بنوں میں احتجاج، دھرنا اور اب پشاور میں مذاکرات: ہم اب تک بنوں میں فائرنگ کے واقعے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jul 22, 2024

Getty Images

پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں ہونے والے احتجاج کے بارے میں کہا ہے کہ جمعے کو بنوں میں تاجروں کے ’امن مارچ‘ میں کچھ ’منفی عناصر‘ اور مسلح افراد شامل ہو گئے تھے جنھوں نے نہ صرف ریاست مخالف بلکہ فوج مخالف نعرے بھی لگائے اور انھیں منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے قواعد کے مطابق ’ہوائی فائرنگ‘ کی گئی تھی۔

گذشتہ جمعے کو بنوں میں احتجاجی مظاہرے کے دوران فائرنگ اور بھگدڑ سے ایک شخص ہلاک اور تقریباً 25 افراد زخمی ہوئے تھے۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’جس جگہ چھاؤنی پر دھماکہ ہوا تھا وہاں سے دیوار ٹوٹی ہوئی تھی جہاں سے کچھ لوگ داخل ہوئے اور انھوں نے فوج کے سپلائی ڈپو کو لوٹا اور وہاں سے آٹا اور چینی اُٹھا کر لے گئے۔ سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں منتشر کرنے کے لیے قواعد کے مطابق ہوائی فائرنگ کی۔‘

ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بنوں کی ’امن کمیٹی‘ کے عمائدین مقامی انتظامیہ سے مذاکرات کے پہلے دور کے بعد اب صوبائی حکومت کی جانب سے قائم ایپکس کمیٹی سے مذاکرات کے لیے پشاور روانہ ہو گئے ہیں۔

بنوں کی امن کمیٹی کے صدر ناصر خان بنگش نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم بنوں سے بہت امیدیں لے کر پشاور جا رہے ہیں کہ ہمارے جائز مطالبات پورے ہوں گے۔‘

’مگر میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بند کمروں میں کچھ نہیں ہو گا، جو ہو گا وہ کیمروں اور سب کے سامنے ہو گا۔‘

آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ بنوں میں گذشتہ چار روز کے دوران کیا ہوا ہے اور اب تک ہم اس حوالے سے کیا جانتے ہیں۔

Getty Imagesامن کمیٹی کے سربراہ ناصر خان کا کہنا ہے کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ بنوں میں کوئی بھی فوجی آپریشن نہیں ہوگابنوں میں جمعے کو کیا ہوا تھا؟

خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں گذشتہ ہفتے 19 جولائی کو تاجر برادری نے سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں کے ہمراہ ’شہر میں امن و امان کے قیام کے لیے‘ احتجاج کیا تھا۔

صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق یہ احتجاج پریٹی گیٹ پر ’پُرامن‘ طریقے سے ختم ہو گیا تھا لیکن بعد میں احتجاج کے شرکا نے سپورٹس کمپلیکس کی طرف جانا شروع کر دیا اور وہاں کچھ شرپسندوں نے سکیورٹی فورسز کے ڈپو پر نہ صرف پتھراؤ کیا بلکہ چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ بھی کی۔

محکمہ داخلہ کے مطابق علاقے میں تعینات پولیس اہلکاروں نے حالات پر قابو پانے اور مظاہرین کو حساس علاقے سے باہر نکالنے کی کوشش کی اور اس دوران ایک شخص ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے تھے۔

پیر کو اس معاملے پر پاکستانی فوج کے ترجمان نے تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا کہ بنوں میں سپلائی ڈپو کو لوٹا گیا اور وہاں موجود افراد کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی۔

انھوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیوں ہوا؟ یہ اس لیے ہوا کیونکہ آپ کا جو قانونی نظام ہے، عدالتی نظام ہے اگر یہ 9 مئی کے سہولتکاروں، منصوبہ سازوں کو ڈھیل دے گا، جب آپ انھیں کیفرِ کردار تک نہیں پہنچائیں گے تو ملک کے اندر انتشار اور فسطائیت ہے مزید پھیلے گی۔‘

اس سے قبل 15 جولائی کو بنوں میں ہی خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی پاکستانی فوج کے سپلائی ڈپو کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی تھی۔ اس حملے میں پاکستانی فوج کے آٹھ اہلکار اور تین شہری ہلاک ہوئے تھے۔

