Reutersیاروسلاوا ماہوچک نے ہائی جمپ کا 37 سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا ہے
جولائی کے آغاز میں یوکرین کی ایتھلیٹ یاروسلاوا ماہوچک ہائی جمپ کا 37 سال پرانا ریکارڈ توڑنے میں کامیاب ہوئیں۔ اب وہ پیرس اولمپکس میں تمغہ جیتنے کے لیے فیورٹ کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔
کھیلوں کے ماہرین کے مطابق ان کی یہ کامیابی ایتھلیٹکس کے میدان کی ایک منفرد مثال ہے کیوں کہ ایتھلیٹکس کے بیشتر عالمی ریکارڈز 1980 کی دہائی میں ٹوٹے تھے۔
’میں نے یوکرین کا نام عالمی ایتھلیٹکس کی تاریخ میں رقم کر دیا ہے‘Getty Imagesہائی جمپ کا سابقہ ریکارڈ بلغاریہ کی سٹیفکا کسٹاڈینووا نے 1987 میں بنایا تھا
سات جولائی کو پیرس ڈائمنڈ لیگ میں 22 سالہ عالمی چیمپئن یاروسلاوا ماہوچک نے 2.10 میٹر کی اونچائی عبور کر کے ہائی جمپ کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس سے قبل 2.09 میٹر کا ریکارڈ بلغاریہ کی سٹیفکا کوسٹاڈینووا نے 1987 میں روم میں قائم کیا تھا۔
کوسٹاڈینووا اس ریکارڈ کو ’تاریخی‘ قرار دیتی ہیں صرف اس لیے نہیں کہ اس ریکارڈ کو توڑنے میں کسی ایٹھلیٹ کو 37 سال لگ گئے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ’انسانی صلاحیتوں کی کوئی حد نہیں ہے اور یہ ان مایوس کن دعوؤں کو غلط ثابت کرتی ہے کہ بعض ایتھلیٹکس ریکارڈز ہمیشہ کے لیے بنے ہیں۔‘
2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے چند ہفتوں بعد ہی ماہوچک اپنا آبائی شہر دنیپری اور خاندان کو چھوڑ کر سربیا منتقل ہو گئی تھیں جہاں انھوںنے ورلڈ انڈور چیمپئن شپ میں ہائی جمپ میں طلائی تمغہ جیتا۔
اب وہ پرتگال میں مقیم ہیں۔
اپنے ریکارڈ توڑ جمپ کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ماہوچک نے بتایا کہ ’آخرکار میں نے یوکرین کا نام عالمی ایتھلیٹکس کی تاریخ میں رقم کر دیا ہے۔‘
ماہوچک اب پیرس اولمپکس 2024 میں بھی سونے کا تمغہ جیتنے کے لیے پُرامید ہیں۔
تین دن میں دو تمغے: منو بھاکر ایک ہی اولمپکس میں دو میڈلز جیتنے والی پہلی انڈینپیرس اولمپکس میں پاکستانی تیراکوں کی کارکردگی: ’اصل غصہ کھیلوں کے نظام پر ہے، نکل ان بچوں پر رہا ہے‘ فرانس میں حجاب پہننے پر پابندی نے کئی نوجوان کھلاڑیوں کے خواب توڑ دیےایتھلیٹکس کے سابقہ ریکارڈGetty Images
جمیکن ایتھلیٹ یوسین بولٹ کو دنیا کا تیز ترین شخص کہا جاتا ہے۔ برلن میں 2008 کی عالمی چیمپئن شپ میں وہ مردوں کی 100 میٹر کی دوڑ 9.6 سیکنڈ سے بھی کم وقت میں مکمل کرنے والے پہلے شخص بن گئے۔ انھوں یہ فاصلہ 9.58 سیکنڈ میں طے کیا تھا۔
ایک میل اور 1,500 میٹر کی ریس کے عالمی ریکارڈ ہولڈر کینیا کے فیتھ کیپیگون ہیں۔ انھوں نے یہ ریکارڈز بالترتیب 2023 اور 2024 میں بنائے ہیں۔
خواتین کی ٹرپل جمپ کا عالمی ریکارڈ 15.74 میٹر کے ساتھ وینزویلا کی یولیمار روہاس کے نام ہے۔
صحافی اور اب یوکرین کی مسلح افواج میں افسر یوری اونشچینکو کہتے ہیں کہ کئی دہائیوں سے قائم زیادہ تر ریکارڈز 80 کی دہائی کے آخر میں بنے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ’ممنوعہ ادویات کا استعمال اپنے عروج‘ پر تھا۔
Getty Imagesخواتین کی ٹرپل جمپ کا عالمی ریکارڈ وینزویلا کی یولیمار روہاس کے نام ہے
’اس زمانے میں بہت سے کھلاڑیوں نے ہارمونز اور سٹیرائڈز استعمال کیں۔ آج 35 سے 40 سال بعد تمام تکنیکی کامیابیوں، غذائیت اور تربیت میں جدت کے باوجود بھی دورِ حاضر کے کھلاڑیوں کے لیے یہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہیں۔‘
جان بروور سفوک یونیورسٹی میں سپورٹس اور ایکسرسائز سائنس کے وزٹنگ پروفیسر ہیں۔ ان کے خیال میں کافی حد تک یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اُس دور میں جو ریکارڈ قائم کیے گئے تھے ان کے لیے کارکردگی بڑھانے والی ادویات کی مدد لی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں ان ادویات کے استعمال پر پابندی نہیں تھی۔
