بائیجوز: ریاضی کے ’خبطی ٹیچر‘ جو ایک ٹیوشن کلاس سے ارب پتی بنے اور پھر زوال کا شکار ہوئے

بی بی سی اردو  |  Aug 11, 2024

Getty Images

یہ نہ تو معروف زمانہ داستان الف لیلیٰ ہے، نہ بالی وڈ کی کوئی مسالہ فلم اور نہ ہی شیکسپییئر کی ’مرچنٹ آف وینس‘ کہ آدمی راتوں رات مالا مال ہوا اور راتوں رات کنگال ہو گیا۔

فرش سے عرش تک اور اوج ثریا سے تحت الثری تک کی یہ کہانی انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے عام گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کی ہے جس نے صرف ایک دہائی میں کامیابی کی بلندیوں کو یوں چھوا کہ دنیا میں امیر ترین لوگوں اور کمپنیوں کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے فوربز کی ارب پتیوں کی فہرست میں آ گئے بلکہ سٹارٹ اپ کمپنیوں کے لیے ایک مثال بن گئے۔

کیرالہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک سکول ٹیچر کے بیٹے رویندرن بائیجو نے جہاں ایک طرف بالی وڈ کے ’بادشاہ‘ اور سپر سٹار شاہ رخ خان کو اپنے کاروبار کا برانڈ ایمبیسڈر بنایا وہیں دنیائے فٹبال کے درخشاں ستارے ارجنٹائن کے کپتان لیونل میسی کو اپنا عالمی برانڈ ایمبیسڈر بنایا۔

ان کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں جہاں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ہیں وہیں کینیڈا اور قطر کی انوسٹمنٹ بورڈ اور اتھارٹیز ہیں۔ لیکن حقیقت بھی یہ ہے کہ رویندرن بائیجو نے محض ایک دہائی میں کامیابی کی بلندیوں کو چھوا اور پھر ویسا ہی زوال ان کے سامنے تھا۔

ان کے عروج و زوال کی کہانی کی طرف بڑھنے سے قبل یہ جانتے ہیں کہ رویندرن بائیجو کون ہیں؟

بائیجو رویندرن کون ہیں؟Getty Images

بائیجو رویندرن پانچ جنوری سنہ 1980 کو جنوبی ریاست کیرالہ کے کنّور ضلع کے ازھیکوڈ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین سکول ٹیچر تھے۔ ان کے والد رویندرن علم طبیعات کے استاد تھے جبکہ ان کی والدہ شوبھنا وللی ریاضی کی استاد تھیں۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مقامی ملیالم زبان میں حاصل کی۔

بائیجو کو بچپن میں کھیل میں زیادہ دلچسپی تھی۔ کرکٹ اور فٹبال کے علاوہ انھیں ٹیبل ٹینس کھیلنا بھی پسند تھا۔ انھوں نے کالج کی سطح پر بھی ان تمام کھیلوں میں حصہ لیا۔ بائیجو انگریزی زبان سیکھنے کا سہرا کرکٹ کمنٹری کو دیتے ہیں یعنی انھوں نے بول چال کی انگریزی کرکٹ کی کمنٹری سے سیکھی۔

کنّور کے سرکاری کالج سے انجینيئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی اور ایک ملٹی نیشنل شپنگ کمپنی میں ملازم ہو گئے۔

ان کی زندگی سادہ ہے اور ان کو جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ بہت کم گو ہیں۔ البتہ جب وہ پڑھا رہے ہوتے ہیں تو نہ صرف وہ الفاظ کے دریا بہاتے ہیں بلکہ ان کے پاس منفرد انداز بھی ہے۔ وہ دن بھر پڑھاتے ہیں لیکن رات کو اپنے سٹاف کے ساتھ فٹبال کھیلتے ہیں جنھیں وہ اپنے وسیع خاندان کا حصہ کہتے ہیں۔

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق انھوں نے اپنے تمام وینچرز کو اپنے نام کے ساتھ ہی منسوب کر رکھا ہے اور وہ اس کے بارے میں بہت حساس بھی ہیں۔

