کیا ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کھانا واقعی آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 11, 2024

Getty Images

آپ نے اکثر بڑے بزرگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کھانا مت کھاؤ، اس سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔

لیکن اس کے باوجود ٹی وی کے سامنے کھانا کئی افراد کے لیے روز مرہ کی بات ہے۔ چاہے وہ سپورٹس کے شوقین ہوں یا چھوٹے بچے جن کے والدین موبائل فون واپس لے کر ٹی وی انھیں لگا دیتے ہیں۔

لیکن اگر آپ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر صحت مند اور ہائی پروٹین غذا کھا رہے ہیں تو کیا محض ٹی وی کے سامنے بیٹھنے کی وجہ سے اس کی غذائی افادیت کم ہوجائے گی؟

نئی تحقیق کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کھانا آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں، چاہے آپ جتنی بھی اچھی غذا کھا رہے ہوں۔

Getty Images

سائنس دان کافی عرصے سے اس بات سے واقف ہیں کہ ہمارے اردگرد کا ماحول ہماری خوراک میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے کئی مقالے موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹی وی دیکھنے اور موٹاپے کے خطرے کے بیچ ایک تعلق ہے۔ اس کی بڑی وجہ ایسے افراد میں ورزش کرنے کا کم رجحان ہے جو اس طرح زیادہ دیر تک بیٹھنے کے عادی ہوتے ہیں۔

تاہم ٹی وی دیکھنے کا اس بات پر بھی اثر پڑتا ہے کہ ہم کتنا کھاتے ہیں۔

ڈاکٹر مونیک البلاس ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں کمیونیکیشن سائنس کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ٹی وی دیکھتے وقت اس لیے زیادہ کھاتے ہیں کیوںکہ اس وقت ہمارا دھیان بٹا ہوا ہوتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جب ہم کسی ڈرامے یا فلم کے پلاٹ میں اتنے محو ہوجاتے ہیں تو ہماری توجہ کھانے پر کم ہو جاتی ہے اور ہم اپنے جسم کے اُن اشاروں پر دھیان نہیں دیتے جو بتا رہے ہوتے ہیں کہ پیٹ بھر چکا ہے۔

ایک اور تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ جب ہم ٹی وی کے سامنے کھانا کھاتے ہیں تو ہمیں یہ یاد نہیں رہتا کہ ہم نے کیا اور کتنا کھایا ہے اور اس کی وجہ سے ہم کئی بار اپنی بھوک سے زیادہ کھا جاتے ہیں۔

کیا ہمیں دن میں تین بار کھانا کھانا چاہیے؟وہ ڈائٹ پلان جس کے ذریعے بھارتی سنگھ نے اپنا وزن کم کیاآپ کو جلی ہوئی روٹی سے کیوں پرہیز کرنا چاہیے؟

اپنی تحقیق کے دوران البلاس نے پایا کہ جب لوگ ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا کھاتے ہیں تو ایسے میں وہ کھانا کھانے میں زیادہ وقت لگاتے ہیں۔

انھوں نے اپنی ریسرچ کے لیے نیدرلینڈز انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ریسرچ کے پاس پہلے سے موجود ڈیٹا کا استعمال کیا۔ اس ڈیٹا کو جمع کرتے وقت لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے دوران اپنے ہر کام کا اندراج ایک ڈائری میں کریں، بشمول کھانا اور ٹی وی دیکھنا۔ یہ بھی لکھنا تھا کہ لوگ ٹی وی پر کس قسم کا پروگرام دیکھ رہے ہیں۔

البلاس نے جب اس ڈیٹا کا تجزیہ کیا تو انھوں نے پایا کہ جب لوگ ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا کھاتے ہیں تو وہ کھانے میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔

انھوں نے ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانے میں لگنے والے وقت کا موازنہ ان دنوں سے کیا جب لوگ بنا ٹی وی کے کھا رہے تھے اور پایا کہ لوگ ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانے میں زیادہ وقت لگاتے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ ٹی وی دیکھنے میں اتنے مشغول ہوتے ہیں کہ انھیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کتنا کھا رہے ہیں۔

تاہم نتائج سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ٹی وی دیکھتے ہوئے لوگوں نے لازمی زیادہ کھایا ہوگا یا انھوں نے کیا کھایا تھا کیونکہ سروے میں صرف یہ ریکارڈ کیا گیا تھا کہ وہ کھانا کھانے میں کتنا وقت لگاتے ہیں۔

چونکہ لوگوں نے یہ نتائج خود ریکارڈ کیے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر وہ کسی ٹی وی پروگرام کو دیکھتے ہوئے بہت مشغول ہو گئے تھے تو یہ عین ممکن ہے کہ انھیں یہ بھی نہ یاد رہا ہو کہ وہ کتنی دیر سے کھا رہے تھے۔

