’بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے‘: شیخ حسینہ کے بیٹے نے یہ موازنہ کیوں کیا اور کیا یہ حقائق پر مبنی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 08, 2024

Getty Images

’حسینہ واجد نے اپنی مرضی سے پسند کا آرمی چیف لگایا، اسی آرمی چیف نے اپنے لوگوں پر گولی چلانے سے انکار کیا۔ بنگلہ دیشں سے برے حالات پاکستان میں ہیں، ہمارے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری بنگلہ دیش کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ جس طرح بنگلہ دیش میں حسینہ واجد فرار ہوئی، ایسے فرار ہونے کے راستے بند کیے جائیں۔‘

سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف رہنما عمران خان کو بدھ کے روز صحافیوں سے بات چیت کا موقع ملا تو انھوں نے ڈھاکہ میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں پاکستان اور بنگلہ دیش کا موازنہ ان الفاظ میں کیا۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں کے لیے شروع ہونے والی طلبہ تحریک حکومت مخالف پرتشدد احتجاج میں بدلی تو سوموار کے دن 15 سال برسراقتدار رہنے والی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کو استعفی دے کر ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ اس سارے قصے میں بنگلہ دیش کی فوج کے آرمی چیف وقار الزمان کا مرکزی کردار رہا جنھوں نے طلبہ کے مطالبے پر نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو مُلک کی عبوری حکومت کا نگران مقرر کیا اور دوسری جانب سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا سمیت کئی سیاسی مخالفین کو بھی رہا کر دیا گیا ہے۔

عمران خان وہ واحد شخصیت نہیں ہیں جو بنگلہ دیش کی صورت حال کا موازنہ پاکستان سے کر رہے ہیں بلکہ ڈھاکہ سے سامنے آنے والے مناظر کے بعد ایک جانب جہاں پاکستان میں گزشتہ سال نو مئی کو پیش آنے والے واقعات کا ذکر ہوتا رہا تو دوسری جانب خود شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد نے بھی ایسا ہی موازنہ کیا اور کہا کہ ’بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے۔‘

واضح رہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف ماضی میں بھی مشرقی پاکستان کے حالات کی مثال دیتی رہی ہے تاہم موجودہ صورت حال میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بنگلہ دیش کی حالیہ صورت حال سے پاکستان کا موازنہ کرنا درست ہے؟

Getty Images

تاہم اس سے قبل یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد، جو اپنی والدہ کے مشیر بھی تھے، نے کس تناظر میں پاکستان اور بنگلہ دیش کا موازنہ کیا۔

بی بی سی کے پروگرام نیوز آور میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سجیب واجد نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ’بنگلہ دیش کا سیاسی مستقبل بھی پاکستان کی طرح ہو سکتا ہے۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ ’(آنے والے دنوں میں) بنگلہ دیش میں اسلامی شدت پسند دوبارہ سے اپنی جگہ بنائیں گے، جنھیں ان کی (سابق) حکومت نے بڑی مشکل سے محدود کیا تھا۔ اور اب بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے۔‘

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس بیان پر کوئی بھی ردعمل دینے سے انکار کیا ہے جبکہ متعدد سابق پاکستانی سفارت کاروں سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک معیوب موازنہ اور تجزیہ ہے۔‘

بنگلہ دیش کی صورتحال پر نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار اس بارے میں مِلے جلے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

’یہ غصے میں دیا گیا بیان ہے‘

ڈھاکہ سے وکیل رضوانہ مسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ غصے یا بغض میں دیا گیا بیان ہے جس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش میں اسلامی رہنما اب موجود نہیں ہیں۔ عوامی لیگ کی سابق حکومت نے ایسی تمام سیاسی جماعتوں کو ختم کر دیا تھا جو اسے طویل مدت میں نقصان پہنچا سکتی تھی۔ اس میں جماعتِ اسلامی سرِ فہرست تھی جس پر اب پابندی عائد ہوچکی ہے اور اس کی زیادہ تر قیادت اب ملک سے باہر ہے۔‘

رضوانہ مسلم کہتی ہیں کہ ’اب ان جماعتوں کا ملک واپس آنے کا جواز اس لیے نہیں بنتا کیونکہ بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک پرانے چہروں کو نہیں دیکھنا چاہتی اور وہ مذہبی حکومت کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ تو اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔‘

نئی دہلی سے صحافی جینت رائے چوہدری بھی بنگلہ دیش کے حالات کے پاکستان کے ساتھ موازنہ کو درست نہیں گردانتے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آج بنگلہ دیش کا موازنہ خطے کے دیگر ممالک سے کریں تو اس نے ترقی میں ناصرف پاکستان بلکہ انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔‘

’بنگلہ دیش اس وقت دنیا میں تیارہ شدہ کپڑے برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔‘

یاد رہے کہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کا غریب ترین ملک تھا جس کے معاشی حالات اتنے ابتر تھے کہ اُس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے بنگلہ دیش کو’باسکِٹ کیس‘ کہا تھا۔