بائیجوز کلاسز کی ابتدا

رویندرن بائیجو نے تعلیم کے شعبے میں محض دس سال کے اندر ایک ٹیوشن کلاس سے یونیکورن کمپنی قائم کرنے تک کا طلسماتی سفر طے کیا ہے۔

ان کے اس سفر کی شروعات مینیجمنٹ میں داخلے کے خواہشمند اپنے دوستوں کی مدد کرنے سے ہوئی۔

واضح رہے کہ انڈیا کے اعلیٰ ترین مینجمنٹ کالجز میں داخلے کے لیے ’سی اے ٹی‘ (کیٹ) کا امتحان ہوتا ہے جو کہ سول سروسز کے بعد سخت ترین امتحان مانا جاتا ہے۔

ممبئی اور پونے میں خدمات انجام دینے والی کمپنی چیمپیئنز اکیڈمی کے سینیئر کنسلٹینٹ اور کوچنگ کے شعبے میں دو دہائیوں سے کام کرنے والے فیاض احمد کے مطابق رویندرن نے دوستوں کو کیٹ کے امتحان کی تیاری کروانے کے ساتھ ساتھ خود بھی امتحان دیا جس میں انھوں نے 100 فیصد نمبر حاصل کیے تو انھیں اپنی اس شاندار کامیابی پر یقین نہیں آیا جس کے بعد وہ دوبارہ اگلے سال امتحان میں شریک ہوئے تاکہ واقعتاً اپنی صلاحیت کو جانچ سکیں۔

اس بار پھر ان کا سکور صد فیصد رہا لیکن انھوں نے ایم بی اے میں داخلہ نہیں لیا۔ مگر اس کے بعد ان کے لیے زندگی میں آگے بڑھنے کی ایک راہ کھل گئی۔

بائیجو نے جب کئی دوسرے دوستوں کو بھی ایم بی اے میں داخلے کے ٹیسٹ (کیٹ) میں کامیاب کروا دیا تو پھر انھوں نے نوکری چھوڑ دی اور کوچنگ کلاسز چلانے کا فیصلہ کیا۔

Getty Images

انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2006 میں ایک اتوار کو بائيجو نے اپنی جو پہلی کلاس لی اس میں 35 افراد شریک تھے اور سب کے سب ان کے دوست، جاننے والے یا رشتہ دارتھے۔ یہ کلاس انھوں نے بنگلور کے کورامنگلا علاقے میں لی تھی۔ رپورٹ کے مطابق جو کلاس ایک ہال میں 35 افراد سے شروع ہوئی تھی وہ چھٹے ہفتے میں بڑھ کر ایک ہزار سے زیادہ ہو گئی۔

ان کے پڑھانے کی بات لوگوں تک دوسرے افراد کی زبانی پہنچی یا پھر انڈیا میں اس وقت مقبول سوشل نیٹ ورک ’اورکٹ‘ کے ذریعے پہنچی۔

یاد رہے کہ فیس بک کی آمد انڈیا میں سنہ 2007 میں ہوئی اس سے قبل اورکٹ ہی مقبول تھا جو ابختم ہو چکا ہے۔

ایک سال بعد سنہ 2007 میں رویندرن بائیجو نے داخلے کے امتحانات کے لیے بائجیوز نام سے کلاسز شروع کی۔ اور ان کی کلاسز آڈیٹوریم کے بجائے سٹیڈیم میں ہونے لگی جہاں درمیان میں رویندرن بائیجو ہوتے تھے اور چاروں طرف امتحانات میں کامیابی کا خواب سجائے طلبہ دم بخود ان کے لکچر کو سنتے تھے۔

پھر سنہ 2011 میں انھوں نے طلبا و طالبات کو امتحانات یا انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے والی بائیجوز کے نام سے ایک کمپنی قائم کی اور سنہ 2015 میں اپنی آن لائن ایپ شروع کی اور تین سال کے اندر ہی سنہ 2018 تک اس کے ڈیڑھ کروڑ سبسکرائبرز بن گئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ایک بڑی کمپنی بن گئی جس کی مالیت ایک ارب ڈالر لگائی گئی۔