البلاس کا کہنا ہے کہ موجودہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کھانے میں گزارے گئے وقت کا تعلق زیادہ کیلوریز کھانے سے ہے۔

Getty Images

ان کا کہنا ہے لیب میں کی جانے والی ریسرچ سے ثابت ہوتا ہے کہ جب آپ کا دھیان کھانے پر نہیں ہوتا تو آپ زیادہ کھاتے ہیں۔ تو جب آپ ان تمام شواہد کو ایک ساتھ دیکھتے ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کھانے سے اس پر اثر پڑتا ہے کہ آپ کھاتے وقت کتنا دھیان دیتے ہیں۔

ٹی وی دیکھتے ہوئے زیادہ کھانے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ جب ہم دھیان دیتے ہوئے کھانا کھاتے ہیں تو ہمیں اس کا ذائقہ ویسا محسوس نہیں ہوتا جیسا ٹی وی دیکھتے وقت ہوتا ہے۔

نیدرلینڈز میں ویگننگن فوڈ سیفٹی ریسرچ کے ڈیٹا سائنس کی محقق فلور وین میر کہتی ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم کسی کام میں مشغول ہوتے ہیں تو ہمیں کھانے سے اتنا اطمینان حاصل نہیں ہوتا ہے۔

بطور نیورو سائنسدان وین میر نے کسی کام میں مشغول ہوکر کھانا کھاتے ہوئے انسانی دماغ میں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں متعدد مشاہدے کیے ہیں۔

ایک تحقیق کے دوران جب شرک کو کھانے کے دوران کوئی مختصر یا طویل نمبر یاد کرنے کو کہا گیا تو جن لوگوں نے طویل نمبر یاد کرنے کی کوشش کی انھوں نے بتایا کہ انھیں کھانا کم میٹھا لگا۔

اس دوران وین میر کو ان کے دماغ کے ان حصوں میں سرگرمی کم دیکھنے میں ملی جن کا تعلق ذائقہ کے ادراک سے ہوتا ہے۔

Getty Images

وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ کو کھانے کا ویسا ذائقہ نہیں ملتا جس کی آپ کو تلاش ہوتی ہے تو شاید آپ مطمئن نہ ہوں اور اسی لیے آپ کو جلد ہی کچھ اور کھانے کی طلب ہو سکتی ہے۔

تاہم اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ وین میر کہتی ہیں کہ اگر بچوں کو سبزیاں پسند نہیں تو انھیں ٹی وی دکھاتے ہوئے سبزیاں کھلائی جا سکتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انسانی نفسیات میں شامل ہے کہ وہ ہر سرگرمی میں ایک خاص لطف تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب انھیں کسی کام سے وہ مزہ حاصل نہیں ہوتا تو وہ اسے کہیں اور تلاش کرتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جب کوئی ٹی وی پروگرام آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترتا تو آپ اس لذت کی تلاش میں مزید کھاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمارے جذبات بھی ہمارے کھانے کے رویوں کو ڈھالنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب ہم کوئی ایسی چیز دیکھ رہے ہوتے ہیں جس سے ہمیں خوشی یا اداسی کا احساس ہوتا ہے تو ہم ایسے کھانے کا انتخاب کرتے ہیں جس سے ہمیں کم لذت کا احساس ہو، جیسے پاپ کارن وغیرہ۔

لوگ ٹی وی دیکھتے وقت کیا کھانا پسند کرتے ہیں؟

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ کھانے کے اشتہارات لوگوں کو عام طور پر زیادہ کھانے کی جانب راغب کرتے ہیں۔

تاہم محققین کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بات کھانے کے اشتہارات اور الٹرا پروسیسڈ فوڈز کے درمیان پایا جانے والا تعلق ہے۔ الٹرا پروسیسڈ فوڈز کو اکثر موٹاپے اور دل کی بیماری سمیت دیگر کئی بیماریوں سے جوڑا جاتا ہے۔

فرنینڈا ہاؤبِر ساؤ پالو یونیورسٹی میں سنٹر فار ایپیڈیمولوجیکل ریسرچ ان نیوٹریشن اینڈ ہیلتھ میں محقق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بات کے ثبوت ملتے ہیں کہ بچوں کا ان کھانوں کا انتخاب کرنے کا زیادہ امکان ہوتا جن کے وہ اشتہارات دیکھتے ہیں۔ اور بار بار یہ اشتہارات دیکھنے سے ان میں اشتہار میں دکھائے گئے کھانوں کو ترجیح دینے کے رجحان کو تقویت ملتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ تحقیق میں پایا گیا ہے کہ ٹی وی دیکھتے وقت بچے الٹرا پروسیسڈ فوڈز کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کی ایک جزوی وجہ یہ ہے کہ اکثر ٹی وی دیکھتے ہوئے الٹرا پروسیسڈ فوڈز کھانے میں زیادہ آسان لگتے ہیں۔

