گگرال: کروڑوں میں فروخت ہونے والی گوند فراہم کرنے والا درخت پاکستان میں خطرے کا شکار کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Jul 11, 2024

BBCسومجی کولہی اور بھارومل ایروانی کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے مقابلے میں گگرال کے درختوں میں 50 فیصد کمی ہو چکی ہے

’گگرال کو چھلنی کر کے زیادہ سے زیادہ گوند حاصل کرنے کے خلاف ہم علاقے کی خواتین مردوں کے ساتھ مل کرمہم چلا رہی ہیں۔‘

’ہم گگرال درخت پر راکھی باندھ کر حکام اور اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد کو احساس دلانا چاہتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے قیمتی ہے۔ جب اس کو خطرناک اجزا سے تیار کیمیکل سے زخمی کرتے ہیں تو یہ تکلیف ہم بھی محسوس کرتے ہیں۔‘

یہ کہنا ہے صوبہ سندھ کے ضلع تھر کے گاؤں ادھیگام کی رہائشی خاتون مروان کا جہاں گگرال درخت خطرے کا شکار ہے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران سندھ وائلڈ لائف نے گگرال درخت (جس کو گگل بھی کہا جاتا ہے) کی گوند کو متحدہ عرب امارات اور سری لنکا سمگل کرنے کی دو الگ الگ کوششیں ناکام بنائی ہیں۔

سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے فیلڈ افسراشفاق علی میمن، جو سمگلنگ کے دونوں کیسز میں تفتیشی افسر ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ سمگلنگ کی یہ کوشش کراچی ایئرپورٹ سے کی جا رہی تھی جس کے بعد سندھ وائلڈ لائف کو اینٹی نارکوٹکس فورس نے اطلاع فراہم کی تو علم ہوا کہ یہ گگرال درخت سے حاصل کردہ گوند تھی جس کی خرید و فروخت اور برآمد پر پابندی ہے۔

واضح رہے کہ مختلف تخمینوں کے مطابق پاکستان میں اچھی قسم کی گگرال گوند 10 سے 15 ہزار روپے فی کلو میں دستیاب ہوتی ہے تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت دوگنا سے بھی زیادہ جبکہ بلیک مارکیٹ میں اس کی قیمت اس سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ بخار، موٹاپے اور دل کے امراض کے علاج سمیت جنسی طاقت بڑھانے کے لیے اس گوند کا استعمال ہے۔

BBCصوبہ سندھ کے ضلع تھر کے گاؤں ادھیگام کی رہائشی خاتون مروان کہتی ہیں کہ ’گگرال کو چھلنی کر کے زیادہ سے زیادہ گوند حاصل کرنے کے خلاف ہم علاقے کی خواتین مردوں کے ساتھ مل کمہم چلا رہی ہیں‘’اس کی قیمت دو کروڑ تک ہے‘

اشفاق علی میمن کے مطابق کراچی ایئرپورٹ پر سمگلنگ کی ناکام کوشش کے بعد پکڑی جانے والی پہلی کھیپ میں کم از کم 17 ہزار 936 کلو گرام گگرال درخت کی گوند بر آمد ہوئی تھی جس کو متحدہ عرب امارات سمگل کیا جا رہا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس کے ساتھ منسلک کاغذات میں اس کی قیمت 50 لاکھ بتائی گئی جو غلط ہے۔‘

’ہمارے خیال کے مطابق اس کی کم از کم قیمت دو کروڑ روپے ہے۔ دوسری کھیپ پانچ سو کلو گرام تھی اور اس کی مالیت بھی دس لاکھ روپے بتائی گئی تاہم اس کی مالیت بھی زیادہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کم قیمت دکھانے کی وجہ ٹیکس سے بچنا اور دیگر معاملات ہو سکتے ہیں۔

سندھ کے ادیب، شاعر اور ماحولیاتی کارکن کارکن بھارو مل امرانی کئی سال سے گگرال کے تحفظ کی مہم چلا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’گگرال جنوبی پاکستان کے غریب محنت کشوں کا قحط سالی اور مشکلات کے دور کا ساتھی ہے۔ یہ ماحولیاتی محافظ ہی نہیں بلکہ غریب کی روزی روٹی کا بڑا زریعہ بھی ہے۔‘

گگرال درخت کیسے زخمی ہو کر مردہ ہوتا ہے اور اس سے حاصل کردہ گوند کی کیا اہمیت ہے اور اس کو بچانے کے لیے مہم کیوں جاری ہے؟ اس پر آگے چل کر نظر ڈالتے ہیں، پہلے دیکھتے ہیں کہ یہ گگرال درخت ہے کیا؟