’منشیات کی جانچ پڑتال اور اس کے استعمال کو لے کر آگاہی کا پروگرام اب پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ ہر ملک کی اپنی قومی ڈوپنگ ایجنسی ہوتی ہے جو ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی (واڈا) کی رہنمائی کے لیے کام کرتی ہے۔‘
Getty Imagesماریٹا کوچ نے چھ اکتوبر 1985 کو 400 میٹر کی دوڑ 47.6 سیکنڈ میں مکمل کرکے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا
مشرقی جرمنی کی ایتھلیٹ ماریٹا کوچ نے چھ اکتوبر 1985 کو 400 میٹر کی دوڑ 47.6 سیکنڈ میں مکمل کرکے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں منعقد ورلڈ کپ کے دوران بنایا گیا کوچ کا ریکارڈ کافی عرصے تک موضوعِ بحث رہا ہے۔
آج تک کوئی بھی ان کے ریکارڈ کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا ہے۔
انھوں نے یہ ریکارڈ ایسے وقت میں بنایا تھا جب مشرقی جرمنی اپنے کھلاڑیوں کو منظم طریقے سے ڈوپ کروانے کے لیے جانا جاتا تھا۔
تاہم کوچ پر کبھی بھی منشیات کا الزام ثابت نہیں ہو سکا اور وہ ہمشہ ڈوپ ٹیسٹ کلیئر کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان کا ہمیشہ کہنا تھا کہ انھوں کبھی کچھ غلط نہیں کیا۔
Getty Images1988 کے اولمپکس میں امریکی سپرنٹر فلورنس گرفتھ جوائنر نے 100 میٹر اور 200 میٹر کی دوڑ میں خواتین کے عالمی ریکارڈ قائم کیے تھے
سنہ 1988 کے اولمپکس میں امریکی سپرنٹر فلورنس گرفتھ جوائنر نے 100 میٹر اور 200 میٹر کی دوڑ میں خواتین کے عالمی ریکارڈ قائم کیے تھے۔ انھوں نے 100 میٹر کے فائنل میں 10.54 سیکنڈز میں ریس مکمل کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ وہ اپنی قریبی حریف سے 0.30 سیکنڈ آگے تھیں۔
اسی اولمپکس کے دوران 200 میٹر کی دوڑ کے مقابلوں کے سیمی فائنل میں انھوں نے 21.56 سیکنڈز کا عالمی ریکارڈ قائم کیا اور پھر فائنل میں 21.34 سیکنڈز میں ریس جیت کر سیمی فائنل میں بنایا اپنا ہی ریکارڈ 0.22 سیکنڈ سے توڑ دیا۔
جوائنر کے یہ دونوں ریکارڈ اب بھی قائم ہیں۔
بعد ازاں ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنی پرفارمنس بہتر بنانے کے لیے کارکردگی بڑھانے والی ممنوعہ ادویات کا استعمال کرتی ہیں۔ 1988 میں ان کا 11 مرتبہ ٹیسٹ کیا گیا تاہم ان پر ممنوعہ ادویات کا استعمال کبھی ثابت نہیں ہوسکا۔
Getty Imagesٹریک ایتھلیٹکس میں سب سے پرانا ریکارڈ چیکوسلواکیہ کی جرمیلا کراتچوویلووا کے پاس ہے
جون 1988 میں سابق سوویت یونین کی گیلینا چسٹیاکووا نے 7.52 میٹر چھلانگ لگا کر لانگ جمپ میں خواتین کا عالمی ریکارڈ بنایا تھا جو آج بھی قائم ہے۔
ٹریک ایتھلیٹکس میں سب سے پرانا ریکارڈ چیکوسلواکیہ کی جرمیلا کراتچوویلووا کے پاس ہے۔ انھوں نے 1983 میں 800 میٹر کی ریس ایک منٹ 53:28 سیکنڈز میں مکمل کرکے عالمی ریکارڈ توڑا تھا۔
کیا انسانی کارکردگی کی کوئی حد ہے؟Getty Images1,500 میٹر کی ریس کا عالمی ریکارڈ کینیا کے فیتھ کیپیگون کے نام ہے
’لیٹیٹیوڈ پرفارمنس‘ نامی کھلاڑیوں کی ٹریننگ کے ادارے کی بانی اور کھیلوں کی ماہر نفسیات سوفی بروس کہتی ہیں اگرچہ کھلاڑیوں کی کارکردگی کا اندازہ ٹیکنالوجی کی مدد سے لگایا جا سکتا ہے لیکن اس کے ’کچھ پہلوؤں کی پیمائش کرنا قدرے مشکل ہے جس میں کھلاڑیوں کی جیتنے کی خواہش، جذبہ اور مائنڈ سیٹ شامل ہے۔‘
بروس کہتی ہیں کہ جب آپ کو سمجھ آتی ہے کہ بہترین پرفارمنس کے لیے ہر چیز کا صحیح وقت، صحیح طریقے اور صحیح شخص کے لیے ایک ساتھ ہونا کتنا ضروری ہے تو آپ کو پتا لگتا ہے کہ ریکارڈ توڑنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے۔‘
’یہ ریکارڈز صرف ٹوٹنے کے لیے نہیں ہوتے اور نہ یہ محض ہماری ترقی کی علامات ہیں۔
’یہ ریکارڈز تاریخ کے ان شاندار لمحات کی نمائندگی کرتے ہیں جب ناممکن ممکن میں تبدیل ہوئے اور کھلاڑی اپنے کھیل میں کچھ غیر معمولی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘
پیرس اولمپکس کی شناخت بننے والی ’سرخ ٹوپی‘ جس کی تاریخ صدیوں پرانی ہےوہ کھلاڑی جس نے اولمپکس میں شرکت کے لیے اپنی انگلی کٹوا لیپنجاب: وہ صوبہ جس کے بغیر انڈیا کی اولمپکس تاریخ ادھوری ہی رہے گی