لیکن اس قسم کے کھانوں کے اشتہارات کی بڑھتی ہوئی نمائش کو بھی اس کی بڑھتی ہوئی کھپت سے جوڑا جاتا ہے۔

ایسے بچے جو پہلے سے ہی موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں ان پر ان اشتہارات کا زیادہ اثر پڑتا ہے کیونکہ ان میں پہلے سے ہی کھانوں کے اشتہارات کے بارے میں حساسیت زیادہ ہوتی ہے۔

ہاؤبِر کہتی ہیں جب گھر والے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں تو اس خوراک میں عموماً پھل اور سبزیاں زیادہ شامل ہوتی ہیں۔ لیکن ان کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ اگر بچے خاندان کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہوئے کھاتے ہیں تو ایسے میں وہ زیادہ الٹرا پروسیسڈ کھانے کھاتے ہیں۔

’گھر والوں کے ساتھ کھانا کھانے سے ملنے والے فوائد پر ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانے کے منفی اثرات غالب آ جاتے ہیں۔‘

کیا مشغول ہونے کی وجہ سے لوگ کم کھاتے ہیں؟

وین میر کہتی ہیں کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مشغول ہونے کی وجہ سے لوگوں میں کم کھانے یا بالکل نہیں کھانے کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے۔

وہ اس کے لیے ہالینڈ کے کچھ پرائمری سکولوں کی مثال دیتی ہیں جہاں سکول کا دورانیہ مختصر کرنے اور پڑھائی کے دوران ہی طلبہ کو دوپہر کا کھانا کھانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

Getty Imagesبچے ٹی وی دیکھتے ہوئے زیادہ الٹرا پروسیس شدہ کھانے کھا سکتے ہیں

وین میر کا کہنا ہے کہ دوپہر کے کھانے کے دوران پڑھانے کا رجحان زیادہ غیر فعال ہوتا تھا اور اساتذہ یا تو طلبہ کو کچھ پڑھ کر سناتے یا کوئی تعلیمی ویڈیو دکھاتے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے والدین نے دیکھا کہ ان کے بچے اپنا پورا لنچ باکس واپس گھر لا رہے تھے جس سے یہ واضح تھا کہ کھانے کے دوران وہ کسی دوسرے کام میں زیادہ مشغول تھے۔

ایسا ہی اثر بالغوں کے ساتھ کی جانے والی تحقیق میں بھی پایا گیا ہے۔

ایک مطالعے کے شرکا کو امریکی ڈرامے فرینڈز کی دو اقساط دکھائی گئیں۔ ایک گروپ کو ایک ہی قسط دو بار دکھائی گئی جبکہ دوسرے گروپ کو دو مختلف اقساط دکھائی گئیں۔ دوسری قسط کے دوران دونوں گروپوں کو مختلف ناشتے پیش کیے گئے۔

محققین نے پایا کہ جس گروپ نے ایک ہی ایپیسوڈ کو دو بار دیکھا انھوں نے دو مختلف اقساط دیکھنے والے گروپ کے مقابلے میں 211 اضافی کیلوریز کھائیں۔

آسٹریلیا کے میکوری یونیورسٹی میں نفسیاتی علوم کے پروفیسر ڈک سٹیونسن کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ کم مشغول تھے۔

دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو اگر لوگ کھاتے وقت ٹی وی میں مشغول ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے سامنے رکھا کھانا بھول سکتے ہیں۔ لیکن جب ٹی وی ہمیں بوریت کا احساس دلاتا ہے، ایسی صورت میں لوگ زیادہ کھاتے ہیں۔

ایک اور چھوٹی تحقیق میں شرکا کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ کو ٹی وی پر آرٹ کے بارے میں ایک ’بورنگ‘ لیکچر دکھایا گیا، دوسرے کو پر کشش ٹی وی سیریز اور تیسرے کو کچھ بھی نہیں۔

ان تمام گروپوں کو کم کیلوری والے انگور اور ہائی کیلوری والی چاکلیٹ پیش کی گئی۔

محققین نے پایا کہ بورنگ آرٹ لیکچر دیکھنے والے شرکا نے مجموعی طور پر زیادہ کھانے کو ترجیح دی جبکہ ٹی وی پر ڈرامہ سیریز دیکھ والوں نے سب سے کم کھایا یعنی وہ جتنا بور ہوتے اتنا ہی کھاتے۔

تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ فرق صرف انگوروں کی تعداد میں تھا جو انھوں نے کھائے جبکہ چاکلیٹ کی مقدار تقریباً ایک جتنی ہی تھی۔

