صارم برنی پر بچوں کی سمگلنگ کا الزام اور گرفتاری: وہ امریکی ای میل جس نے’سماجی کارکن‘ کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا

بی بی سی اردو  |  Jul 22, 2024

’جب ہم سے ایف آئی اے نے رابطہ کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری بچی تو امریکہ پہنچ چکی ہے۔‘

کراچی شہر کی رہائشی افشین ان والدین میں شامل ہیں جن کے بچے صارم برنی کی گرفتاری اور ان کے خلاف بچوں کی بیرون ملک سمگلنگ اور غیر قانونی طور پر گود لینے کے کیس کی وجہ بنے ہیں۔

افشین، جن کا فرضی نام ان کی درخواست پر ہی استعمال کیا گیا ہے، سے ہم نے کراچی میں اس کیس کو سمجھنے کے لیے بات چیت کی جنھوں نے معاشی حالات کی وجہ سے اپنی ایک نومولود بیٹی میٹرنٹی ہوم کے ذریعے فروخت کرنے کی کوشش کی تھی۔

لیکن پھر یہ بچی صارم برنی کے پاس کیسے پہنچی اور وہاں سے امریکہ تک کیسے گئی؟

اس پورے معاملے کی ابتدا ایف آئی سے کے مطابق ایک امریکی ای میل سے ہوتی ہے۔ گذشتہ ماہ کے آغاز میں پاکستان کی فیڈرل انویسٹگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو کراچی میں امریکی سفارتخانے سے ایک ایسی چونکا دینے والی ای میل موصول ہوئی جو کراچی کے نامی گرامی سماجی کارکن صارم برنی کی گرفتاری کا باعث بنی۔

اس ای میل میں امریکی سفارتخانے نے ایف آئی اے کی توجہ پاکستانی نژاد امریکیوں کی غیر قانونی طور پر بچے گود لینے کے بڑھتے ہوئے مبینہ واقعات کی جانب دلوائی۔

اس ای میل میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ مبینہ طور پر صارم برنی ٹرسٹ نامی این جی او کے ذریعے بچوں کو گود لیا جا رہا ہے اور جب امریکی سفارتخانے کو ایک ہی تنظیم سے دو سال کے دوران بچے گود لینے میں معاونت سے متعلق 18 ایسے کیسز موصول ہوئے تو ان کے شک میں مزید اضافہ ہوا۔

اس کے ساتھ ہی امریکی سفارتخانے کی جانب سے تین بچیوں کی نشاندہی بھی کی گئی جن کے نام تبدیل کیے گئے تھے اور انھیں یتیم ظاہر کیا گیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سچ نہیں تھا۔

امریکی سفارتخانے کے ادارے اوورسیز کریمنل ڈیپارٹمنٹ (او سی ڈی) نے ابتدائی انکوائری کے بعد سفارتخانے کو مطلع کیا جس کے بعد ایف آئی اے کو خط لکھا گیا۔

اس ای میل کے نتیجے میں ایف آئی اے نے تفتیش کا آغاز کیا تو انھیں سنہ 2022 سے لے کر 2024 تک 18 ایسے کیسز ملے جن میں بچوں کو گود لینے کی غرض سے بیرونِ ملک سمگل کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ معاملہ 2019 سے شروع ہوا تھا۔

ایف آئی اے کو تفتیش کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ نہ صرف بچوں کے والدین ہوتے ہوئے انھیں یتیم ظاہر کیا گیا بلکہ ان کے نام بھی تبدیل کیے گئے۔

یوں چھ جون کو صارم برنی کو ایف آئی اے نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر امریکہ سے واپسی پر گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف چائلڈ ٹریفیکنگ کا کیس درج کیا گیا۔ صارم برنی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں تاہم گرفتاری کے بعد صارم برنی کی ضمانت کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔

اس پورے معاملے کے سامنے آنے پر صارم برنی پر جھوٹ بولنے، دستاویزات میں رد و بدل کرنے، فیملی کورٹ ڈسٹرکٹ ایسٹ کراچی کے سامنے سچ چھپانے کے الزامات لگے ہیں۔

