’بھٹو نے کہا مجھے قصوری کی لاش یا اس کا تشدد زدہ جسم چاہیے‘: وہ وعدہ معاف گواہ جس نے بھٹو کی پھانسی میں اہم کردار ادا کیا

بی بی سی اردو  |  Jul 09, 2024

’اگر مجھے معافی دے دی جاتی ہے۔۔۔ تو میں اس قتل سے جڑے حقائق سے پردہ ہٹا پاؤں گا۔۔۔‘

یہ بیان پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے مقدمے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے وعدہ معاف گواہ مسعود محمود سے جڑا ہے جنھیں ملک کی سپریم کورٹ نے گذشتہ روز جاری ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کے تفصیلی تحریری فیصلے میں ’اخلاقی پستی کا شکار اور جھوٹا گواہ‘ قرار دیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’شفاف ٹرائل کے بغیر ایک معصوم شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا‘ اور یہ کہ ’ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فاٸدہ جنرل ضیا الحق کو ہوا، اگر ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کر دیا جاتا تو وہ ضیا الحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔‘

تاہم اس فیصلے میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) مسعود محمود کے بیان اور ان کے بنیادی کردار پر خاصی تفصیل سے بات کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ فیڈرل سکیورٹی فورس یعنی ایف ایس ایف ذوالفقار علی بھٹو کی ہی بنائی ہوئی پیرا ملٹری یعنی نیم عسکری فورس تھی۔

ایف ایس ایف پر الزام تھا کہ بھٹو کے مبینہ احکامات کے تحت ایف اسی فورس نے بھٹو پھانسی کیس میں مدعی اور سیاست دان احمد رضا قصوری کے قتل کی سازش کی تھی تاہم 11 نومبر 1975کو احمد رضا قصوری کی گاڑی پر مبینہ حملے کے نتیجے میں ان کے والد محمد احمد خان قصوری ہلاک ہو گئے تھے۔

اس مقدمے میں دیگر ملزمان کو بھی نامزد کیا گیا تھا جن میں سے ایک کلیدی کردار اس وقت کے ڈی جی ایف ایس ایفمسعود محمود تھے۔

مسعود محمود کو فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔ پہلے انھیں بطور ملزم نامزد کیا گیا تاہم سات ستمبر 1977 کو لاہور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ملزم مسعود محمود کی جانب سے موصول ہونے والا ایک خط اور اس کے ایک ہفتے بعد ان کا عدالت کے سامنے حلفیہ بیان پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار بھٹو کی 1979 میں پھانسی کی بنیاد بن گیا۔

اپنے بیان میں مسعود محمود نے دعویٰ کیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں احمد رضا قصوری کو ہلاک کرنے کے احکامات دیے تھے اور کہا تھا کہ ’مجھے قصوری کی لاش چاہیے یا اس کے تشدد زدہ جسم پر ہر طرف پٹیاں بندھی ہوں۔‘

مسعود محمود نے کہا تھا کہ احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خان ان کے اپنے والد کے بہترین دوست تھے۔ تاہم انھوں نے اپنے والد کے بہترین دوست کے بیٹے کو قتل کرنے کے احکامات جاری کیے حالانکہ ان کے مطابق بھٹو کو ’قصوری پر تشدد‘ بھی منظور تھا۔

مسعود محمود کو یہ خیال اچانک کیوں آیا، ان کے اپنے ہی الفاظ میں انھوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ’اس گھناؤنے جرم کے احکامات دینے کے باعث ان کے ضمیر پر بوجھ ہے۔‘

سپریم کورٹ کے فیصلے میں نوٹ کیا گیا کہ ’قید میں رہنے کے بعد ان کا کمزور ضمیر پھر سے جاگ گیا تھا۔ اس جرم کا ارتکاب تین سال پہلے ہوا تھا لیکن اس دوران ان کا ضمیر خاموش رہا، مگر گرفتار ہوتے ہی یہ جاگ گیا۔ ایک ایسا ضمیر جو پہلے اپنے لیے معافی یقینی بنانا چاہتا تھا۔ ایک ایسا ضمیر جس کے لیے کسی کو قتل کرنے کے احکامات دینا ’صرف‘ کسی اور کے ’احکامات پر عمل درآمد‘ کروانے جیسا تھا۔‘

اس خط کے لکھے جانے کے ایک ہفتے بعد مسعود محمود کی درخواست منظور ہوئی اور اسی روز ان کا بیان بھی ریکارڈ کروا لیا گیا۔

مسعود محمود تھے کون، وہ بھٹو کی جانب سے بنائی گئی پیرا ملٹری فورس کے سربراہ کیسے بنے اور سپریم کورٹ نے ان کی گواہی کے حوالے سے کیا کہا ہے، آئیے جانتے ہیں۔