کیا ہمیں ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانے سے گریز کرنا چاہیے؟

ٹی وی کے سامنے کھانا کھاتے وقت ہم زیادہ کیوں کھاتے ہیں، اس بارے میں کئی نظریات موجود ہیں۔ تاہم اس شعبے میں قابل اعتماد تحقیق کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔

ہاؤبِر کہتی ہیں کہ محققین اکثر اپنے مطالعے کے لیے لوگوں کی ڈائریوں پر انحصار کرتے ہیں جن میں وہ کھانے اور ٹی وی دیکھنے کے رویوں کے بارے میں اندراج کرتے ہیں۔ اور لوگ اکثر غیر صحت بخش کھانوں کے استعمال کو کم رپورٹ کرتے ہیں۔

البلاس نے اپنے مطالعے میں جن شرکا کا ڈیٹا استعمال کیا وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہونے والی تمام سرگرمیوں کو ریکارڈ کر رہے تھے، اس لیے یہ ممکن ہے کہ انھوں اپنے کھانے اور ٹی وی دیکھنے کے ریکارڈ کے بارے میں زیادہ دھیان نہیں دیا ہو۔

کئی محققین لیبارٹری میں کھانے اور ٹی وی دیکھنے والے لوگوں کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔ لیکن ٹی وی دیکھنے کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے گھر میں آرام کر رہے ہیں لہذا لیب میں ایسے حالات کی نقل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

ہاؤبِر کا کہنا ہے کہ لیب میں کسی تحقیق کے دوران براہ راست مشاہدہ کیا جاتا ہے تو اس سے شرکا کے رویوں میں تبدیلی آسکتی ہے کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے اور وہ اپنی کھانے کی عادات میں ترمیم کرتے ہیں۔

دوسری جانب البلاس کا کہنا ہے کہ حقیقی زندگی میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے کھانے کے رویے اور ان پر اثر انداز ہونے والے عوامل بہت پیچیدہ ہیں۔

’ہم کچھ عوامل کے بارے میں جانتے ہیں جن کی وجہ سے ہم کتنا کھاتے ہیں اس پر ٹی وی کتنا اثر انداز ہوتا ہے، لیکن اب بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنھیں بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘

سٹیونسن کا کہنا ہے کہ ہم کتنا کھاتے ہیں اس پر ٹی وی کتنا اثر انداز ہوتا ہے اس کا انحصار بہت سے عوامل پر ہوتا ہے بشمول اس کے کہ ہم کس قسم کا مواد دیکھ رہے ہیں۔

ان کے مطابق ٹی وی نہ صرف ہمارے مزاج کو بدل سکتا ہے بلکہ لاشعوری طریقوں سے بھی ہم پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر سکرین پر موجود کوئی کردار کھانا کھا رہا ہے تو اس سے ہم میں بھی کھانے کی خوہش پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹی وی پر چلنے والے پروگرام کی رفتار سے بھی فرق پڑ سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، انٹرویو شو کے مقابلے ایکشن فلمیں دیکھتے ہوئے ہم زیادہ کھاتے ہیں۔

ہمارے پاس جو کھانا ہے وہ کتنا لذیذ ہے اس سے بھی کھانے کی مقدار میں فرق پڑتا ہے۔

ٹی وی دیکھتے ہوئے ہم کتنے مشغول ہوتے ہیں یہ بھی ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اکثر ٹی وی دیکھنا ہمارا اتنا دھیان نہیں بھٹکاتا جتنا کھانے کے دوران کی جانے والی دیگر سرگرمیاں۔

مختلف مطالعات کے مشاہدے سے معلوم ہوا ہے کہ اس بات کے ثبوت بہت کم ہیں کہ ٹی وی دیکھتے وقت ہم دوسری سرگرمیوں کے مقابلے میں زیادہ کھاتے ہیں جیسے پڑھنا، ویڈیو گیمز کھیلنا یا دوستوں کے ساتھ کھانا۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے کھانے کا رویہ پیچیدہ ہے اور اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا تقریباً ناممکن ہے۔ ’ٹی وی ڈنر‘ کا مطلب صرف پروسس شدہ، زیادہ چکنائی اور زیادہ نمک والے کھانوں سے کہیں زیادہ ہے۔

لہذا اگر آپ کچھ صحت مند غذا کھانے کے لیے بیٹھے ہیں تو آپ کو سوچنا ہوگا کہ کیا آپ واقعی ساتھ میں ٹی وی دیکھنا چاہتے ہیں۔

میٹھا کھانے کی خواہش کیوں پیدا ہوتی ہے اور اسے کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟کھانے کو ضائع ہونے سے کیسے بچائیں؟کیا میٹھی چیزیں واقعی آپ کے لیے نقصان دہ ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More