پاکستان کے غدار محبِ وطن

بی بی سی اردو  |  Jul 24, 2024

Getty Images

’ان میں سے کچھ وہ ہیں جو دیارِ غیر میں ملکی سلامتی کے خلاف منصوبے بیان رہے ہیں اور بیرونی طاقتوں کے بل بوتے پر پاکستان میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو بیرونِ ملک جا کر اپنے ہی ملک کے خلاف زہر اگلنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ وہ نظریہ پاکستان اور نفاذ اسلام کا نعوذ باللہ مذاق اڑاتے ہیں۔‘

(مندرجہ بالا اقتباس 1980 کی دہائی میں جنرل ضیا الحق کی ایک تقریر سے لیا گیا ہے۔ تب پی ٹی آئی نہیں تھی مگر پیپلز پارٹی تو تھی)

یہ وہی ضیا الحق کے غیض و غضب کا شکار پیپلز پارٹی تھی جو اپنے پہلے دورِ حکومت میں فروری 1975 میں صوبہ سرحد ( خیبر پختونخوا)کے گورنر حیات محمد خان شیرپاؤ کی بم دھماکے میں ہلاکت کے 48 گھنٹے میں ہی اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ اس موت کی ذمہ دار نیشنل عوامی پارٹی (نیپہے۔

لہٰذا اس پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور قیادت کو حراست میں لے کر ملک دشمنی، بیرونی آلہ کاری اور غداری کی فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کی توثیق کی۔

یہ وہی نیشنل عوامی پارٹی تھی جسے عین پاکستان انڈیا جنگ کے دوران 27 نومبر 1971 کو یحییٰ حکومت نے ملک دشمن اور غدار کہہ کر کالعدم قرار دیا۔ بعد ازاں سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اس پارٹی کو اقتدار سنبھالتے ہی بحال کر دیا اور بلوچستان اور سرحد میں اس پارٹی کی حکومت بنی۔

نو ماہ بعد دونوں صوبائی حکومتوں کو ملکی سالمیت بچانے کے نام پر برطرف کر دیا گیا۔ تین برس بعد نیشنل عوامی پارٹی دوبارہ غدار قرار پا کر کالعدم قرار پائی۔ حالانکہ نیپ کے سربراہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف رہے۔ ان کی جماعت نے 1973 کے آئین کی توثیق بھی کی پھر بھی غدار ٹھہری۔

کالعدم نیپ نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے جنم لیا ۔اس نے مارچ 1977 کے انتخابات میں قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور بھٹو حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کا حصہ بھی بنی۔

Getty Imagesشیخ مجیب الرحمان 23 فروری 1974 کو لاہور آئے تھے

بھٹو دور میںکالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے ولی خان سمیت متعدد رہنماؤں کو ملک دشمنی اور غداری کے الزام میں سزا دینے کے لیے حیدرآباد ٹریبونل قائم ہوا مگر ضیا الحق رجیم نے تختہ الٹنے کے فوراً بعد قیادت کو رہا کر دیا۔ پھر اسی رجیم نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر مسلمانی بھی چیک کی۔

1983 میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ( کالعدم عوامی نیشنل پارٹی ) پیپلز پارٹی کی قیادت میں ضیا مخالف ایم آر ڈی کا کچھ دنوں کے لیے حصہ بنی۔ تین برس بعد نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے متحرک ہوئی اور اگلے چالیس برس میں مختلف مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے ہمراہ حصہ دار بنی۔ اب اس کی حب الوطنی تا حکمِ ثانی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

جی ایم سیّد بھی 1950 کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کے بنیادی ارکان میں شامل رہے۔ پاکستان بننے سے پہلے سندھمسلم لیگ میں ان سے بڑا کوئی محبِ وطن نہ تھا مگر نئے ملک میں ان کی سیاسی زندگی غداری و نیم غداری کا پنڈولم بنی جھولتی رہی۔ کبھی نظربندی نافذ ہو جاتی کبھی ختم ہو جاتی۔ کبھی پھول بھجوائے جاتے کبھی کیک۔ وفاتکے بعد ان کا نام اس گیلری میں کندہ کر دیا گیا، جنھوں نے سندھ کے عوام کے سیاسی شعور کو ایک نئی سمت دی۔

عوامی لیگ کی کہانی زیادہ دلچسپ ہے۔ 1968 میں شیخ مجیب الرحمان سمیت عوامی لیگ کی قیادت کو ایوب حکومت نے انڈین ایجنٹ قرار دے کر اگر تلہ سازش کیس ٹریبونل قائم کیا۔ پھر اچانک غداری کا ٹیگ ہٹا لیا گیا۔ 1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ کو حصہ لینے کی اجازت ملی۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں سوائے دو کے تمام نشستیں جیت لیں۔

یحییٰ خان نے شیخ مجیب کو اگلا وزیرِ اعظم قرار دیا مگر چار ماہ بعد مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن شروع ہوتے ہی عوامی لیگ کو پاکستان کا غدار قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا گیا۔ قیادت یا تو زیرِ زمین چلی گئی، فرار ہو گئی یا گرفتار ہو گئی۔ جیتی ہوئی 160 نشستوں میں سے 76 خالی قرار دے کر حکومت کی حلیف محبِ وطن جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں مگر متحدہ پاکستان کی اس آخری پارلیمنٹ کا اجلاس کبھی نہ ہو سکا۔