Getty Imagesمسعود محمود ڈی جی ایف ایس ایف کیسے بنے؟

سپریم کورٹ نے یہاں نوٹ کیا کہ مسعود محمود کی جانب سے عدالت کے سامنے دیے گئے بیان کا اکثر حصہ غیر ضروری تھا اور اس کے پہلے چار صفحوں پر تو وہ صرف یہی بتاتے رہے کہ وہ کن عہدوں پر فائز رہے اور کیسے 21ویں سکیل تک پہنچے۔

اس بیان میں انھوں نے بتایا کہ انڈین پولیس میں ان کی تعیناتی ایک جنگ کے لیے ریزرو کی گئی سیٹ پر ہوئی کیونکہ انھوں نے کچھ عرصہ رائل انڈین ایئرفورس میں بھی کام کیا تھا اور انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد 18 ستمبر 1948 کو اسسٹنٹ سپرانٹنڈنٹ پولیس کے طور پر ذمہ داری سنبھالی۔

اس کے بعد ان کے بیان میں بتایا گیا کہ 12 اپریل 1974 کو وزیرِ اعظم بھٹو نے انھیں بلایا اور ان کی تعریف کی اور ان کے ’اچھے کام‘ کو سراہتے ہوئے ان کی ’دیانت داری، ایمانداری اور محنتی رویے‘ کا اعتراف کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایمانداری اور دیانتداری وہ خوبیاں ہیں جو آپ ایک ایسے شخص میں دیکھیں گے جو آپ کے لیے کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے کے لیے تیار ہو۔‘

مسعود محمود نے بیان میں کہا کہ انھیں بھٹو نے ایک گھنٹے تک منانے کی کوشش کی جس کے بعد انھوں نے ڈائریکٹر جنرل فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کے عہدے پر تعیناتی کے لیے حامی بھر لی اور اس دوران فورس کی ٹریننگ اور اسے منظم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔

اس کے بعد انھوں نے اپنی ’کمزوری‘ کی بابت بتایا کہ ان کے سابق ساتھی سعید احمد خان جو وزیرِاعظم کے چیف سیکیورٹی افسر رہے تھے اور ان کے اسسٹنٹ عبدالماجد باجوہ نے انھیں بتایا کہ اگر انھوں ویسا نہ کیا جیسے بھٹو نے کہا تو ’تمہاری بیوی اور بچے تمھیں دوبارہ کبھی نہ دیکھ پائیں۔‘

سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ سعید احمد خان کو اس کیس میں بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا تھا اور عبدالماجد باجوہ تب تک وفات پا چکے تھے اس لیے ان کی جانب سے ان مبینہ دعوؤں کی حیثیت سنی سنائی باتوں سے زیادہ نہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ مسعود محمود نے اس کے بعد اپنی بزدلی کی وجہ بھی بتائی اور کہا کہ بھٹو نے مجھے کہا تھا کہ ’تم بالکل بھی یہ نہیں چاہو گے کہ وقار تمھارا پیچھا کرے۔۔۔؟‘ یہاں وقار نامی شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی اور فیصلے کے مطابق وقار کو بھی بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔

قصوری کی ہلاکت کے احکامات کے حوالے سے مسعود محمود کے دعوے

اسی طرح ایک اور نام جو مسعود محمود نے بغیر کسی ثبوت کے بتایا وہ ایم آر ویلچ کا تھا جو کوئٹہ میں ڈائریکٹر ایف ایس ایف تھے جنھیں (قصوری کو) کوئٹہ میں ٹھکانے لگانے کا کہا تھا۔

مسعود محمود کا کہنا تھا کہ ’(ڈائریکٹر ایف ایس ایف) میاں محمد عباس کو اس سے پہلے حق نواز ٹوانہ (سابق ڈی جی ایف ایس ایف) کے ذریعے (بھٹو نے) احکامات دیے تھے کہ وہ احمد رضا قصوری کو ٹھکانے لگائیں۔‘

’بھٹو نے بعد میں مجھے کہا کہ ’میں میاں عباس سے کہوں کہ وہ یا تو احمد رضا قصوری کی لاش، یا اس کا تشدد زدہ جسم لائیں، جس پر ہر طرف پٹیاں بندھی ہوں۔‘

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ میاں محمد عباس نے ٹرائل کورٹ میں اپنا بیان ہی واپس لے لیا تھا اور سابق ڈی جی ایف ایس ایف حق نواز ٹوانہ کو گواہ کے طور پر پیش ہی نہیں کیا گیا۔