صارم برنی کا موقف جاننے کے لیے جب ان کے وکیل سے ہم نے اس بارے میں سوالات کیے تو انھوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تاہم انھوں نے صارم برنی کا عدالت کے باہر مقامی میڈیا کو دیا ہوا ایک بیان شامل کرنے کو کہا جس میں صارم نے الزام لگایا تھا کہ ’ان کے خلاف منظم مہم‘ چلائی جا رہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’یہ منظم مہم میرے سماجی کام کے آڑے نہیں آئے گی۔‘

اس کیس کے سامنے آنے کے بعد سے پاکستان میں گود لینے کے قوانین کے علاوہ اس کیس سے متعلق بھی متعدد سوالات سامنے آئے ہیں جن کا ہم نے اس تحریر میں تفصیل سے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

والدین نے اپنے بچے صارم برنی ٹرسٹ کو کیوں دیے؟

پہلا سوال تو یہ ہے کہ یہ بچے صارم برنی ٹرسٹ تک پہنچے کیسے؟

ایف آئی اے کے مطابق ان کے کان حال ہی میں ہونے والے ایک واقعے کے بعد کھڑے ہوئے جب ایک 10 دن کی بچی کو ایک بے اولاد والدین کو بیچا گیا۔

ایف آئی اے کو تفتیش سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ’صارم برنی کو بچے فروخت کرنے والے یا ان تک بچے پہنچانے والے افراد تین کیٹگری میں آتے ہیں۔ ایک وہ جن کی اولاد بغیر شادی کے ہوئی ہو، دوسرے وہ جو بچوں کو مہنگائی کی وجہ سے نہیں پال پاتے، اور تیسرے وہ جنھوں نے طلاق کے بعد کچھ عرصے کے لیے بچے کسی ویلفیئر ٹرسٹ کو دیے ہوں۔‘

ایف آئی اے نے بتایا کہ ’اکثر عدالت انسانی بنیادوں پر بچوں کی کسٹڈی دے بھی دیتی ہے، اگر آپ ان کو سچ بتا دیں۔‘

لیکن عدالتی دستاویزات کے مطابق ’صارم برنی نے عدالت میں غلط بیانی کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی کفالت میں آئے تمام تر بچے یتیم اور لاوارث ہیںجس کے بعد ان 18 بچوں کی دستاویزات بنا کر پیسوں کے عوض انھیں بیرونِ ملک روانہ کیا گیا۔‘

نیروبی کی بلیک مارکیٹ جہاں بچوں کو 300 پاؤنڈ میں بیچا جا رہا ہےپیدائش کے بعد چوری ہونے والے بچے کی 42 سال بعد والدہ سے ملاقات: ’مجھے ہمیشہ لگتا تھا کچھ نامکمل ہے‘پیدائش کے فوراً بعد سمگل کیے جانے والے بچے نے 40 برس بعد اپنی ماں کو کیسے ڈھونڈ نکالا؟

یہی سوال لیے ہم کراچی کے ایک ایسے خاندان سے ملنے گئے جنھوں نے اپنی نومولود بچی ایک میٹرنٹی ہوم کے ذریعے فروخت کرنا چاہی تھی۔

نیو کراچی نامی علاقے کی رہائشی افشین (فرضی نام) کے پہلے بھی دو بچے ہیں اور ان کے شوہر کرائے کا رکشہ چلاتے ہیں۔ جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ اُن کے پاس میری مہمان نوازی کرنے کے لیے پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

افشین نے بتایا کہ ان کے شوہر روزانہ مشکل سے دو سے تین سو روپے کما پاتے ہیں اور کبھی کبھار انھیں فاقہ کرنا پڑتا ہے۔

’میرے پہلے سے دو بچے ہیں اور ان کا خرچہ بہت مشکل سے نکل پاتا ہے۔ جب میری بیٹی پیٹ میں تھی تب مجھے لگا کہ میں اسے نہیں سنبھال پاؤں گی تو میں نے ایک میٹرنٹی ہوم کو کہا کہ میری مدد کریں۔‘

اپنی نومولود بچی کی فروخت کے لیے میٹرنٹی ہوم نے انھیں صارم برنی ٹرسٹ کے بارے میں بتایا اور کہا کہ کچھ دنوں میں یہ بچی فروخت ہو جائے گی۔

تاہم ان کے دعویٰ ہے کہ ’ان کی بچی کو صارم برنی نے اس میٹرنٹی ہوم سے لے لیا اور ان سے کہا کہ اب ان کا ٹرسٹ ہی اس بچی کو پالے گا۔ جب ہم سے ایف آئی اے نے رابطہ کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری بچی تو امریکہ پہنچ چکی ہے۔‘

