عمان امام بارگاہ پر حملہ کرنے والے پاکستانی نہیں تھے، سوشل میڈیا پر جھوٹا پراپیگینڈا پھیلایا گیا: پاکستانی سفیر

بی بی سی اردو  |  Jul 17, 2024

Getty Images

عمان کے لیے پاکستانی سفیر عمران علی نے دعویٰ کیا ہے کہ پیر کی شب دارالحکومت مسقط کے قریب امام بارگاہ پر حملہ کرنے والے عسکریت پسند پاکستانی نہیں تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) نے قبول کی ہے۔

پیر کی شب عمان کے حکام کے مطابق دارالحکومت مسقط کے قریب ایک امام بارگاہ پر ہونے والے حملے اور سکیورٹی آپریشن میں کل نو افراد کی ہلاکت ہوئی۔

شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ نے اپنے ٹیلیگرام چینل پر جاری ایک بیان میں امام بارگاہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

تنظیم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دولت اسلامیہ کے تین خودکش بمباروں نے گذشتہ رات عمان کے دارالحکومت مسقط کے علاقے وادی الکبیر میں اہل تشیع کی مجلس پر اس وقت حملہ کیا جب وہ عاشورہ کی مجلس کے لیے جمع تھے۔‘

اس تنظیم کے حامیوں نے بھی سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر اس حملے پر جشن منایا۔

واضح رہے کہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ نے متعدد بار عراق، افغانستان اور پاکستان میں شیعہ مجالس، جلوسوں اور عزاداروں کو بارہا نشانہ بنایا ہے لیکن عمان پر اس کا یہ پہلا حملہ ہے جہاں شیعہ برادری اقلیت میں ہے۔

اطلاعات کے مطابق پیر کی شب قریب 11 بجے مسلح افراد علی بن ابو طالب امام بارگاہ پر حملہ آور ہوئے۔ ایک بیان میں عمان کی رائل پولیس کا کہنا ہے کہ امام بارگاہ پر حملے سے نمٹنے کے لیے فوجی اور سکیورٹی حکام کی جانب سے آپریشن کیا گیا۔

ان کے مطابق اس حملے میں مجموعی طور پر نو افراد کی ہلاکت ہوئی ہے جس میں ایک پولیس اہلکار اور تین حملہ آور شامل ہیں۔ عمانی حکام کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے جبکہ حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔

عمان میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے سوشل پر جاری بیان کے مطابق سفیر عمران علی نے کہا کہ ’اس بارے میں سوشل میڈیا پر غلط پروپیگنڈا گردش کر رہا ہے، مجھے مصدقہ اطلاع مل چکی ہے کہ حملہ آور پاکستانی نہیں تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ چار شہدا، جن کے نام غلام عباس، حسن عباس، قیصر عباس اور سلیمان عباس ہیں یہ دہشت گردی میں نشانہ بننے والے عام مظلومین نہیں تھے۔

’یہ وہ شہید ہیں جنھوں نے اپنی جان کا نظرانہ دوسروں کو بچانے کے لیے دیا۔ یہ وہ شہید ہیں جنھوں نے جا کے بچّوں کو، ماؤں کو، بہنوں کو، ، نومولد بچّوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بچایا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میرے ساتھ زیب اور شاندار ہیں، وہ سکرین پر نہیں آ رہے۔ زیب کے جواں سال بیٹے نے گولیاں کھائی ہیں اور اس کا ابھی آپریشن ہونا ہے۔

’شاندار نے گاڑی کے نیچے سے بچّوں کو بچایا ہے اور شاندار کی گود میں لوگ شہید ہوئے ہیں اور جمیل صاحب اور یہ سارے ہیروز ہیں۔

’پاکستان اس بہیمانہ کارروائی میں ملوث نہیں ہے۔ پاکستان مظلوم ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تیسری چیز یہ ہے کہ حملہ خاص پاکستان کو نشانہ بنا کر نہیں کیا گیا۔ یہ فرقہ واریت پر مبنی آپریشن تھا۔ اس میں پاکستان کو ٹارگِٹ نہیں کیا گیا۔

’جو کمیٹی اس امام بارگاہ کو مینج کر رہی تھی وہ بہادر پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔ ان کی کمیٹی کے کارکن شہید ہوئے ہیں لیکن یہ صلہ رحمی سے پیش آ رہے ہیں اور شہدا کے خاندان کی مدد کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’پی آئی اے ہمارے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ کل کی فلائٹ سے دو لاشیں چلی جائیں گی۔

’پیپر ورک کو تیز کر دیا ہے، تمام قانونی تقاضے سائڈ پر رکھ دیے ہیں اور این او سی جاری کر دیے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے واٹس ایپ گروپ پہلے سے قائم تھے۔ ہمیں کوئی ایکسٹرا کام نہیں کرنا پڑا۔ سارے یرغمالیوں کے پاس میرا واٹس ایپ کا نمبر تھا۔