اس کمپنی نے جلد ہی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے پلیٹ فارم پے ٹی ایم کو پیچھے چھوڑ دیا اور انڈیا کی سب سے قیمتی اسٹارٹ اپ کمپنی بن گئی۔

کووڈ 19 کی وبا کے دوران اس میں کافی حد تک مزید توسیع ہوئی کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے طلبہ نے آن لائن کلاسز کا رخ کیا۔ لیکن سنہ 2021 میں اس نے 32 کروڑ 70 لاکھ امریکی ڈالر کے نقصان کا اعلان کیا جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 17 گنا زیادہ تھا۔

صرف دو سال قبل یعنی سنہ 2022 میں ان کی دولت کا تخمینہ 22 ارب ڈالر لگایا گیا تھا لیکن ایک ہفتے قبل انڈین میڈیا نے فوربس کے حوالے سے اسے صفر قرار دیا ہے۔

’ریاضی کے خبطی ٹیچر‘ سے شہرت

بائیجو کے کلاسز میں ان کی ایک طالبہ دیویہ گوکل ناتھ تھیں جن سے انھوں نے شادی کی اور پھر دونوں نے مل کر سنہ 2011 میں بائیجو کی پیرنٹ کمپنی ’تھنک اینڈ لرن پرائیوٹ لیمٹڈ‘ قائم کی۔

فورچون میگزین کے مطابق رویندرن کہتے ہیں کہ ان کی اہلیہ شروع سے ہی ان کے سفر میں ساتھ رہیں اور چونکہ ’وہ خود ایک ٹیچر ہیں اس لیے وہ جو بھی فیصلہ کرتی ہیں اس میں طلبہ کی بھلائی ہی ان کے پیش نظر رہتی ہے۔‘

جبکہ اسی میگزین کے مطابق بنگلور کی رہنے والی دیویہ گوکل ناتھ نے رویندرن سے اپنی ملاقات کی کہانی کچھ اس طرح بتائی کہ ان دنوں وہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جی آر ای کی تیاری میں مشغول تھیں جب انھیں ان کے کالج کے دوستوں سے پتا چلا کہ ’ریاضی کا کوئی خبطی ٹیچر‘ ہے جو ریاضی کو بالکل ہی مختلف انداز میں پڑھاتا ہے۔

اس کے بعد انھوں نے بھی ان کی کلاس میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے رویندرن بائیجو کو پہلی بار جیوتی نواس کالج کے آڈیٹوریم میں دیکھا۔ وہ آڈیٹوریم طلبہ سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا لیکن ان کے متواتر سوالوں نے بائیجو کی توجہ ان کی جانب مبذول کروائی۔

انڈیا کے معاشی دارالحکومت ممبئی میں چیمبور کے علاقے میں ’مہاترے اور بیگ‘ کوچنگ کے بانی محمد شاہد کہتے ہیں کہ بائیجو رویندرن کی شہرت اتنی پھیل چکی تھی کہ بعض اوقات وہ بنگلور سے پونے اور ممبئی بھی پڑھانے کے لیے مدعو کیے جاتے تھے اور یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے ابھی اپنی آن لائن لرننگ ایپ لانچ نہیں کی تھی۔

Getty Imagesبائجیوز لرننگ ایپ کو متعارف کرنا

سنہ 2015 میں انھوں نے آن لائن انٹیریکٹو لرننگ ایپ متعارف کروائی جس نے راتوں رات تہلکہ مچا دیا۔ یہاں تک کہ اس میں بین الاقوامی کمپنیوں کی دلچسپی بڑھنے لگی۔

فیاض احمدکہتے ہیں کہ اس ایپ نے نہ صرف ان کی لاگت کو کم کیا بلکہ ان کی رسائی کا دائرہ انتہائی وسیع کر دیا۔ یعنی اب کوئی بہترین استاد سے بیک وقت دنیا کے کسی بھی کونے سے پڑھ سکتا تھا۔

