آنکھوں کا یوگا: کیا ورزش بینائی کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 14, 2024

Getty Images

کیا آپ نظر کی کمزوری کے باعث چشمہ لگاتے ہیں لیکن چشمے کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خواہش آپ کے دل میں بھی بار بار ہوتی ہے۔

موسیقار پال میک کارٹنی نے حال ہی میں ٹائمز میگزین کو بتایا کہ وہ عینکسے چھٹکارا پانے اور بینائی کی مزید کمزوری سے بچنے کے لیے آنکھوں کے یوگا (ورزش) کی مشق کرتے ہیں۔

اس انٹرویو میں دی بیٹلز کے سابق رکن پال میک نے انکشاف کیا کہ انھوں نے چند سال انڈیا میں آنکھوں کیخاص مشقوں کے بارے میں سیکھا تھا اور تب سے وہ ان پر عمل کرتے ہیں۔

گلوکار کا کہنا ہے کہ آنکھوں کے پٹھوں کی ورزش کر کے عینک پہننے کی ضرورت کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔

میک کارٹنی نے یوٹیوب پر آنکھوں کے یوگا سے متعلق کچھ عملی مشقوں کا مظاہرہ کیا ہے۔

تو آنکھوں کا یوگا کیا ہے؟ اورکیا آپ کی آنکھوں کی ورزش واقعی عینک پہننے کی ضرورت کو کم سے کم کرسکتی ہے؟

مرحلہ وار مشقیںGetty Images

آنکھوں کے یوگا کی مختلف اقسام ہزاروں سالوں سے رائج ہیں۔

ایک مثال تراتک کریا (Tratak Kriya) یوگا ہے جس کی شروعات انڈیا سے ہوئی۔

اس مشق کو کرنے کے دوران سب سے پہلےاپنے اندر اس یقین کو لانا ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے اپنے اندر اعلیٰروحانی صلاحیتوںکو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

سنسکرت کے لفظ ’تراتک‘کا مطلب ہے ’دیکھنا‘اور اسیوگا میں کسی چیز کو گھورنا شامل ہے، جیسے موم بتی کے شعلے کو بغیر پلک جھپکائے دیکھنا یہاں تک کے آنکھ سے پانی بہنے لگے۔

19ویں صدی کے آخر میں نیویارک کے ماہر امراض چشم ڈاکٹر ولیم بیٹس نے آنکھوں کی بینائی کو بہتر بنانے کا طریقہشائع کیا جس میں انھوں نے دلیل دی کہ آنکھوں کی ورزشیں چشمے کی ضرورت کو روک سکتی ہیں۔

ڈاکٹر کا خیال تھا کہ آنکھوں کی حرکات اور تصور پر مبنی تکنیکوں پر مشتمل مشقوں کے ذریعے عینک کی ضرورت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

جیسے آنکھوں ٹیسٹ کے چارٹ کو دیکھتے ہوئے حروف کے خاکے پر توجہ مرکوز کرنا، بار بار پلکیں جھپکنا، خط کو دیکھنے کے لیے آنکھیں بند کر کے اس کا گہرائی میں تصور کر کے انھیں سیاہ اور واضح دیکھنا۔

Getty Images

ڈاکٹر ولیم بیٹس کی آنکھوں کی مشقوں پر مشتمل ایک ویب سائٹ آج بھی ان کے کام کو ثابت کرتی ہے۔

تاہم ولیم بیٹس کا نظریہ، کہ آنکھ حرکت اور توجہ مرکوز کرنے کے دوران شکل بدلتی ہے، درست نہیں۔

انٹرنیشنل جرنل آف یوگا میں 2018 کے مطالعے میں چھوٹے سے چھوٹا دیکھنے کیبصری صلاحیت اور اضطراری غلطی (کسی شخص کے چشمے کے نمبر کا نسخہ) کا موازنہ دو گروپوں میں کیا گیا جنھوں نے آٹھ ہفتوں تک ولیم بیٹس کی مشقیں کیں۔

مطالعہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کسی بھی مشق نے ان دونوں حالتوں میں کوئی فرق نہیں کیا۔