19 جولائی کو بنوں شہر میں ہونے والی فائرنگ کے واقعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کے نامہ نگار روحان احمد کو بتایا تھا کہ ’گذشتہ ہفتے خود کش دھماکے کے سبب چھاؤنی کی ایک دیوار ٹوٹ گَئی تھی اور وہاںفوجی اہلکاروں نے سڑک پر رُکارٹیں لگائی ہوئیں تھیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’وہاں اہلکاروں نے ایک ٹینٹ بھی لگایا ہوا تھا۔ لوگ (مظاہرین) اس طرف آگے بڑھ ر رہے تھے اور پتھراؤ بھی کر رہے تھے۔‘

’مظاہرے کے قائدین کہہ رہے ہیں کہ پتھراؤ کرنے والے لوگ ان میں سے نہیں تھے، ہوائی فائرنگ کرنے سے پہلے پولیس اور فوجی اہکاروں نے لاؤڈ سپیکر پر اعلان بھی کیے کہ سب پیچھے ہٹ جائیں۔‘

ان کے مطابق ’چھاؤنی میں گولہ بارود بھی تھا اور راشن بھی، اسی سبب مظاہرین کو اندر داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔‘

بنوں میں سکیورٹی صورتحال پر احتجاج: ’ملزمان میرے خاوند کو قتل کر کے اُن کا سر اپنے ساتھ لے گئے‘ ڈیرہ اسماعیل خان میں شدت پسندوں کا نشانہ بننے والی ہیلتھ ورکرز: ’یہاں حملہ ہوا ہے، بس یہ پیغام ملا اور فون خاموش ہو گیا‘آئی ایس آئی کو شہریوں کی کالز اور مسیجز تک رسائی کا اختیار کیوں دیا گیا اور اس پر اتنی تشویش کیوں؟Getty Imagesبنوں احتجاج کا مقصد کیا تھا؟

بنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف شہر کی تاجر برادری کی درخواست پر جمعے کے روز امن مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں اس وقت ہزاروں افراد شریک تھے۔

خیبرپختونخوا میں گذشتہ چند ماہ میں یوں تو شدت پسندی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ سامنے آیا ہے تاہم حالیہ دنوں میں بنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث احتجاج کا اعلان کیا گیا۔

چند روز قبل بنوں کینٹ پر اور اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقے میں مرکز صحت پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد اس امن مارچ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

19 جولائی کو امن مارچ کی کال دی گئی جس میں تمام سیاسی رہنما، سماجی شخصیات اور تاجر برادری کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق اس امن مارچ میں بنوں اور گرد و نواح سے لوگ قافلوں کی صورت میں شامل ہوئے اور اس مارچ میں حکومت سے شہریوں کو جان و مال اور عزت کا تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

Getty Imagesامن کمیٹی کے اراکین پشاور میں ایپکس کمیٹی سے مذاکرات کریں گےاس وقت کیا صورت حال ہے؟

امن کمیٹی کے سربراہ ناصر خان بنگش نے بی بی سی کو بتایا کہ بنوں میں آج دھرنے کا تیسرا روز ہے اور اب بھی عوام اس میں بڑی تعداد میں ہیں۔

ناصر خان بنگش کا کہنا تھا کہ آج پشاور میں ان کی ملاقات ایپکس کمیٹی کے ساتھ ہو گی۔

واضح رہے کہ صوبائی اپیکس کمیٹی کے ممبران میں وزیر اعلیٰ، چیف سیکرٹری، کور کمانڈر اور آئی جی ہوتے ہیں۔

ناصر خان بنگش نے کہا کہ ’ایپکس کمیٹی کے ساتھ جرگہ ہم نے اس لیے قبول کیا کہ ہمیں امید دلائی گئی ہے کہ ایپکس کمیٹی میں ہمارے مطالبات پر اہم پیش رفت ہو گی۔ اپیکس کمیٹی ہی وہ اصل فورم ہے جو ہمارے مطالبات پر غور کر سکتا ہے اور ان کے بارے میں اہم فیصلے کر سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، دھرنا جاری ہے۔ اگر پشاور میں ہمارے مطالبات پورے ہوئے تو ہم خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کریں گے، دوسری صورت میں ہم واپس بنوں پہنچ کر اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔‘

Getty Imagesپولیس کو با اختیار بنائیں، طالبان کے مراکز بند اور انٹرنیٹ کھولا جائے: امن کمیٹی کے مزید مطالبات کیا ہیں؟