یہ حالات 1974 میں مزید خراب اس وقت ہوئے جب بنگلہ دیش میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں قحط سالی ہوئی اور اسی دوران امریکی صدر رچرڈ نِکسن کی حکومت نے بنگلہ دیش کو دی جانے والی امداد بھی ختم کر دی۔ مگر آج تقریباً 52 برس بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بن کر ابھرا ہے۔

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ غیر سرکاری تنظیموں کا ہے جن میں محمد یونس کا گرامین بینک اور فضلِ حسن عابد کا شروع کیا ہوا ادارہ ’براک‘ شامل ہیں۔

’فوجی اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائیں گے‘: عوام کی نفرت، بے بس سکیورٹی اہلکار اور اقتدار کے آخری لمحات میں حسینہ واجد کی ضد’یہ ہو گیا بنگلہ دیش کا نو مئی‘: ڈھاکہ کے وہ مناظر جنھوں نے لاہور کے جناح ہاؤس کی یاد تازہ کر دیGetty Images’پاکستان جیسا بننے سے زیادہ افغانستان بننے کا خدشہ ہے‘

جینت رائے چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اس وقت انڈیا میں یہ خدشہ ہے کہ پاکستان جیسا بننے کے بجائے بنگلہ دیش کہیں افغانستان نہ بن جائے۔‘

ان کے مطابق اس کی مثال 1990 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت سے جا ملتی ہے۔ ’اُس وقت کئی بنگلہ دیشی نوجوان طالبان کی سوچ سے متاثر ہو کر افغانستان منتقل ہوگئے تھے اور ان کے لیے لڑنے کو بھی تیار تھے۔ لیکن ان کی حکومت کے گِرنے کے بعد یہی نوجوان واپس بنگلہ دیش آگئے۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ وہ دور تھا جب شیخ حسینہواجد کی حکومت کم عرصے کے بعد ختم ہوچکی تھی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کی حمایت کرنے والا گروہ اب پھر سے سرگرم ہوسکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان بننے سے زیادہ بڑا خدشہ مجھے بنگلہ دیش کے افغانستان بننے کے بارے میں ہے۔‘

تاہم پاکستان کے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں انڈیا سٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرّم عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کا بنیادی ڈھانچہ بہت مختلف ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں فوج نے طویل عرصے تک حکمرانی کی ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش میں تواتر سے جمہوری حکومتیں رہی ہیں۔ سنہ 2000 کی دہائی کے بعد زیادہ عرصہ جمہوری حکومتوں کا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بنگلہ دیش میں بنیادی طور پر معیشت مضبوط ہوتی دکھائی دی ہے۔خواتین پہلے سے زیادہ باشعور ہیں اور طلبہ یونین مضبوط رہی ہیں اور ملک کی سیاست کو بہتر طور پر سمجھتی ہیں۔ یہاں کی اپنی تہذیب، زبان ہے اور جمہوری اقدار کو تقویت دی جاتی ہے۔‘

ڈاکٹر خرّمبنگلہ دیش کے حالات کا پاکستان کے ساتھ موازانہ کرنے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’اسی لیے بنگلہ دیش میں فوجی آمریت یا حکومت آنے کا سوال نہیں بنتا۔ اور اگر کسی ہائبرڈ نظام کو متعارف کیا بھی جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گا۔‘

اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’جب بنگلہ دیش کے ملٹری چیف نے شیخ حسینہ کی حکومت ختم ہونے کا اعلان کیا اور اس کے بعد کہا کہ ہم عبوری حکومت بنائیں گے، تب طلبہ یونین نے ناصرف اس بات کو رد کیا بلکہ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کو بطور امیدوار سامنے لے کر آئے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش کی مضبوط طلبہ یونین اور ان کی متحرک تحریک سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کرے گی کیونکہ فوج میں بھی ان کے وفادار اور حامی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’فوج میں ان کے حمایتی گروہ کی بنیادی وجہ شیخ حسینہ کی جانب سے اپنی جماعت عوامی لیگ کے ساتھ وفادار فوجیوں کو ترقی دینا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آرمی چیف وقار الزمان کو بھی دیکھیں تو ان کی وفاداری پہلے شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کے ساتھ ہوگی۔ تاہم طلبہ یونین اب نہیں چاہیں گے کہ شیخ حسینہ یا ان کی باقیات ابآنے والی حکومت کا حصہ بنیں۔ تو پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔‘

’فوجی اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائیں گے‘: عوام کی نفرت، بے بس سکیورٹی اہلکار اور اقتدار کے آخری لمحات میں حسینہ واجد کی ضد’یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا‘: بنگلہ دیش میں عوام کو حسینہ واجد کی حکومت پر اتنا غصہ کیوں ہے؟’یہ ہو گیا بنگلہ دیش کا نو مئی‘: ڈھاکہ کے وہ مناظر جنھوں نے لاہور کے جناح ہاؤس کی یاد تازہ کر دیشیخ حسینہ: بنگلہ دیش کو معاشی طاقت بنانے والی وزیرِ اعظم جن کا ’آمرانہ رویہ‘ عوامی غصے کا باعث بنا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More