امریکی میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا خوشی سے نہال کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Jul 10, 2024

Getty Images

معروف امریکی تعلیمی ادارے جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے بہت سے موجودہ اور مستقبل کے میڈیکل طلبا کو سوموار کو یہ علم ہوا ہے کہ ان کی ٹیوشن فیس جلد ہی معاف ہونے والی ہے۔

نیویارک کے سابق میئر اور کاروباری رہنما مائیکل بلومبرگ نے ان طلبا کی تعلیم کے لیے ایک ارب امریکی ڈالر کا عطیہ دیا ہے جن کے والدین سالانہ 300,000 ڈالر سے کم کماتے ہیں۔

اور جن طلبہ کے والدین کی سالانہ کمائی 175,000 سے کم ہے ان کی رہائش کے اخراجات بھی اس رقم سے ادا کیے جائیں گے۔

مائیکل بلومبرگ کے اس عطیے سے میری لینڈ میں مقیم جانز ہاپکنز کے دو تہائی موجودہ اور مستقبل کے ممکنہ میڈیکل طلبا مستفید ہوں گے۔

مائیکل بلومبرگ کا کہنا ہےکہ ’جہاں امریکہ متوقع عمر میں پریشان کن کمی کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے وہیں ہمارے ملک کو ڈاکٹروں، نرسوں اور صحت عامہ کے پیشہ ور افراد کی شدید کمی کا سامنا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مزید برآں میڈیکل، نرسنگ، اور گریجویٹ سکول میں تعلیم و تربیت پر آنے والے بھاری اخراجات اکثر طلبا کو داخلہ لینے سے روکتے ہیں۔‘

سکول کی رپورٹ کے مطابق جانز ہاپکنز میڈیکل سکول کے تازہ ترین فارغ التحصیل طلبا پر اوسطاً ایک لاکھ ڈالر کا قرض تھا۔

Getty Imagesمائیکل بلومبرگ نے اس سے قبل اس سے بھی زیادہ رقم عطیہ کر رکھی ہےسابق پروفیسر کا ایک ارب ڈالر کا عطیہ میڈیکل کالج کے طلبا کے لیے خوشی کا کیا پیغام لایا؟نامور امریکی بروکرز کو آٹھ ملین ڈالر کا جھانسہ دینے والے پاکستانی نژاد عمر خان کون ہیں؟Getty Imagesجاںز ہاپکنز یونیورسٹی کی عمارت

مائیکل بلومبرگ نے یہ عطیہ اپنی فلاحی تنظیم کے ذریعے کیا ہے۔ اس سے یونیورسٹی کے دیگر پروگراموں میں طلبا کے لیے دستیاب مالی امداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی صحت عامہ اور نرسنگ، ایجوکیشن، انجینئرنگ اور دیگر شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنے والے گریجویٹ کے طلبہ بھی اس سے مستفید ہوں گے۔

یونیورسٹی کے صدر رون ڈینیئلز نے کہا کہ ’کسی کی راہ میں حائل مالی رکاوٹوں کو دور کرنے سے ایکسیلنس، اختراعات اور ایجادات کو فروغ ملتا ہے جو کہ معاشرے کے لیے فائدہ مند ہیں۔‘

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی شخص نے کسی تعلیمی ادارے کو اتنی زیادہ رقم عطیہ کی ہوں۔مائیکل بلومبرگ نے اپنے اس مادر علمی کو پہلے بھی خطیر رقم عطیات کی ہیں۔

سنہ 2018 میں ان کے مخیر ادارے بلومبرگ فلینتھراپیز نے انڈر گریجویٹ طلبا کی مالی مشکلات کو دور کرنے کے لیے ایک ارب 80 کروڑ امریکی ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔

اسی طرح اس سے قبل رواں سال نیو یارک شہر کے ایک میڈیکل کالج نے وال سٹریٹ کے ایک بڑے سرمایہ کار کی 93 سالہ بیوہ کی جانب سے ایک ارب ڈالر کے عطیہ کے بعد طلبا کی فیس معاف کرنے کا اعلان کیا تھا۔

البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن کو یہ عطیہ کالج کی سابقہ پروفیسر ڈاکٹر روتھ گوٹسمین نے دیا۔

البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن کے ڈین ڈاکٹر یارون یومر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس عطیے سے ہمیں ان طلبا کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے میں مدد ملے گی جو ہمارے مشن پر یقین رکھتے ہیں اور صرف ان کو ہی نہیں جو اس کالج کی فیس ادا کر سکتے ہیں۔

اس کالج کی سالانہ فیس تقریباً 59,000 ڈالرز (ایک کروڑ 64 لاکھ روپے) ہے جس کی وجہ سے ہر سال کئی طلبا قرضوں تلے دب جاتے ہیں۔

نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر گوٹسمین نے بتایا کہ ان کے آنجہانی شوہر نے وراثت میں ان کے لیے ’برکشائر ہیتھ وے‘ کے حصص چھوڑے تھے۔ ان کے مطابق ان کے شوہر نے انھیں کہا تھا ’آپ اس رقم کے ساتھ جو بھی صحیح سمجھیں کریں۔‘

ڈاکٹر گوٹسمین کا کہنا تھا کہ وہ آئن سٹائن کے طلبا کی مدد کرنا چاہتی تھیں تا کہ ان کو مفت ٹیوشن دی جاسکے۔ ان کا کہنا کہ انہیں فوراً احساس ہوا یہ رقم ہمیشہ ایسا کرنے کے لیے کافی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں کبھی کبھار سوچتی ہوں کہ میرے شوہر اس عطیے کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔‘ ڈاکٹر گوٹسمین کہتی ہیں کہ انھیں امید ہے کہ ان کے شوہر مسکرا رہے ہوں گے۔ ’انھوں نے مجھے ایسا کرنے کا موقع دیا، اور مجھے امید ہے کہ وہ اس پر خوش ہوں گے۔‘

اان دونوں مخیر حضرات کا عطیہ کینتھ لینگون اور ان کی اہلیہ ایلین کی جانب سے سنہ2023 میں دیے جانے والے عطیے کے بعد سب سے بڑا عطیہ ہے۔

لینگون جوڑے نے گذشتہ سال نیویارک یونیورسٹی کے لانگ آئیلینڈ میڈیکل کالج کو 20 کروڑ امریکی ڈالر کا عطیہ دیا تھا جس کی وجہ سے اس میڈیکل سکول کے تمام طلبہ و طالبات کی ٹیوشن فیس مفت ہوگئی تھی۔

سابق پروفیسر کا ایک ارب ڈالر کا عطیہ میڈیکل کالج کے طلبا کے لیے خوشی کا کیا پیغام لایا؟بیرون ملک تعلیم کے خواہشمند نوجوان سوشل میڈیا سے کیسے مدد حاصل کر سکتے ہیں؟سکالرشِپ کے لیے فارم بھرتے ہوئے کن پانچ باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟اعلیٰ تعلیم کے لیے فری سوشل میڈیا پلیٹ فارم کتنا مددگار
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More