’نہ بچی آپ کو ملے گی نہ بچی کی والدہ کو، یہ بچی اب صارم برنی ٹرسٹ میں جمع ہو گی‘

اسی طرح کراچی کے علاقے ملیر کی 24 سالہ رہائشی بشریٰ کنول نے 22 جون 2024 کو ایف آئی اے کے تفتیشی افسر بلال احمد کے پاس اپنا بیان ریکارڈ کروایا ہے جس میں انھوں نے بتایا کہ ان کی شادی کو تین سال ہو چکے تھے لیکن ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہو پا رہی تھی۔

بشریٰ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’پھر میں نے فیس بُک پر ایک گروپ ’اڈاپٹ اے چائلڈ لاہور‘ دیکھا جس میں لکھا تھا کہ ایک بچی گود لینے کے لیے موجود ہے۔‘

خیال رہے کہ ’اڈاپٹ اے چائلڈ لاہور‘ فیس بُک پر موجود ایک ایسا گروپ ہے جو آج سے پانچ سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اس گروپ کے تقریباً پانچ ہزار ارکان ہیں اور اس کے کور فوٹو پر شعیب انجم نامی ایڈووکیٹ کا نام اور فون نمبر لکھا ہوا ہے۔ ساتھ ہی ایک تنبیہ بھی دی گئی ہے کہ ’ہمارے پاس کوئی بچہ نہیں ہے اور نہ ہم کسی کو بچے مہیا کرتے ہیں۔ ہم صرف قانونی مدد فراہم کرتے ہیں۔‘

اس گروپ سے رابطہ کرنے پر بشریٰ کا رابطہ مدیحہ نامی خاتون سے ہوا جنھوں نے خود کو ڈاکٹر بتایا ہوا تھا۔

بشریٰ نے بتایا کہ ’مدیحہ نے کہا کہ بچی ہے لیکن اس کے آپریشن کا خرچہ اٹھانا پڑے گا۔ پھر مدیحہ کراچی میں ہمارا گھر دیکھنے بھی آئی اور اپنے ساتھ ایک ساتھی فائزہ کو بھی لے کر آئی اور کہا کہ آپ بچی کا میڈیکل کروا لیں، میں شناختی کارڈ کی کاپیاں لے جا رہی ہوں، پیپر ورک کے لیے۔ پھر آپ سے رابطہ کروں گی۔ پیپر ورک کے بعد مجھے بچی مل گئی۔‘

’لیکن پھر دو دن بعد مدیحہ اور فائزہ نے مجھے فون پر بلیک میل کیا کہ بچی کے عوض ہمیں چھ لاکھ روپے دو ورنہ میں ایف آئی آر کٹاؤں گی۔ میں نے اے آر وائی کے پروگرام سرِ عام کی ٹیم سے رابطہ کیا انھوں نے میرا بیان بھی لیا اور اس پورے معاملے پر شو ریکارڈ کیا۔‘

بشریٰ نے اپنے بیان میں بتایا کہ ایک ہفتے بعد انھیں صارم برنی ٹرسٹ سے حمیرا نامی خاتون کی کال آئی۔ ’انھوں نے کہا کہ آپ بچی کو لے کر ٹرسٹ آ جائیں۔‘

بشریٰ نے کہا کہ ’جب میں ٹرسٹ پہنچی تو مجھے پتا چلا کہ بچی کی والدہ بھی ہیں۔ مجھے صارم برنی ٹرسٹ نے کہا کہ نہ بچی آپ کو ملے گی نہ بچی کی والدہ کو، یہ بچی اب صارم برنی ٹرسٹ میں جمع ہو گی۔‘

بشریٰ نے بتایا کہ ان سے اور ان کے شوہر سے ایک حلف نامے پر دستخط کروائے گئے۔ ’اس حلف نامہ میں میں نے اب تک ہونے والی ساری روداد بتائی ہوئی تھی۔ کچھ دن بعد اے آر وائی کے شو میں ہمیں بچی دی گئی لیکن جب شو کر کے واپس آئے تو بچی صارم برنی ٹرسٹ میں جمع ہو گئی۔‘