BBCگگرال کو بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این نے خطرے کا شکار قرار دیا ہوا ہےگگرال درخت کی خصوصیات کیا ہیں

گگرال کو بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این نے خطرے کا شکار قرار دیا ہوا ہے۔ یہ جنوبی پاکستان اور مغربی انڈیا کے علاقوں کا مقامی درخت ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ اور بلوچستان جبکہ انڈیا کے گجرات، راجھستان اور میسور کے علاقے میں یہ درخت پایا جاتا ہے۔

سندھ وائلٹ لائف کے چیف کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے مطابق گگرال صحرائی، کم بارش اور پتھریلے علاقوں کا درخت ہے۔

’یہ صوبہ سندھ میں کیرتھر نیشنل پارک، کارونجھر، رن آف کچھ وائلڈ لائف سینکچویری، گورکھ ہلز اور ملحقہ کیرتھر رینجز، بلوچستان اور صوبہ پنجاب کے ڈیرہ غازی خان اور ملحقہ علاقوں میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ درخت صحرائی اور کم بارشوں والے علاقوں کے ماحولیاتی نظام، فوڈ چین میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

’اس کو مختلف جنگلی حیات اپنی خوراک کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ زمین اور مٹی کا دفاع کرتا ہے، جیسے جب صحرائی علاقوں میں تیز ہواہیں چلتی ہیں تو اس ہوا میں یہ مٹی کو اڑنے سے روکتا ہے۔‘

جاوید احمد مہر کے مطابق ’جس کھیت کے اندر گگرال کا درخت موجود ہو تو یہ کھیت کی نقصان دہ کیڑوں سے حفاظت کرے گا۔‘

’اس کی بڑی اہمیت جراثیم کے خلاف جنگ کرنا اور بیماروں کو روکنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ قدیم زمانے سے اس کی ٹہنیاں اپنے گھروں کے اردگرد لگاتے ہیں۔‘

جاوید احمد مہر کے مطابق گگرال کے غیر قانونی کاروبار پر پابندی سندھ ہائی کورٹ میں دائر کردہ ایک درخواست منظور ہونے کے بعد لگائی گئی۔

’اس پیٹیشن میں استدعا کی گئی تھی کہ ماحولیات کا تحفظ کیا جائے جس پر سندھ ہائی کورٹ نے ہمیں اس کا جائزہ لینے کا حکم دیا تو ہمارے ماہرین نے یہ جانا کہ ماحولیات کو گگرال درخت کے کم ہونے سے نقصان پہنچ رہا ہے جس کا ایک بڑا سبب غیر قدرتی طور پر اس کی گوند کا حصول تھا۔ اس درخت سے غیر قدرتی طور پر گوند حاصل کرنے اور اس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔‘

’جنگل کی ماں‘ کہلائے جانے والے باؤباب درخت ہزاروں سال تک کیسے زندہ رہے؟سندھ کو لاکھوں ڈالر کی آمدن دلوانے والی کاربن ٹریڈنگ: ’جب سے یہ کام شروع کیا ہمارے مالی حالات بہتر ہوئے ہیں‘گگرال کی گوند قیمتی کیوں ہے؟

بھارو مل امرانی بتاتے ہیں کہ گگرال سے سال میں دو مرتبہ قدرتی طور پر گوند نکلتی ہے جسے ہزاروں سال سے بخار، پیٹ، موٹاپے، دل کے امراض اور گھریلو ادویات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا ’اس گوند کی شاندار خوشبو ہوتی ہے اور ہندو مذہب کے علاوہ کچھ اور مذاہب کے ماننے والے مندروں اور مقدس مقامات کو خوشبودار بنانے کے لیے ہزاروں سال سے اس کا استعمال کرتے آ رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ گوند مختلف قسم کی ادوایات میں خام مال کے طور پر استعمال بھی ہوتی ہے جبکہ اس سے تیار کردہ خوشبو اور پینٹ بھی پوری دنیا میں بہت مہنگے بکتے ہیں۔

تاہم بھارومل نے بتایا کہ چند سال پہلے تک مقامی لوگ قدرتی طور پر ہی حاصل ہونے والی گوند فروخت کرتے تھے مگر تین دہائی قبل ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت اور قیمت میں اضافے کے بعد ایک غیر فطری طریقے کا استعمال شروع ہوا جس میں درخت کو چھلنی کیا جانے لگا۔