’تمام لوگوں کی کالیں ہمیں آ رہی تھیں جو اس وقت وہاں تڑپ رہے تھے۔ یہ ایک مثال ہے کہ سفارت خانے کا نمبر سب کے پاس موجود تھا۔ اس وجہ سے ہم عمانی حکومت کو بہتر مشورہ دے سکے کے کس قسم کے آپریشن کی ضرورت ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مینجمنٹ کمیٹی کے جو لوگ تھے اور یوسف الندابی جو شہید ہوئے ہیں یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی جان کا نظرانہ دیتے ہوئے یا اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے دروازے بند کر وائے۔ اپنے آپ کو ظاہر کر کے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر امام بارگاہ کے دروازے کھلے ہوتے اور لوگ باہر کی طرف جا رہے ہوتے تو وہ اوپر بیٹھے سنائپرز کے لیے بہت آسان ہدف تھے۔

Getty Images’لوگ فون پر مدد کے لیے رابطہ کر رہے تھے‘

عمان میں پاکستانی سفیر عمران علی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے ابتدائی طور پر ایک قریبی عمارت سے مسجد میں موجود افراد پر فائرنگ کی تھی۔

ادھر پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں عمانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ امام بارگاہ پر ’دہشت گرد حملے میں گولیاں لگنے سے‘ چار پاکستانی شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔

مسقط میں پاکستانی سفارتخانے نے ہلاک ہونے والے چار پاکستانیوں کے نام غلام عباس، حسن عباس، سید قیصر عباس اور سلیمان نواز بتائے ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ 30 پاکستانی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

جبکہ انڈین سفارتخانے کا کہنا ہے کہ اسے عمانی وزارت خارجہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس واقعے میں ایک انڈین شہری ہلاک اور ایک زخمی ہوا ہے۔ ہلاک ہونے والے انڈین شہری کی شناخت نہیں کی گئی ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ اس حملے پر ’گہرے دکھ‘ میں ہیں اور اس مشکل وقت میں ’متاثرہ کے خاندانوں کے ساتھ‘ ہیں۔

انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’میں نے مسقط میں پاکستانی سفارت خانے کو ہدایت کی ہے کہ وہ زخمیوں کو ہر ممکن مدد فراہم کریں اور ذاتی طور پر ہسپتالوں کا دورہ کریں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان سلطنت عمان کے ساتھ اس وقت میں یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے اور تحقیقات میں مکمل تعاون کی پیشکش کرتا ہے۔‘

عمان میں پاکستان کے سفیر عمران علی نے بی بی سی کے لیے صحافی یسریٰ جبین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ امام بارگاہ علی بن ابو طالب دارالحکومت مسقط کے نواحی علاقے الوادی الکبیر میں واقع ہے جہاں پاکستانی شہریوں کے علاوہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے شہری بھی جاتے ہیں۔

پاکستانی سفیر عمران علی کے مطابق ’یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا جس کے وقت اس امام بارگاہ میں 300 سے 400 لوگ موجود تھے جن میں بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین بھی شامل تھیں۔‘

عمران علی نے بتایا کہ سوموار کی رات تقریبا 11 بجے حملہ ہوا۔

’حملہ 11 بجے ہوا جس کے دوران امام بارگاہ میں جاری مجلس میں موجود بچوں اور خواتین سمیت لوگوں کو تقریبا تین گھنٹے تک یرغمال بنایا گیا۔‘

ان کے مطابق امام بارگاہ میں یرغمال بنائے جانے والے پاکستانی شہریوں نے ان سے اسی حملے کے دوران رابطہ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’عمان میں رہائش پذیر تقریبا تمام پاکستانی شہریوں کے پاس میرا واٹس ایپ نمبر ہے۔ لوگ مجھ سے رابطہ کر رہے تھے اور مدد مانگ رہے تھے اور رو رہے تھے۔‘

اس دوران پاکستانی سفیر عمان کے حکام سے رابطے میں تھے اور عمران علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’رات ڈھائی بجے کے قریب عمان کی پولیس نے یرغمالیوں کو باحفاظت ریسکیو کر لیا تھا۔‘

عمران علی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں لوگوں نے بتایا کہ ’حملہ آوروں کی تعداد پانچ تھی۔‘

عمران علی نے مزید بتایا کہ ان کے پاس حملہ آوروں کی شناخت کے حوالے سے معلومات تو موجود ہیں لیکن عمانی حکام نے ان سے اس بارے میں بات نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

عمران علی نے بی بی سی کو بتایا کہ زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے خولہ ہسپتال، ناہدہ ہسپتال اور رائل ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ ہے۔