بشریٰ نے کہا کہ ’اب جو حلف نامہ صارم برنی ٹرسٹ نے ایف آئی اے میں جمع کیا ہے اس کے مطابق میں اور میرا شوہر بچی کو نہیں سنبھال سکتے تھے اس لیے بچی صارم برنی ٹرسٹ کو دے رہے ہیں۔ لیکن اس سال (2024) میں پتا چلا کہ وہ بچی اب امریکہ میں مقیم کسی فیملی کو دے دی گئی ہے۔‘

خیال رہے کہ ایف آئی اے نے صارم برنی کے علاوہ ملزم بصالت خان اور حمیرا ناز کو بھی گرفتار کیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ ’نقلی دستاویزات بنانے میں ان کے مددگار تھے۔‘

ایف آئی اے کے مطابق ادارہ صارم برنی کی 2008 سے تفتیش کررہا تھا۔ جبکہ ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ انسانی سمگلنگ اور خاص طور سے بچوں کی سمگلنگ کا یہ واقعہ نیا نہیں ہے۔

انھوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ صارم برنی کا سکینڈل انسانی سمگلنگ کے ہزاروں کیسز میں سے ایک ہے۔اس وقت ایسے کئی کیسز ہیں جنھیں سننے اور نمٹانے میں عدالت کو 15 سال لگ جائیں گے۔

Getty Imagesایف آئی اے کی جانب سے کی گئی تفتیش کے مطابق صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ نے بچوں کو ان کے والدین سے زبانی معاملات طے کرنے کے بعد گود لیا تھاپاکستان میں گود لینے کا کوئی قانون موجود ہے؟

ایف آئی اے کی جانب سے کی گئی تفتیش کے مطابق صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ نے بچوں کو ان کے والدین سے زبانی معاملات طے کرنے کے بعد گود لیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں بچے گود لینے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ تاہم بچوں کی سرپرستی یا گارڈئین شِپ کا قانون موجود ہے جسے گارڈئین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 کہا جاتا ہے۔

اس قانون کے بارے میں ایڈووکیٹ ہائی کورٹ امتیاز احمد سومار نے بتایا کہ ’عدالت گارڈیئن شِپ اس صورت میں دیتی ہے اگر بچہ اس ماحول میں محفوظ ہو اور اسے کسی اور کو بیچا نہ جائے۔ اسے ملک سے باہر نہ لے جایا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس بات کو یقینی بنانے کے لیے عدالت گارڈیئن کی ہفتہ وار اور ماہانہ پیشی لگواتی ہے اور اس سے رپورٹ لیتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ملک سے باہر لے جانے کے لیے عدالت سے اجازت لینی پڑتی ہے کہ گارڈیئن کس بنیاد پر بچوں کو باہر لے جانا چاہتا یا چاہتی ہے؟ پھر عدالت کو گارنٹی دینا پڑتی ہے اور یہ گارنٹی اشورٹی کی صورت میں جمع کروانی پڑتی ہے۔ یہ اشورٹی 40 لاکھ روپے سے لے کر ایک کروڑ روپے تک ہو سکتی ہے۔‘

امتیاز سومار نے کہا کہ ’عدالت بائیولاجیکل والدین کی طلاق ہونے پر بھی بچوں کو بغیر اشورٹی کے ملک سے باہر نہیں لے جانے دیتی۔‘

’صارم برنی کا معاملہ تو پھر گارڈئین شِپ کا ہے اور زیادہ سنگین ہے۔‘

ایف آئی اے کی عدالت میں جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق، صارم برنی نے ناصرف دستاویزات میں رد و بدل کی بلکہ جھوٹ بول کر بچوں کو غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک بھیجا۔

ایک اور بات یہ بھی سامنے آئی کہ اسلامی ملک میں شرعی قانون نافذ ہونے کی وجہ سے گود لینے کا قانون تو نہیں ہے لیکن گارڈئین شِپ بھی اسی صورت میں ملے گی اگر بچہ یا بچی یتیم ہوں یا پھر بائیولاجکل والدین دونوں دماغی طور پر بیمار ہوں۔

نیروبی کی بلیک مارکیٹ جہاں بچوں کو 300 پاؤنڈ میں بیچا جا رہا ہے’جن کو میں نے جنم دیا کیا انھیں جاننے کا حق نہیں کہ میں مر رہی ہوں؟‘ایک ماں کی ایسی مجبوری کہ وہ بچے کو چند ہزار روپوں میں بیچنے پر آمادہ ہوگئی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More