کپیسِٹی پیمنٹ: نجی بجلی گھروں کو کروڑوں کی ادائیگیاں جو پاکستانی خزانے اور عوام کی جیب پر بھاری پڑ رہی ہیں

بی بی سی اردو  |  Jul 24, 2024

پاکستان میں آج کل ہر کوئی بجلی کے بلوں کا رونا رو رہا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آئی پی پیز (انڈیپیندنٹ پاور پروڈیوسرز) یعنی نجی بجلی گھروں کو کتنی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں اور آیا وہ اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق بجلی بنا بھی نہیں رہی ہیں۔

کپیسِٹی پیمنٹ یعنی ان نجی بجلی گھروں کو ادائیگیوں کا معاملہ نیا نہیں تاہم حال ہی میں اس بحث کا ایک بار پھر آغاز اس وقت ہوا جب سابق نگران وفاقی وزیر برائے کامرس اور انڈسٹریز، سرماری کاری گوہر اعجاز کی جانب سے یہ دعوٰی سامنے آیا کہ حکومت ایک آئی پی پی سے 750 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے جب کہ آئی پی پیز کو کل دو ہزار ارب سالانہ کی ادئیگیاں کی جا رہی ہیں۔

تو یہ سارا معاملہ ہے کیا اور کیا حکومت واقعی آئی پی پیز کو سالانہ دو ہزار ارب روپے کپیسِٹی پیمنت کی مد میں دے رہی ہے۔

لیکن پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیپسٹی پیمنٹ ہوتی کیا ہے؟

Getty Imagesکپیسٹی پیمنٹ کیا ہے؟

نیپرا کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں 90 آئی پی پیز ہیں اور ہر ماہ جب آپ کا بل آتا ہے تو اس میں کل استعمال کیے گئے یونٹ کے علاوہ انکم ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ بلوں میں کپیسٹی پیمنٹ چارجز بھی شامل ہوتے ہیں۔

کپیسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے۔

مثال کے طور پر اگر سردیوں میں بجلی کی مانگ 10 ہزار میگا واٹ ہے جبکہ گرمیوں میں یہ بڑھ کر 20 ہزار تک پہنچ جائے تو ایسی صورت میں حکومت کو پورے سال 20 ہزار میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھنی پڑے گی تاکہ بوقتہ ضرورت بجلی کی مانگ ہوری کی جاسکے۔

لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں ہے تو ایسے وقت ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔

اس ادائیگی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ پاور پلانٹ لگانے میں ایک خطیر سرمایہ لگتا ہے اور اسی لیے حکومت سرمایہ کاروں کو مختلف مراعات دینے کا وعدہ کرتی ہے جن میں ان کا یقینی منافع، پلانٹ لگانے کے لیے حاصل کردہ قرض اور اس پر دیے جانے والے سود کی ادائیگی میں مدد بھی شامل ہے۔

تاہم گوہر اعجاز کا دعوٰی ہے کہ 2015 میں بجلی کی کھپت اوسطاً 13 ہزار میگاواٹ تھی جبکہ کل پیداواری صلاحیت 20 ہزار تھی جس کے لیے 200 ارب روپے کپیسٹی پیمنٹ کی جا رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں 2024 میں بجلی کی مانگ کی اوسط 13 ہزار میگاواٹ ہی ہے تاہم اس دوران پیداوار بڑھ کر 43 ہزار سے بھی زیادہ پر آگئی ہے جس میں 23 ہزار 400 میگاواٹ کے نئے آئی پی پیز شامل ہیں۔

ان کے مطابق پیداواری صلاحیت میں اضافے کے باعث کپیسٹی پیمنٹ 10 گنا بڑھ کر دو ہزار ارب روپے پر پہنچ چکی ہے۔

گوہر اعجاز کے مطابق 52 فیصد آئی پی پیز حکومت کی ملکیت جبکہ بقایا 48 فیصد میں نجی اور سی پیک کے تحت چلنے والے پلانٹس شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے ہوں گے۔

اس کے علاوہ انھوں یہ بھی دعوٰی کیا کہ حکومت کو بجلی کی فی یونٹ قیمت تقریباً 35 روپے پڑتی ہے جس میں 10 روپے 60 پیسے فیول کے اور 24 روپے کپیسٹی چارجز شامل ہیں۔ ان کا کہنا کہ تھا تقسیم کار کمپنیاں یہ بجلی صارفین کو 60 روپے فی یونٹ کے حساب سے بیچ رہی ہیں اس کے باوجود حکومت کو کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔

حکومت بند بجلی گھروں کو بھی ادائیگی کرنے پر مجبور کیوں ہے؟

وفاقی وزیرِ پانی و بجلی اویس لغاری نے مختلف انٹرویوز میں دعوی کیا ہے کہ نجی بجلی گھروں سے معاہدے انتہائی مجبوری کی حالت میں کیے گئے تھے کیونکہ اس وقت ملک میں لوڈ شیڈنگ کا بحران تھا۔

انھوں نے ادائیگیوں میں اضافے کے بارے میں بتایا کہ ان میں سے ایک حصہ نیشنل ٹرانسمیشن لائن پر آنے والی لاگت ہے جو تقریباً تین روپے فی یونٹ ہے، جبکہ تقسیم کار کمپنییں پانچ روپے فی یونٹ لیتی ہیں۔

’اس کے علاوہ انرجی کوسٹ آٹھ سے دس روپے فی یونٹ ہے۔ باقی 18 روپے آپ ان پلانٹس کا کرایہ دے رہے ہیں ان پلانٹس کو لگانے کا سود اور قرضے کی واپسی، روپے اور ڈالر ریٹ کا فرق، اور اس کا منافع ہے جو سرمایہ کاروں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو کپیسٹی پیمنٹ کہتے ہیں۔‘

اویس لغاری کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر ساہیوال پاور پلانٹ جب 2015 یا 2016 میں لگایا گیا تو اس کی فی یونٹ کپیسٹی پیمنٹ تین روپے کے قریب تھی، آج وہ بڑھ کر 12 روپے ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیےکیا پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت کے سولر منصوبے عام صارفین کو کوئی ریلیف فراہم کر سکیں گے؟بجلی کی اوور بلنگ: صارفین کے بِلوں میں اضافی یونٹس کیسے شامل کیے گئے اور اس سے کیسے بچا جائے

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہر سال تقریباً 80 ارب روپے کی کییپیسٹی پیمنٹ ان فرنس آئل پلانٹس کو جاتی ہے جو 2002 اور 1994 کی پالیسی کے تحت لگائے گئے تھے۔

ان کے مطابق تیل کی زیادہ قیمت کے باعث یہ پلانٹس استعمال نہیں ہوتے۔ اویس لغاری کا کہنا تھا کہ حکومت ان پلانٹس کی مکمل پیمنٹ کرکے انھیں بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ دیگر آئی پی پیز سے بھی بات کی جائے گی۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

معاشی ماہر عمار حبیب خان کا کہنا ہے کہ اگر آج کی بات کریں تو مسئلہ آئی پی پیز (انڈیپیندنٹ پاور پروڈیوسرز) کا نہیں بلکہ اُن گردشی قرضوں کا ہے جن کا سامنا ہماری معیشت کو ہے۔

عمار حبیب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سنہ 2015 کے بعد جو بھی نئے منصوبے شروع کیے گئے جن میں جوہری منصوبے، ڈیم، یا دیگر مُمالک کی مدد سے شروع کیے جانے والے منصوبے تمام کی مدد میں لیے جانے والے قرضے اور پھر ان پر لگنے والے سود کی وجہ سے حالات مُشکل ہوئے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اب حکومت کو ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے حاصل کردہ قرضے سود کے ساتھ واپس کرنے پڑ رہے ہیں۔ ’پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قدر میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے حکومت کو اب اپنے قرضوں میں شرح سود میں اضافے کا سامنا ہے۔‘

کیا اب اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟

اس سوال کے جواب میں عمار حبیب کا کہنا ہے کہ ’ہم جو ایک کام کر سکتے ہیں یا جس کے کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ حکومت اُن قرضوں کی واپسی کی تاریخ میں اضافے کی کوشش کرے جن کی ادائیگی اُسے اس سال کرنی تھی۔‘

’ایسا کرنے سے حکومت کو بہتر انداز میں منصوبہ بندی کے لے وقت مل جائے گا اور مُلکی معیشت بھی مستحکم ہو سکے گی۔‘

اسی بارے میںبجلی کا وہ ’ایک اضافی یونٹ‘ جو آپ کے بل میں دوگنا اضافے کی وجہ بنتا ہےعام اے سی اور انورٹر اے سی میں کیا فرق ہے اور بہتر آپشن کیا ہے؟بجلی کے بل میں ’چھپے‘ وہ ٹیکس جو حکومت آپ سے وصول کر رہی ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More