بی بی سی عربی کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کئی صارفین نے اس حملہ کی ویڈیوز شیئر کی ہیں اور عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ویڈیوز میں لوگوں کو بارگاہ کے قریب گولیوں کی آوازوں کے درمیان منتشر ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور ’لبیک یا حسین‘ کے نعرے گونج رہے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستانی سفیر کے مطابق عمان میں تقریباً چار لاکھ سے زائد پاکستانی شہری مقیم ہیں۔

ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ’تنہائی پسند‘ اور ’خاموش‘ نوجوان جو کالج میں بعض اوقات ’شکاریوں کا لباس پہن کر آتے تھے‘’یزیدی خواتین کو قید رکھنے‘ کے جرم میں سزائے موت پانے والی دولتِ اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی کی بیوہ اُمِ حذیفہ کون ہیں؟Getty Imagesپاکستانی سفیر کے مطابق عمان میں تقریباً چار لاکھ سے زائد پاکستانی شہری مقیم ہیں۔مسلح حملہ آوروں نے ’مسجد میں لوگوں کو یرغمال بنایا‘

عمان کی حکومت اور حکام کی جانب سے ابھی تک اس حملے کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

ابو ظہبی کے اخبار دی نیشنل کے مطابق مسجد میں خواتین اور بچوں سمیت کئی افراد کو مسلح افراد نے یرغمال بنایا جنھیں بعد میں اسلحے سے لیس قانون نافذ کرنے والے اداروں نے رہا کروایا۔

علی نامی ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے ایک ڈراؤنا واقعہ تھا۔ ’سب محرم کے دوران مسجد میں عبادت کرنے گئے تھے۔ جو ہوا وہ پریشان کن تھا۔‘

’مسجد میں موجود معصوم لوگوں پر منصوبہ بندی کے تحت حملہ کیا گیا اور ہم اب تک صرف یہی جانتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا ہوسکتا تھا، ہم اس پر خدا کاشکر ادا کرتے ہیں۔‘

حملے کے وقت ایسی ویڈیوز دیکھی جاسکتی ہیں جن میں لوگ ’یا خدا‘ اور ’یا حسین‘ کہہ رہے ہیں۔

https://twitter.com/RoyalOmanPolice/status/1813204241776775527

عمانی حکام کا کیا کہنا ہے؟

ایک بیان میں عمان کی رائل پولیس کا کہنا ہے کہ امام بارگاہ پر حملے سے نمٹنے کے لیے فوجی اور سکیورٹی حکام کی جانب سے آپریشن کیا گیا۔ ان کے مطابق اس حملے میں مجموعی طور پر نو افراد کی ہلاکت ہوئی ہے جس میں ایک پولیس اہلکار اور تین حملہ آور شامل ہیں۔

پولیس نے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے 28 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔ ان میں عمان رائل پولیس اور رائل ڈیفنس اینڈ ایمبولینس اتھارٹی کے چار اہلکار شامل ہیں۔

عمان کی رائل پولیس کے مطابق زخمیوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

اس سے قبل عمان کی پولیس کی جانب سے ایک مختصر بیان میں بتایا گیا کہ ’الوادی الکبیر میں فائرنگ کے واقعے کے بعد پولیس نے کارروائی کی جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق چار افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔‘

عمان کی پولیس کے بیان میں بتایا گیا کہ ’اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گئے اور شواہد اکٹھا کرنے اور تفتیش کا عمل جاری ہے۔‘

پولیس کی جانب سے حملہ آوروں کی شناخت کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا۔

عمان میں اس طرح کا پرتشدد واقعہ پیش آنا حیران کن ہے کیوں کہ مشرق وسطی کی یہ ریاست خطے میں کافی مستحکم اور محفوظ سمجھی جاتی ہے۔

اسی وجہ سے عمان نے خطے میں جاری تنازعوں میں مصالحت کی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

عمان کی مجموعی آبادی تقریبا 46 لاکھ کے قریب ہے جس میں سے 40 فیصد غیر ملکی ہیں۔ تاہم عمان کی حکومت آبادی کے مذہبی اعداد و شمار شائع نہیں کرتی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے تخمینوں کے مطابق عمان کی آبادی میں 95 فیصد مسلمان ہیں جن میں سے 45 فیصد سنی جبکہ پانچ فیصد شیعہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد سوشل میڈیا پر پھیلنے والے سازشی نظریات: ’حکم سی آئی اے کی طرف سے آیا‘ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ’تنہائی پسند‘ اور ’خاموش‘ نوجوان جو کالج میں بعض اوقات ’شکاریوں کا لباس پہن کر آتے تھے‘’سیکرٹ سروس کا ایک ہی کام تھا اور وہ اس میں بھی ناکام رہی‘، امریکی صدور کی حفاظت کی ذمہ دار سیکرٹ سروس کیسے کام کرتی ہے؟جب گوادر انڈیا کا حصہ بنتے بنتے رہ گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More