جس ذوالقفار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن اور عوامی لیگ کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے آج پاکستان بچ گیا، اسی بھٹو نے فروری 1974 میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس کے دوران شالامار باغ میں بنگلہ دیش کے وزیرِاعظم شیخ مجیب الرحمان کا ہاتھفضا میں بلند کرتے ہوئے کہا آپ میرے بھائی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے’میر جعفر، میر صادق‘: پاکستان کے وہ سیاستدان جنھیں غداری کے القابات سے نوازا گیاپاکستان کا وہ ’سیاسی‘ فتویٰ جس کے خلاف بھٹو، شیخ مجیب اور مفتی محمود ہم آواز ہوئےغدار ہونا اچھی بات نہیں ہےGetty Images’اکبر بگٹی زندگی بھر اسٹیبلشمنٹ نواز سمجھے جاتے رہے۔ آخری وقت میں جانے کیا سوجھی کہ ’غداری‘ کے راستے پر چل پڑے‘

کیمونسٹ پارٹی پہلی سیاسی جماعت تھی جسے 1954 میں کالعدم قرار دیا گیا۔ فردِ جرم یہ تھی کہ اس نے فوج کے کچھ افسروں سے مل کر شہید وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی حکومت برطرف کرنے کی سازش رچائی تھی۔ یہ تاریخ میں پنڈی سازش کیس کے نام سے محفوظ ہے۔

دو بڑے سازشیوں میں سے ایک فیض احمد فیض کا کلام اب جماعتِ اسلامی سے لے کر شہباز شریف تک ہر کوئی اپنی تقاریر میں بلاججھک استعمال کرتا ہے جبکہ بنیادی سازشی میجر جنرل ریٹائرڈ اکبر خان نے بعد ازاں بھٹو حکومت میں مشیرِ قومی سلامتی کے فرائض انجام دیے جبکہ تیسرے سازشی سجاد ظہیر کو پنڈت جواہر لال نہرو کی درخواست پر پاکستان بدر کر دیا گیا۔

مشرقی بنگال کو پاکستان میں شامل کروانے والے حسین شہید سہروردی کو پہلے محبِ وطن پاکستانی کا تمغہ ملا، پھر غداری کا سرٹیفکیٹ تھمایا گیا، پھر وزیرِ اعظم بنے اور پھر بطور غدار بیروت میں وفات پا گئے۔

ولی خان کے والد خان عبدالغفار خِان ملک بننے کے بعد کے ابتدائی غداروں میں سرِفہرست تھے۔ ان کے بیٹے بھی ’مشکوک پاکستانی‘ قرار پائے۔ آج پشاور کا ایئرپورٹ باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے اور مردان میں خان عبدالولی خان یونیورسٹی قائم ہے۔

اکبر بگٹی زندگی بھر اسٹیبلشمنٹ نواز سمجھے جاتے رہے۔ آخری وقت میں جانے کیا سوجھی کہ ’غداری‘ کے راستے پر چل پڑے۔ اتنا تجربہ کار سیاستداں جو نائب وزیرِ دفاع، گورنر اور وزیرِ اعلی رہا یہ سامنے کا نکتہ نہ سمجھ سکا کہ اسٹیبشلمنٹ سے بغاوت ہی دراصل ملک سے غداری ہے۔

بے نظیر بھٹو بادلِ نخواستہ دو بار وزیرِ اعظم تو رہیں مگر حساس قومی اداروں کی نگاہ میں سکیورٹی رسک ہی رہیں۔ الطاف حسین غدار اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے سے ایک دن پہلے تک بادشاہ گروں کی آنکھوں کا تارہ تھے۔

عمران خان بطور ’مسٹر کلین‘ بادشاہ گروں کے ’بلیو آئیڈ بوائے‘ قرار پائے مگر جب ان کے قلمی پودے نے اپنی جڑیں خود پکڑ لیں، خود کو واقعی وزیرِ اعظم سمجھنا شروع کر دیا اور ’نظام شمسی‘ کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو لامحالہ ملکی سالمیت کی دشمنی، اداروں اور عوام کو بغاوت پر اکسانے اور لاقانونیت کو ہوا دینے کے الزامات میں طرح طرح سے جکڑے گئے۔ اب ان کی جماعت کو ہی کالعدم قرار دینے کی کوشش کو ’فتنے‘کا تشفی بخش حل سمجھا جا رہا ہے حالانکہ سپریم کورٹ کی نظر میں وہ فتنہ نہیں بلکہ ایک جائز سیاسی پارٹی ہے۔

مسلم لیگ کا تو خیر سمجھ میں آتا ہے مگر پیپلز پارٹی بھی 56 برس میں بیسیوں سیاسی زخم کھانے کے باوجود اگر کچھ سیکھی تو یہ سیکھی؟

ریوالونگ ڈور اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔

وہ دباؤ جس کے بعد بھٹو بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئےغداری کیا ہے اور غدار کون ہے؟’میری تصویر اس طرح نہ لینا کہ دشمن سمجھے بگٹی کمزور ہو گیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More