Getty Images

ولیم بیٹس کے سولرائزیشن (سورج کی طرف دیکھنے) کو فروغ دینے کے طریقہ کار کو ماہرین امراض چشم نے نہ صرف ثبوت کی کمی کی بنا پر مسترد کر دیا ہے بلکہ اسکو ممکنہ طور پر نقصان دہقرار دیا ہے۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ آئی یوگا یا بیٹس تھیوری کی مشقیں کیوں نگاہ کو بہتر کرتی ہیں یا نہیں ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہآنکھکیسے کام کرتی ہے۔

ہمیں عینک کی ضرورت کیوںپیش آتی ہے؟

عینک کی ضرورت اس وقتہوتی ہے جب روشنی کی شعاعیں ریٹینا پر مرکوز نہیں ہوتیں۔

جب فوکس پوائنٹ ریٹنا کے سامنے ہوتا ہے تو یہ مایوپیا یا نزدیکی بصیرت ہے۔ جب فوکس پوائنٹ ریٹنا کے پیچھے ہوتا ہے تو یہ ہائپروپیا ہوتا ہے۔

ایسٹگمیٹزم (Astigmatism) میں فاصلے کی چیز دھند لی نظر آتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب آنکھ کی اگلی سطح کا گھماؤ ایک کرہ سے زیادہ رگبی بال کی طرح ہوتا ہے۔

اور پریسبائی پیا (presbyopia) عمر بڑھنے کا ایک عام عمل ہے جس میں آنکھ کا لینس سخت ہو جاتا ہے اور قریبی چیزوں پر بھی توجہ نہیں دے پاتا۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کو درمیانی عمر میں عینک لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

Getty Images

ہماری آنکھوں کا مرکزی حصہ کارنیا (آنکھ کا سامنے کا حصہ) ہے لیکن لینز وہ حصہ ہے جو حسّاس ہوتا ہے اور جو قریبی اشیا کو غور سے دیکھنے پر زیادہ محدب بن جاتا ہے یا ابھر آتا ہے اور جب دور اشیا پر توجہ مرکوز کی جائے تو یہ سپاٹ ہو جاتا ہے۔

آنکھ کی پُتلی کے سائز اور ابھار کو آنکھ کی پتلی کے بیرونی حصے سیلری مسلز اور لیگامینٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس آنکھ کی حرکت میں شامل پٹھے آنکھ کے باہر واقع ہوتے ہیں۔

آنکھوں کے اندرونی اور بیرونی پٹھے کچھ حد تک مل کر کام کرتے ہیں (اس میں پڑھنے کے دوران ہم آہنگی اور توجہ مرکوز کرنا دونوں شامل ہوتے ہیں)، مختلف چیزوں کی طرف غور یا دور سے دیکھنے سے آنکھ کی شکل یا سائز یا فوکس متاثر نہیں ہوتا۔

لہٰذا آنکھوں کی ورزش کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں ہے۔

تاہم آرتھوپٹسٹ اور آنکھوں کے مسائل کی تشخیص کرنے والے ماہرین اکثر اوقات مخصوص ورزشیں تجویز کرتے ہیں۔

ایک مثال ’کنورجینس یا ایک نقطہ پر توجہ مرکوز کرنے میں کمی‘ ہے جس میں لوگوں کو دوہری بینائی کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے میں پنسل والی ورزش کا مشورہ دیا جاتا ہے جس میں آنکھیں پنسل پر فوکس کرتی ہیں اور وہ آہستہ آہستہ ناک کی طرف لائی جاتی ہے۔

چھوٹے بچے جنھیں عینک نہیں پہنائی جا سکتی مگر انھیں کسی چیز پر فوکس کا مسئلہ ہو، ان کے لیے ایک چھوٹے سے حرف پر توجہ موکوز کرنے اور آہستہ آہستہ اسے ناک کے قریب لانے والی مشق مددگار ہوتی ہے۔

بالغ افراد کو عمر کے ساتھ اوپر کی جانب دیکھنے میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ چھوٹی عمر میں ہم سب کو اوپر دیکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے لیکن آنکھوں کے پٹھے بغیر ورزش کے تھک جاتے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اگر آپ روزانہ کوئی ایسا کام نہ کررہے ہوں جس میں آنکھوں کی ورزش ہو جاتی ہو تو اس (ورزش) کے بغیر اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اوپر دیکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔

اگرچہ یہ ورزشیں آنکھوں کی بصارت کے کچھ مسائل حل کر سکتی ہیں لیکن اس بات کے ثبوت کم ہیں کہ ورزش کے ذریعے پریسبیوپیا ( اس میں دور کی اشیا صاف اور واضح نظر آتی ہیں جبکہ قریبی اشیا دھندلی دکھائی دیتی ہیں) پر قابو پانے میں مدد ملی ہو۔

Getty Imagesآنکھوں کی حفاظت کیسے کی جائے؟

ہم سب اپنی آنکھوں اور بینائی کا خیال رکھنا اور اسے بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ صرف چند منٹ کی آنکھوں کی ورزش اور فاصلے کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کے پٹھوں کو آرام دینا، یہ کرنے سے آپ کی آنکھوں کو تکلیف نہیں ہو گی۔

لیکن طرز زندگی میں تبدیلیاں زیادہ مددگار ہوتی ہیں۔

چشمے کا نمبر، آنکھوں پر دباؤ، ریٹنا اور آنکھوں کی صحت کا معائنہ کرنے کے لیے آپٹومیٹرسٹ (عام طور پر ہر سال بچوں کے لیے اور بالغوں کے لیے ہر دو سال بعد) سے معائنہ کروانا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ گلائی کوما کی طرح دیگر بیماریوں کی ابتدائی علامات کا پتا لگا کر وقت پر علاجشروع کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سکرین ٹائم کم کرنے سے بھی آنکھوں کی خشکی کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

20:20:20 کے اصول پر عمل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے: یعنی ہر 20 منٹ بعد 20 سیکنڈ کا وقفہ لیں اور 20 فٹ(6 میٹر) سے دور دیکھیں۔

کھلی آب و ہوا میں باہر وقت گزارنا بھی آنکھوں کے لیے اچھا ہے اور جو بچے باہر کھیل کود وغیرہ میں وقت گزارتے ہیں ان میں نظر کی کمزوری کا امکان کم ہوتا ہے۔

شواہد سے ظاہر ہوا ہے کہ میڈیٹرینین خوارک اور پتوں والی سبز سبزیاں جیسے پالک وغیرہ آپ کو میکولر ڈیجینریشن سے بچاتی ہیں۔

اومیگا تھری سے بھرپور غذا آنکھوں کی خشکی دور کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

اچھی نیند اور سورج کےی روشنی میں اچھے معیار کے سیاہ چشمے پہننے کی بھی تجویز کی جاتی ہے۔

اگر آپ خشک آنکھوں والی بیماری میں مبتلا ہیں یا طویل عرصے سے سکرینوں کا استعمال کر رہے ہیں تو اس صورت میں آنکھوں کی غدود کی مالش کرنے سے تکلیف کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ایک سادہ طریقہ یہ ہے کہ پلکوں پر پیدا ہونے والے تیل کو آنکھ کی سطح پر کھینچ کر لانے کے لیے پلکوں پر گرم کپڑا رکھ کر ہلکا سا دبائیں اور آنکھ کے نیچے کے حصے کی جانب مساج کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کو آرام محسوس ہو گا۔

اچھی روشنی میں پڑھنا آنکھوں کی صحت کے لیے بہترین ہے اور اگر ممکن ہو تو فون کے بجائے کمپیوٹر پر پڑھنے کی کوشش کریں۔

آنکھوں کی ورزش چشمے پہننے کی ضرورت کو کم یا ختم نہیں کر سکتی تاہم آپ کی آنکھوں اور بینائی کی دیکھ بھال کرنے کے دوسرے طریقے موجود ہیں۔

گلاکوما: وہ بیماری جو علامات ظاہر کیے بغیر بینائی چھین لیتی ہے کائی میں موجود پروٹینز 20 سال سے نابینا شخص کی بینائی لوٹانے کا سبب بن گئے’مجھے امید دلوائی گئی کہ یہ علاج مجھے نابینا ہونے سے بچا لے گا‘: مریضوں کو جھوٹی امیدیں بیچنے والے ڈاکٹروہ بیماری جو بینائی کے بغیر بھی ’دیکھنا‘ ممکن بنا دیتی ہے’سگریٹ نوشی اندھے پن کا باعث بن سکتی ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More