یاد رہے کہ اس درخت کی عمر ماہرین کے مطابق 40 سے 50 سال تک ہوتی ہے لیکن ایک کیمیکل بھرا انجیکشن لگانے سے یہ چند دنوں میں ہی مر سکتا ہے۔

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان کے شعبہ نباتات کے سربراہ ڈاکٹر شیر علی خان کہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا میں رائج مقامی طریقہ علاج میں اس گوند کا بہت زیادہ استعمال ہے۔ ’اس کو مردوں میں جنسی طاقت بڑھانے والی ادویات جبکہ عورتیں میں جنسی خواہشات ابھارنے والی ادویات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر شیر علی خان کہتے ہیں کہ ادویات کی تیاری کے علاوہ ادویات کے پیکنگ میٹیریل میں بھی اس کی گوند استعمال کی جاتی ہے۔

BBCتین دہائی قبل ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت اور قیمت میں اضافے کے بعد ایک غیر فطری طریقے کا استعمال شروع ہوا جس میں درخت کو چھلنی کیا جانے لگاانڈیا بڑی مارکیٹ

گگرال کی گوند کے کاروبار سے منسلک ایک تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ آج بھی انڈیا اس درخت کی گوند کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

تاجر کے مطابق ’پاکستان میں پابندی لگنے سےسے کئی سال قبل انڈیا کی مختلف ریاستوں میں اس درخت سے بڑے پیمانے پر اسی طرح کیمیکل کے ذریعے گوند حاصل کرنے پر انڈیا نے پابندی عائد کر دی تھی، جس کے بعد انڈیا کی ضرورت پاکستان سے پوری ہوتی تھی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’کیمیکل لگا کر گوند حاصل کرنے کا طریقہ انڈیا سے پاکستان پہنچا تھا۔ جب تک پاکستان اور انڈیا کے درمیاں تجارت پر پابندی نہیں تھی اس وقت تک یہ براہ راست انڈیا ایکسپورٹ ہوتا تھا لیکن تجارت پر پابندی کے بعد دیگر راستے تلاش کر لیے گئے تھے۔‘

اس تاجر کے مطابق ’پاکستان میں گگرال کی گوند کی پراسیسنگ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ انڈیا میں اس کی پراسیسنگ کی جاتی ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر مقامی طریقہ علاج کے مطابق ادویات تیار کی جاتی ہیں جن کو مختلف پیکنگ اور برینڈز کی شکل میں دنیا بھر میں ایکپسورٹ کر دیا جاتا ہے۔‘

تاجر کے مطابق اس گوند سے تیار کردی مصنوعات کی مارکیٹ میں متحدہ عرب امارات، سری لنکا، نیپال اور ایران شامل ہیں۔

گگرال سے گوند کیسے حاصل کی جاتی ہے

جاوید احمد مہر کا کہنا تھا کہ گگرال کا درخت قدرتی طور پر سال میں دو مرتبہ نومبر دسمبر سے جنوری فروری اور پھر مون سون میں قدرتی طور پر آدھا کلو گوند دیتا ہے۔

’اس موسم میں ایک جوان اور صحت مند درخت پر گوند خود بخود تنے پر نکل آتی ہے۔ غیر فطری طریقے سے گگرال کے ایک درخت سے ایک کلو تک گوند حاصل ہوتی ہے۔‘

جاوید احمد مہر کہتے ہیں کہ ’گگرال کا ایک درخت قدرتی طور پر ایک درخت سے دوسرے درخت یا ایک درخت کی زمین پر گری ہوئی ٹہنی سے دوسرا درخت جڑ پکڑتا ہے۔ یہ آٹھ سے دس سال میں جوان ہوتا ہے اور اس کی زندگی 40 سے 50 سال ہوتی ہے۔‘

بھارومل ایرانی کا کہنا تھا کہ غیر فطری طور پر گوند حاصل کرنے کے مختلف قسم کے طریقے ہیں، جس میں دو زیادہ رائج ہیں۔

’ایک طریقے میں مقامی طور پر تیار کیمیکل میں گدھے کا پیشاب، ہینک، تیزاب اور اس طرح کی دیگر اشیا شامل ہوتی ہیں۔‘

’اس کیمیکل کا انجیکشن جب درخت کو لگتا ہے تو وہ فوری طور پر گوند چھوڑنا شروع کر دیتا ہے۔ اس سے گوند قدرتی طریقے سے دوگنا زیادہ تو حاصل ہوتی ہے مگر درخت کی زندگی ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ عموماً کیمیکل لگا درخت ایک دو سال میں ختم ہوجاتا ہے۔‘