امن کمیٹی کے صدر ناصر خان بنگش نے بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں واضح کیا ہے کہ وہ بنوں میں امن چاہتے ہیں۔

مطالبات کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق

طالبان چاہے وہ ’گڈ‘ ہوں یا ’بیڈ‘ ان کے جتنے بھی مراکز کھولے گئے ہیں وہ سب بند کیے جائیںبنوں میں تین دن سے بند انٹرنیٹ کھولا جائےبنوں میں کوئی فوجی آپریشن نہیں ہوگاکوئی بھی شخص لاپتا نہیں ہوگا15 جولائی اور 19 جولائی کے واقعات کی فی الفور عدالتی انکوائری کی جائےدہشت گردی کی جنگ میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں اور عوام کو معاوضہ دیا جائے اور ان کا علاج کروایا جائےمدارس پر چھاپے مارنا بند کیے جائیں

امن کمیٹی کے سربراہ ناصر خان کا کہنا ہے کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ بنوں میں کوئی بھی فوجی آپریشن نہیں ہوگا، دہشت گردی کے خلاف ہر کارروائی سی ٹی ڈی کرے گی اور پولیس ان کی معاونت کے لیے موجود ہوگی۔ اگر سی ٹی ڈی کسی بندے کو لے کر جائے گی تو وہ اس کا ہر صورت میں اندراج مقامی چوکی اور تھانے میں ہوگا۔

ان مطالبات پر حکومت کا کیا ردعمل ہے؟

صوبائی وزیر یار خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔ صوبائی اسمبلی نے واضح طور پر آپریشن عزم استحکام کے خلاف صوبائی اسمبلی سے قرار داد منظور کروائی ہے۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ مطالبات کمشنر کے ذریعے سے پیش کیے گئے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم حکومت ہیں مگر کچھ چیزیں ہم پر مسلط کی جا رہی ہیں جن کو ہم قبول نہیں کریں گے۔ پیر کو جو کچھ بھی ہو گا وہ سب کچھ عمائدین اور عوام کے سامنے ہو گا۔

اتوار کو خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے ویڈیو بیان میں مزید کہا کہ ان کی حکومت بننے کے بعد ایپکس کمیٹی کے پہلے اجلاس میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ خود کو سرکاری اداروں کا اہلکار ظاہر کر کے سڑکوں پر گھومنے والے مسلح افراد پر صوبائی حکومت اور پولیس کو تحفظات ہیں۔

’میں نے نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے میٹنگ میں بھی یہ بات واضح کی تھی اور آج میں یہ اعلان کر رہا ہوں اور پولیس کو حکم دے رہا ہوں کہ ایسا کوئی بھی شخص یا عناصر شہر میں کہیں بھی مسلح پائے جاتے ہیں انھیں گرفتار کیا جائے اور ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر ان کے ٹھکانے موجود ہیں تو پولیس ان ٹھکانوں پر بھی جا کر کارروائی کرے اور انھیں خالی کروائے۔‘

دوسری جانب پاکستان کی مرکزی حکومت نے بنوں میں ہونے والے مظاہرے اور پُرتشدد واقعات پر صوبے کی حکمراں جماعت کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔

اتوار کی شام میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بنوں میں تاجروں کے ایک ’امن مارچ‘ میں چند سیاسی جماعتوں کے لوگ شامل ہوئے جن میں پی ٹی آئی کے لوگ مسلح جتھوں کی شکل میں شامل تھے۔

انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے ان مسلح افراد نے اس موقع پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچی اور انتشار پھیلایا، جس سے ایک شخص ہلاک اور 22 زخمی ہوئے۔

بی بی سی وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے ان الزامات کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ ’تشدد کی سیاست پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ ہے۔ پی ٹی آئی لاشوں کی سیاست کرنا اور ملک کی معیشیت تباہ کرنا چاہتی ہے۔‘

Getty Imagesیہ تنازع کیسے حل ہو سکتا ہے؟

خیبر پختونخوا کے شہر بنوں سمیت جنوبی اضلاع میں تشدد کے سب سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور اس کے لیے انسداد دہشت گردی کے محکمے اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشنز بھی کیے گئے لیکن امن و امان کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکا۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ بنوں کی صورتحال ایک یا دو روز کا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہاں کشیدگی ایک عرصے سے جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں جن شدت پسندوں نے سرنڈر کیا یا ہتھیار ڈال دیے تھے وہ ان علاقوں میں کھل عام رہ رہے ہیں اور وہ لوگوں کے کاموں میں مداخلت بھی کرتے رہے ہیں اس کے علاوہ یہ علاقہ شمالی وزیرستان کے ساتھ واقع ہےجہاں سے مسلح لوگ آسانی سے آ سکتے ہیں۔‘