بائیجو نے جب سنہ 2017 میں شاہ رخ خان کو اپنی کمپنی کے ساتھ جوڑا تو اس کا شہرہ انڈیا کے تقریباً ہر گھر میں تھا۔

بائیجو جو کہ خود بھی کرکٹ کے مداح رہے ہیں انھیں معلوم تھا کہ انڈین سماج میں کرکٹ کس قدر پیوستہ ہے اسی کے پیش نظر انھوں نے سنہ 2019 میں انڈین کرکٹ ٹیم کی جرسی کی سپانسر شپ حاصل کی اور یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ قطر میں سنہ 2022 میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے آفیشل سپانسر بھی انہی کی کمپنی تھی۔ بائیجو نے اپنی آبائی ریاست کیرالہ کی فٹبال ٹیم ’کیرالہ بلاسٹر ایف سی‘ کو سپانسر شپ بھی فراہم کی ہے۔

بائیجو نے انٹرنیٹ کے میدان میں اجارہ داری پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے روایتی کلاسز بھی شروع کر دیں اور ایک وقت میں ملک کے کونے کونے میں ان کی تقریباً 600 کوچنگ مراکز بن گئے جہاں طلبہ کی موجودگی میں کلاسز ہونے لگیں۔

اسی سلسلے میں اپریل 2021 میں بائيجو کی پیرنٹ کمپنی تھنک اینڈ لرن نے آکاش ایجوکیشنل سروسز لمیٹڈ کو 940 ملین ڈالر نقد اور سٹاک ڈیل میں حاصل کر لیا۔ یہ معاہدہ اس وقت انڈین انٹرنیٹ سیکٹر میں سب سے بڑی ڈیل میں سے ایک تھا۔ لیکن مارچ 2024 میں تھنک اینڈ لرن اوراے ای ایس ایل نے انضمام کی درخواست واپس لے لی اور آکاش کوچنگ اب تھنک اینڈ لرن برانڈ کے تحت آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے۔

آکاش کے رانچی سینٹر سے وابستہ ایک استاد گھنشیام نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ’بائیجو کی پیشکش ہی اتنی زیادہ تھی کہ آکاش انکار نہیں کر سکا کیونکہ آکاش کو کبھی اپنی اتنی زیادہ قیمت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔‘

Getty Imagesدنیا کا سب سے قابل قدر ایجوکیشن سٹارٹ اپ بائیجوز زوال پذیر کیسے ہوا؟سبرت رائے: سکوٹر کے سفر سے لے کر ایئرلائن کے مالک بننے تک،سہارا گروپ کے سربراہکے عروج و زوال کی کہانی74 سال تک الیکٹرانکس کی صنعت کا بڑا نام ’توشیبا‘ جو اب زوال کا شکار ہےیونیکورن کمپنی

سنہ 2018 تک ایک ارب ڈالر کے ساتھ یہ کمپنی یونیکورن کمپنیوں میں شامل ہو گئی۔ رویندرن نے فوربز کی فہرست میں سنہ 2020 میں 1.8 ارب امریکی ڈالر کے (14,900 کروڑ روپے) کی دولت کے ساتھ ابتدا کیا تھا۔

اسی کے ساتھ رویندرن نے دنیا بھر میں آن لائن تعلیم میں اپنی شناخت بنائی اور انھوں نے 2022 میں ایک انٹرپرائز بنایا جس کی مالیت 22 ارب امریکی ڈالر (1.8 لاکھ کروڑ روپے) تھی۔ مالی سال 2022 میں ان کی کمپنی کو 5,298 کروڑ روپے کی آمدن ہوئی۔ اس وقت ان کے طلبا کی تعداد 12 کروڑ تھی اور اس کے 600 آف لائن مراکز تھے۔

