جس پر مجھے فخر ہے کہ جس انسان کو یہ کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتا اُس نے پاکستان کا نام روشن کرنے میں اب اپنا حصہ ڈالا ہے۔‘
اب حسنین ایک ’موٹیویشنل سپیکر‘ بھی ہیں۔
محمد حسنین کے مطابق انھوں نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی۔ ’یہاں تک کہ جب جب مجھے کہا گیا کہ تم یہ کام نہیں کر سکتے میں نے وہ کام کر کے دیکھا۔‘
اپنی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے مثال دی اور کہا کہ ’میں گاڑی چلانا چاہتا تھا لیکن ڈرائیونگ سکول والوں نے مجھے ڈرائیونگ سیکھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے کسی کی ہی مدد لینے سے انکار کیا اور یوٹیوب پر ڈرائیونگ سیکھنا شروع کر دی اور گاڑی چلانی سیکھ گیا اور آج مجھے گاڑی چلاتے ہوئے دس سال ہوگئے ہیں۔‘
محمد حسینن ان سب مُشکلات سے باہمت انداز میں گزر جانے کے بعد اب ایک بھر پور زندگی گزار رہے ہیں۔
وہ سب کے لیے یہی پیغام دیتے ہیں کہ ’جب میں ایک نامکمل شخص اپنی زندگی کو مکمل بنا سکتا ہوں تو آپ سب جو خدا کے فضل سے مکمل ہیں آپ بھی بھرپور انداز میں زندگی جی سکتے ہیں۔‘
’ڈاکٹروں نے کہا اس کے ہاتھ، پیر نہیں اسے پیٹ میں ہی ضائع کروا دیں‘معذوری کے باوجود گھر سے کاروبار’آپ معذوری کے باوجود کما رہے ہیں تو دوسرے کیوں نہیں؟‘