مشتاق یوسفزئی کے مطابق ’اس ساری صورتحال میں حکومت بے بس نظر آئی ہے اور کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تھی اس لیے اب لوگ خود اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور بنوں کا یہ پاسون (احتجاج) کم سے کم صوبہ خیبر پختونخوا میں تاریخی پاسون ہوا ہے اور ان کا مطالبہ صرف اور صرف امن کا قیام ہے اور وہ ان کی کوئی بڑا مطالبہ نہیں ہے اور وہ مسلح افراد کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت ان مسلح افراد کو کنٹرول کرے اور یہ مسئلہ صرف بنوں میں نہیں ہے باقی تمام اضلاع میں پایا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کو یہ رنگ دینا کہ یہ پاسون یا یہ احتجاج حکومت کے خلاف ہے یا سکیورٹی فورسز کے خلاف ہے تو ایسا نہیں ہے بلکہ عام لوگ بدامنی سے تنگ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاسون سے پہلے یا اسی روز بھی انتظامیہ اور حکومت اسے کنٹرول کر سکتی تھی اور اس کے لیے میڈیا کو دبانا یا انٹرنیٹ بند کرنا اور موبائل سروس بند کرنا مناسب اقدام نہیں تھا اور اس سے مسائل بڑھتے ہیں۔‘

حکومت کیا کر سکتی ہے؟

مشتاق یوسفزئی کے مطابق حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اگر صورتحال ایسے ہی رہے تو اس کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس بارے میں سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ اٹک کے اس پار ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے نہ امن کمیٹیاں ہیں، نہ سرنڈر عناصر ہیں اور نہ ہی دہشت گردی ہے اگر پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے تو صرف یہ سب کچھ خیبر پختونخوا میں کیوں ہو رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست ہے فوج ہے پولیس ہے ایف سی ہے دیگر انٹیلیجنس ادارے ہیں اور ان پر حکومت کے وسائل خرچ ہوتے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے امن کمیٹیوں کی ضرورت ہے تو پھر کیا ہو سکتا ہے۔

’اگر ان کا حل ریاست کے پاس نہیں ہے تو پھر اس سے سوالات اٹھیں گے۔ اس کے لیے حکومت کو عوام کی بات سننا ہو گی اور مسائل حل کرنے ہوں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ادارے آئین کے مطابق کام کریں اور جو ادارہ ماورائے آئین کام کرتا ہے اس کا احتساب ہونا چاہیے اور یہاں جو زیادتیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے ورنہ یہ ممکن ہے کہ بنوں کا پاسون یہاں نہ بلکہ پورے صوبے میں پھیل سکتا ہے۔‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار فردوس کے مطابق بنوں کی صورتحال تشویشناک ہے اور اس میں بہتر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے غلط خبریں پھیل گئی تھیں جس سے مایوسی غم اور غصہ پھیلا ہے۔

انھوں نے کہا ’جو مطالبات پیش کیے گئے ہیں ان میں بنیادی نقطہ یہی ہے کہ سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اختیارات دیے جائیں، جن میں پولیس اور سی ٹی ڈی کو زیادہ اختیارات اور وسائل دیے جانے کی بات کی گئی ہےبجائے اس کے کہ ملٹری ادارے کے اہلکاروں کو ذمہ داریاں سونپی جائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس مسئلے کا حل مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس وقت سیاسی صورتحال کےاثرات انسداد دہشت گردی اور سکیورٹی کی صورتحال پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔

’اگر اس مسئلے کو بر وقت حل نہ کیا گیا تو یہ صورتحال صوبے کے دیگر شہروں میں بھی پھیل سکتی ہے۔‘

’سوری بولو، نہیں پہلے تم سوری بولو‘ ایک ہی مریض پر ریاست اور کتنے آپریشن کرے گی؟نیوی ڈاک یارڈ حملہ: بحریہ کے اہلکاروں کی سزائے موت کی وجوہات نہ بتائی گئیں تو سزا کالعدم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا، جسٹس بابر ستار
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More