Getty Imagesبائیجو کی ترقی کی وجہ کیا تھی؟

تعلیم اور کوچنگ کے شعبے میں دو دہائیوں سے کام کرنے والے فیاض احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2015 میں جب وہ ایک ذاتی کام کے باعث بنگلور گئے تو انھیں پورے شہر میں بائیجوز کے علاوہ کوئی اور ہورڈنگ نظر نہیں آئی تو انھیں یہ تجسس پیدا ہوا کہ ’یہ کون سی کمپنی ہے جس نے پورے شہر کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے۔‘

ان کے مطابق رویندرن بائیجو نے تعلیم کے شعبے کو آن لائن پلیٹ فارم مہیا کرکے انقلاب برپا کر دیا اور یہی ان کی بڑی کامیابی رہی۔ انھوں نے بتایا کہ انڈیا میں ایک زمانے سے بڑے بڑے کوچنگ سینٹرز ہیں اور ان کی نمایاں خدمات بھی رہی ہیں لیکن بائیجو نے سب کچھ آن لائن فراہم کرکے ایک نیا دروازہ کھول دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ بائیجو کو سب سے زیادہ فائدہ کووڈ 19 کے دوران ہوا کیونکہ سنہ 2020 میں تمام سکول بند رہے اور کلاسز آن لائن ہونے لگیں۔ ایسے میں پہلے سے اس شعبے میں موجود بائیجو نے بہت زیادہ مارکیٹنگ کی۔

اس کے ساتھ ساتھ رویندرن نے اپنی کمپنی کا بزنس ماڈل بھی دوسری لرننگ کمپنیوں سے مختلف کیا جیسا کہ وہ والدین جو ان کے کورسز کی فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے انھیں آسان قرض اور اقساط کی سہولت فراہم کی گئی۔

آکاش لرننگ سے تعلق رکھنے والے گھنشیام کہتے ہیں کہ بائیجو کمپنی نے ایسے والدین کے لیے فوری طور پر قرض کا انتظام بھی کرایا اور اس طرح ان کا کاروبار بڑھا حتیٰ کہ طلبہ ان کی کلاسز چھوڑ بھی گئے تو بھی قرض کی وجہ سے انھیں ایک مستقل آمدن آتی رہی۔

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق مالیاتی لین دین کی مشاورتی کمپنی فینکس ایڈوائزرس کے مینیجنگ ڈائریکٹر امیت کھنہ کہتے ہیں ’بائیجو کے پاس ایک مہارت یہ ہے کہ وہ ایک بہترین سیلز پرسن ہیں۔‘

ان کی اسی خصوصیت نے فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کو بھی ان کی طرف متوجہ کیا اور ستمبر 2016 میں مارک زکربرگ نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں اعلان کیا کہ ’پرسکیلا اور میں ایک انڈین تعلیمی ٹیکنالوجی کمپنی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ہم بائیجو نام کی اس کمپنی کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔‘

امیت کھنہ کے مطابق دو چیزیں بائیجو کے حق میں گئیں، ایک یہ کہ انڈیا میں بیرون ملک کی سرمایہ کاری کی مانگ کیونکہ چین نے ایجوکیش ٹیکنالوجی کو اپنے ملک میں بند کر دیا تھا۔ اور دوسرا کووڈ کی وبا جس کی وجہ سے ساری تعلیم کا آن لائنپر انحصار ہو گیا۔

زوال کی ابتداGetty Images

دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے بائیجو نے اپنے کاروبار کو وسعت دی اور اس نے سنہ 2021 میں دوسری ایجوکیشن کمپنیوں کو حاصل کرنے کی مہم شروع کر دی اور وائٹ ہیٹ جونیئر، آکاش، ٹاپر، ایپک اور گریٹ لرننگ جیسے سٹارٹ اپس اور کمپنیوں کو خرید لیا۔