مسعود محمود نے یہ بھی کہا کہ بھٹو قصوری کو ایک عرصے سے ہلاک کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے پہلے ہی میاں عباس کو اس حوالے سے احکامات دے دیے تھے لیکن انھوں نے ان احکامات پر عمل نہیں کیا۔ تاہم جب مسعود محمود نے انھیں احکامات دیے تو احمد رضا قصوری پر گولی چلائی گئی جو ان کی جگہ ان کے والد کو محمد احمد خان کو لگ گئی۔

سپریم کورٹ نے لکھا کہ ’مسعود محمود نے خود کو ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا تھا جسے خدا پر ایمان تھا اور انھیں معلوم تھا کہ کسی کو ہلاک کرنے کے احکامات جاری کرنا ’خدا کے احکامات کے خلاف‘ تھا لیکن کیونکہ بھٹو نے انھیں ’مخصوص احکامات دیے تھے‘ اور پھر ان کے بیان کے مطابق ’میں خدا کے احکامات کی نفی کرنے اور ایک قیمتی انسانی جان لینے میں اہم کردار بن گیا (خدا مجھے معاف کرے)۔‘

فیصلے کے مطابق ’مسعود محمود کی جانب سے خدا کے احکامات کی نفی کرنے کی وجہ اپنا شادی شدہ ہونا بتایا گیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر میں کنوارا ہوتا تو کبھی ان احکامات پر عمل نہ کرتا اور چھوڑ کر چلا جاتا۔‘

ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کیوں سنائی گئی اور اس فیصلے کو ’عدالتی قتل‘ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟جب چین نے امریکہ سے کہا وہ بھٹو کو اپنے پاس رکھنے کو تیار ہے’قصوری صاحب آرام سے بیٹھیں آپ کو بھی سنیں گے‘ بھٹو کی پھانسی پر ریفرنس کی سماعت کا احوالذوالفقار علی بھٹو: ’مجھے داڑھی کاٹنے دیں، میں مولوی کی طرح اس دنیا سے نہیں جانا چاہتا‘مسعود محمود کی ساکھ کے بارے میں عدالت نے کیا کہا؟

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مسعود محمود کی ساکھ کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔

عدالت کے فیصلے کے مطابق ’اس وقت کی عدالتوں کی جانب سے مسعود محمود کی ساکھ پر کسی قسم کے شک و شبے کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔

’تاہم ایسے متعدد عوامل تھے جو کسی بھی عقل مند انسان کو الرٹ کرنے کے لیے کافی تھے اور یہ دکھاتے تھے کہ وہ ایک خود غرض، اپنے آپ کو بچانے والے، اخلاقی پستی کا شکار اور ایک جھوٹے گواہ تھے۔‘

عدالت کی جانب سے اس حوالے سے مندرجہ ذیل تفصیلات بتائے گئے ہیں:

مسعود محمود نے کہا کہ بھٹو نے انھیں اس لیے ڈائریکٹر ایف ایس ایف تعینات کیا کیونکہ وہ ایماندار اور دیانت دار تھے لیکن کیا ایسی خوبیوں کی بنیاد پر کسی ایسے شخص کو تعینات کیا جا سکتا ہے جس سے ایک مجرمانہ ایجنڈے پر کام کروانا مقصود ہو۔مسعود محمود نے کہا کہ ان کے والد اور ہلاک ہونے والے محمد احمد خان بہت اچھے دوست تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے والد کے بہترین دوست کے بیٹے کے قتل کے احکامات دیتے ہوئے ذرا بھی نہیں جھجھکے۔مسعود محمود کے مطابق بھٹو نے میاں محمد عباس کو پہلے ہی قصوری کے قتل کے احکامات دے دیے تھے اس لیے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس کے بعد بھی وہ مسعود محمود احکامات دیں گے۔مسعود محمود نے کہا کہ میان عباس نے قصوری کو قتل کرنے کے بھٹو کے احکامات پر عمل کرنے سے انکار کیا لیکن اس بارے میں کوئی وجہ نہیں بتائی کہ انھیں نے یہ حکم عدولی کیوں کی اور اس کے بعد انھیں نافرمانی کی کوئی سزا کیوں نہیں دی گئی۔لیکن مسعود محمود کے احکامات پر میاں عباس نے عمل کیا حالانکہ وہ اس سے پہلے وزیرِ اعظم کے احکامات کو رد کر چکے تھے۔مسعود محمود نے یہ بھی بتایا ہے کہ بھٹو کو یہ بھی منظور تھا کہ قصوری کو صرف تشدد کا نشانہ بنایا جاتا لیکن پھر بھی انھوں نے قصوری کے قتل کے احکامات دیے۔تشدد کے احکامات دینے کی بجائے صرف قتل کے احکامات دینے کے باعث مسعود محمود ہی اس حوالے سے ذمہ دار ہوں گے۔مسعود محمود نے یہ بھی بتایا کہ مندرجہ ذیل افراد بھی قصوری کی ہلاکت کی سازش میں شریک تھے۔ حق نواز ٹوانہ ایف ایس ایف کے پہلے ڈائریکٹر جنرل، میاں محمد عباس ڈائریکٹر ایف ایس ایف، ایم آر ویلچ ڈائریکٹر ایف ایس ایف کوئٹہ، سعید احمد خان وزیرِ اعظم کے چیف سکیورٹی افسر، عبدالحمید باجوہ، وزیرِ اعظم کے اسسٹنٹ سکیورٹی افسر اور وہ خود۔ ’اتنے سارے افراد کو ایک گھناؤنی سازش کے بارے میں علم ہونا بھی اس راز کے افشا ہونے کے حوالے سے لاپرواہی اور مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی نشاندہی کرتا ہے جو کسی بھی عقل مند شخص کے لیے ماننا مشکل ہو گا۔‘لیکن مسعود محمود کی یہ سازشی تھیوری کسی بھی اضافی ثبوت کے بغیر مان لی گئی۔اس قتل کے بعد بھی مسعود محمود ڈی جی ایف ایس ایف کے عہدے پر تعینات رہے لیکن کیا اس کے بعد انھیں کبھی بھٹو کی جانب سے کوئی اور گھناؤنا جرم کرنے کے احکامات نہیں دیے گئے، ’کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بھٹو کا کوئی اور دشمن نہیں تھا اور ہزاروں اہلکاروں والی اس فورس کو صرف ایک ہی مقصد کے لیے بنایا گیا تھا۔‘’مسعود محمود نے اپنی آزادی حاصل کر لی اور بھٹو کو قربان کر کے ملک سے باہر جانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ کسی بھی سمجھدار شخص کو ایسے شخص کا رویہ ضرور کھٹکے گا لیکن مسعود محمود کی ساکھ پر ان کی جانب سے سوال نہیں اٹھایا گیا تھا جن کی عدالتی ذمہ داری تھی کہ وہ خود کو اس بارے میں مطمئن کرتے۔‘

عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسعود محمود نے بارہا اپنے ضمیر کے بارے میں بات کی ہے اور کہا کہ ’ان کے ضمیر نے انھیں بہت ملامت کی‘ اور ’یہ کام (قتل) میرے ضمیر کے خلاف تھا۔ لیکن ان کا ضمیر صرف اس وقت جاگا جب انھیں کچھ دیر حراست میں گزارنے پڑے اور ان کے جاگے ہوئے ضمیر نے پہلا کام اپنے لیے معافی یقینی بنانا اور خود کو اس صورتحال سے نکالنا تھا۔ یہاں تحفظ اور سہولت ان کے ضمیر پر ایک بار پھر حاوی ہو گیا، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ سچ بول رہے تھے یا صرف ایک موقع پرست شخص تھے۔‘

عدالت کی جانب سے مسعود محمود سے متعلق بات مکمل کرتے ہوئے کہا گیا کہ انھوں نے اپنے مذہب کو ڈرامائی انداز میں اپنے بیان میں پیش تو کیا لیکن ’اسلام کے سب سے بنیادی احکام اور پابندی کو بھول گئے، یعنی کسی شخص کا قتل اور یہ کہ کسی ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور کسی ایک شخص کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔‘

سپریم کورٹ کے مطابق اس قسم کے شخص کو وفاقی عدالت نے ’اخلاقی بدبخت‘ قرار دیا ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق استغاثہ نے اپنا پورا مقدمہ مسعود محمود اور میاں محمد عباس کے بیانات کی بنیاد پر بنایا تھا لیکن میاں محمد عباس نے اپنا بیان واپس لے لیا اور اس کے برعکس بیان دیا۔ حق نواز ٹوانہ اور عبدالحمید باجوہ اس وقت تک وفات پا چکے تھے۔ ایم ار ویلچ اور سعید احمد خان کو وعدہ معاف گواہ بنائے بغیر انھیں استغاثہ کی جانب سے بطور گواہ پیش کیا گیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کیوں سنائی گئی اور اس فیصلے کو ’عدالتی قتل‘ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟جب چین نے امریکہ سے کہا وہ بھٹو کو اپنے پاس رکھنے کو تیار ہے’قصوری صاحب آرام سے بیٹھیں آپ کو بھی سنیں گے‘ بھٹو کی پھانسی پر ریفرنس کی سماعت کا احوالجب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ امریکہ وہ ہاتھی ہے جو نہ بھولتا ہے، نہ چھوڑتا ہےذوالفقار علی بھٹو کیس: وہ پانچ سوال کیا تھے جن کا سپریم کورٹ نے جواب دیا؟ذوالفقار علی بھٹو: ’مجھے داڑھی کاٹنے دیں، میں مولوی کی طرح اس دنیا سے نہیں جانا چاہتا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More