بھارومل ایروانی کہتے ہیں کہ دوسرا طریقہ تیز دھار آلے پر کیمیکل لگا کر درخت پر وار کیا جاتا ہے۔

سومجی کولہی اور بھارومل ایروانی کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے مقابلے میں گگرال کے درختوں میں 50 فیصد کمی ہو چکی ہے۔

BBCپاکستان کے صوبہ سندھ اور بلوچستان جبکہ انڈیا کے گجرات، راجھستان اور میسور کے علاقے میں یہ درخت پایا جاتا ہےخطرے کا شکار درخت

جاوید احمد مہر کا کہنا تھا کہ عملی طور پر محکمے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے جنگلات میں اس درخت کو کیمیکل لگا کر زخمی کرنے والے ملزمان کو پکڑنا ممکن نہیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’محکمے نے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر اس کو جن راستوں سے سمگل کیا جاتا ہے وہاں سختی کی ہے۔‘

جاوید احمد مہر کا کہنا تھا کہ ’چند سال پہلے تک یہ تصور بھی موجود نہیں تھا کہ گگرال کی تعداد اس طرح کم ہوسکتی ہے مگر یہ ہو چکا ہے۔‘

’اب نہ صرف ماحولیات، جنگلی حیات بلکہ ہماری معاشیات، صحت کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا تحفظ کیا جائے ورنہ ہمیں تو اس بات کا خدشہ ہے کہ آئندہ 10 سال میں یہ درخت نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا اور کیمیکل اس کی آماجگاہوں کو بھی تباہ و برباد کر دے گا۔‘

گگرال کی کمی، روزگار میں کمی

سومجی کولہی کا تعلق بھی ضلع تھر کے گاؤن ادھیگام سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’سندھ کے صحرائی اور کم بارش والے علاقوں کے لوگوں اور خود ہمارے گاؤں جس کی آبادی تقریباً پانچ ہزار ہے، کا بڑا زریعہ روزگار مال مویشی پالنا ہے۔‘

’یہ مال مویشی شہروں سے بیوپاری خرید کر لے جاتے ہیں۔ ہمارے مال مویشی کی خوراک، صحتاور ان کی پیدوار کا بڑا انحصار گگرال درخت کے پتے اور ٹہنیاں ہوتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ چند سال سے جب سے گگرال درختوں کو گوند کے حصول کے لیے چھلنی کیا جانے لگا تو ہمارے مال مویشی پتے، ٹہنیاں کھا کر بیمار ہو کر مر جاتے ہیں۔‘

’بکریوں کا حمل نہیں ٹھرتا، کیمیکل لگے درخت کے پتے کھانے سے حمل گر جاتا ہے۔ پہلے میرا ریوڑ 700 مختلف قسم کے مال مویشی پر مشتمل تھا جو اب گزشتہ پانچ سال سے کم ہو کر 500 پر چلا گیا ہے۔‘

سومجی کولہی کہتے ہیں کہ ’لگتا ہے کہ اگر اسی طرح کی صورتحال رہی تو کچھ عرصہ میں میرا ریوڑ ختم ہو جائے گا اور مجھے شہر جا کر محنت مزدوری کرنا پڑے گی۔‘

جاوید احمد مہر کہتے ہیں کہ ’جب گگرال سے غیر فطری طور پر گوند حاصل کرنے کے لیے مختلف قسم کے کیمیکل کے انجیکشن لگائے جاتے ہیں تو وہ کیمیکل پورے درخت میں پھیل جاتا ہے۔‘

’اس کے پتے اگر مال مویشی کھائیں تو وہ مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسا درخت جس کو کیمیکل لگایا جائے وہ کچھ عرصے میں مردہ ہوجاتا ہے اور جو مال مویشی اس کو استعمال کرتے ہیں وہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘

مروان کہتی ہیں کہ ’اگر گگرال کو اسی طرح زخمی کر کے کے مارنا ہے تو پھر سمجھ لو کہ ادھیگام میں زندگی نہیں گزر سکتی۔‘

’ہم لوگ بارشوں کے بغیر قحط کے دنوں میں بھی گگرال کے سہارے زندگی گزار چکے ہیں مگر اب گگرال ختم ہوگا تو پھرادھیگام بھی نہیں رہے گا۔‘

نیپال: کروڑوں کا درخت جس کے تحفّظ کے لیے خاردار تاروں اور کیمروں کےعلاوہ پولیس بھی تعیناتدنیا کے قدیم دیوقامت درخت مر کیوں رہے ہیں؟گرمی سے بچنے کے لیے درخت لگائیں لیکن کہاں اور کیسے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More