ایک آزاد کارپوریٹ گورنینس ریسرچ اور ایڈوائزری فرم کے سربراہ شری رام سبرامنیم نے 2023 میں بی بی سی سے بائیجو کے زوال پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وبا کے بعد جب بچے سکولوں میں واپس جانے لگے تو اس میں گراوٹ ہونا ہی تھی۔ لیکن بائیجو ترقی کرتی رہی اور سرمایہ کار اس میں پیسہ لگاتے رہے۔ انھیں اس بات کے آثار نظر نہیں آئے کہ اس کاروبار میں مندی آ سکتی ہے۔‘

گھنشیام بھی یہ ہی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وبا کے دور کے بعد جب سکول اور تعلیمی ادارے پھر سے کھلے اور طلبہ کو مطلوبہ چیزیں بائیجو پر نہیں ملیں تو یکایک بائیجو کی آمدن میں کمی ہونے لگی جبکہ اس کے اخراجات جوں کے توں تھے۔

اور یہاں سے ان کی ایجوکیشن سلطنت میں گراوٹ شروع ہوئی۔ کمپنی نے سنہ 2023 تک کے لیے جو انڈین ٹیم کی جرسی کی سپانسرشپ حاصل کی تھی اسے برقرار رکھنے سے دست بردار ہو گئی۔

گھنشیام کے مطابق اس کے بعد انڈیا میں کرکٹ کنٹرول بورڈ اور بائیجو کے درمیان اختلافات ہوئے اور بات مقدمے تک پہنچ گئی۔ لیکن حال ہی میں یہ تنازع سلجھ گیا ہے لیکن ان کی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے والی دوسری کمپنیوں کے ساتھ ان کے تنازعات برقرار ہیں۔

اسی طرح مارک زکربرگ نے بھی سنہ 2023 میں اس کمپنی سے اپنے ہاتھ ہٹا لیے۔

انھوں نے بتایا کہ بائیجو نے جس تیزی کے ساتھ لوگوں کو بھرتی کیا تھا اسی تیزی کے ساتھ وہاں سے انھیں نکالا بھی گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال بائیجو نے تقریباً 2000 ملازمین کو فارغ کیا۔

فنڈز کی کمی کے بعد بائیجو نے رواں سال مارچ کے شروع میں عملے کو ایک خط لکھا جس میں اعلان کیا گیا کہ جنوری 2024 تک کی تمام زیر التواء تنخواہیں ادا کر دی گئی ہیں۔

سنہ 2022 میں جس کمپنی کی مالیت 22 بلین ڈالر تھی اس کی ایک ہفتے قبل اس کی مالی قدر 220 ملین رہ گئی ہے اور اس طرح صرف دو برسوں میں اس میں 99 فیصد کمی ہوئی۔

فیاض احمد اور گھنشیام کا کہنا ہے بائیجو کے تیزی سے عروج اور زوال نے انڈیا کے ابھرتے ہوئے سٹارٹ اپ کے ماحول پر بڑا اثر ڈالا ہے اور اس کی وجہ سے سرمایہ کار ایسے اداروں میں سرمایہ کاری سے متعلق محتاط ہو رہے ہیں۔

فیاض احمد کہتے ہیں کہ حد سے زیادہ خواہش اور حد سے زیادہ رسائی تباہ کن حماقتوں کا باعث بنتی ہے اور آپ کی کاروباری سلطنت کو ڈرامائی طور پر غیر مستحکم کر سکتی ہے اور بائیجو کی کہانی انڈیا کے تمام کاروباریوں کے لیے ایک سبق ہے۔

دنیا کا سب سے قابل قدر ایجوکیشن سٹارٹ اپ بائیجوز زوال پذیر کیسے ہوا؟دو پاکستانی بھائیوں کی کمپنی ایمازون کی ٹاپ سیلرز لسٹ میں کیسے شامل ہوئی؟وال سٹریٹ کے معروف بروکر کے عروج و زوال کی کہانی جن کا ماننا تھا کہ ’لالچ اچھی چیز ہے‘لیکمے: وہ انڈین کاسمیٹکس برانڈ جس کے پیچھے اندرا گاندھی کی کاوشیں رہیںاڈانی کی کاروباری سلطنت کو چند دنوں میں 100 ارب ڈالر کا نقصان کیسے پہنچا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More