’کل مجھے اپنی ٹیم سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، اگر ملاقات ہوتی تو میں ان کے اختلافات ختم کروا دیتا۔‘
سابق وزیر اعظم عمران خان نے جمعے کے دن صحافیوں سے گفتگو میں یہ جملہ بول کر تحریک انصاف میں اختلافات کی خبروں پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی۔
واضح رہے کہ جمعرات کے دن تحریک انصاف کے متعدد رہنما اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچے تو انھوں نے میڈیا سے گفتگو میں اختلافات کی ان خبروں کی تردید کی جو گزشتہ کئی دن سے سامنے آ رہی تھیں۔
ان خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد ہی عمران خان نے چند رہنماؤں کو ملاقات کے لیے اس مقصد سے طلب کیا تھا کہ وہ ان اختلافات کو خود ہی دور کریں گے۔ تاہم ایسا نہ ہو سکا۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران کو جیل میں تقریباً ایک برس ہو چکا ہے جس کے دوران تجزیہ کاروں اور پارٹی رہنماوں کے مطابق جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ متاثر ہونے، سیاسی قیادت میں تبدیلی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مزاکرات کے سوال سمیت کئی عوامل اختلافات کی وجہ بنے ہیں۔
اس عرصے میں جہاں کئی سیاسی رہنما تحریک انصاف کو خیرباد کہہ گئے وہیں کئی اہم رہنما نو مئی کے واقعے کے بعد گرفتاریوں اور مقدمات سے بچنے کے لیے روپوش ہوئے اور ایک نئی قیادت ابھر کر سامنے آئی۔
عام انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کے بعد بہت سارے روپوش رہنما بھی منظر عام پر آ گئے جن میں خود اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان بھی شامل ہیں تاہم متعدد مقدمات میں قانونی ریلیف حاصل کرنے کے باوجود عمران خان جیل سے باہر نہ آ سکے اور اس دوران تحریک انصاف میں اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے۔
ان اختلافات کی نوعیت کیا ہے اور ان کی وجہ سے تحریک انصاف کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے تحریک انصاف کے چند رہنماؤں اور تجزیہ کاروں سے بات کی اور یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ جماعت کے اندر اختلافی آوازیں کب اور کیسے بلند ہونا شروع ہوئیں اور آیا جیل میں قید عمران خان کے لیے ان اختلافات کو دور کرنا ممکن ہو گا یا نہیں؟
تحریک انصاف میں اختلافات کب اور کیسے شروع ہوئے؟Getty Images
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت گذشتہ کئی مہینوں سے واضح تقسیم کا شکار نظر آ رہی ہے۔
ماضی میں پارٹی چھوڑ کر جانے والے فواد چوہدری حال ہی میں منظرِ عام پر آئے تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے جماعت کے اندر رسہ کشی مزید شدت اختیار کر گئی۔
تاہم یہ اختلافات نئے نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے رُکنِ قومی اسمبلی شہریار آفریدی نے گذشتہ مہینے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پارٹی کے اندر اس وقت کچھ منافق اور آستین کے سانپ موجود ہیں۔‘
ان کے اس بیان پر پی ٹی آئی کے پہلے سے ناراض رہنما شیر افضل مروت بھی پارٹی کی موجودہ قیات کے خلاف بول پڑے۔ شیر افضل مروت نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دینے کی دھمکی بھی دی تھی۔
ابھی یہ بیان بازی چل ہی رہی تھی کہ پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چوہدری ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ پارٹی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر، مرکزی ترجمان روف حسن، شبلی فراز اور وکیل رہنما حامد خان نے کبھی سیاست کی ہی نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی، پرویز الٰہی اور اسد قیصر ایسی شخصیات ہیں جو پارٹی کی قیادت کر سکتے ہیں۔ فواد چوہدری کے مطابق پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کی کمزور حکمت عملی کی وجہ سے عمران خان 13 مہینوں سے جیل میں ہیں۔
فواد چوہدری کے بیانات پر پی ٹی آئی کے موجودہ قائدین ناراض نظر آئے اور ان کی کور کمیٹی نے متفقہ طور پر یہ قرار داد پیش کی کہ فواد چوہدری سمیت پارٹی چھوڑ جانے والے تمام افراد کو پارٹی میں دوبارہ خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر نے اس دوان پی ٹی آئی کے رہنماوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پارٹی قیادت پر تنقید نہ کریں۔
اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہ: ’یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے‘، وزیرِقانون کا ردعملحکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟تحریک انصاف میں اختلافات کی وجہ کیا ہے؟
تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ عمران خان کے ایک برس سے جیل میں ہونے کی وجہ سے پارٹی کے اندر ایک حد تک مایوسی کی کیفیت ضرور پائی جاتی ہے۔
ان کے مطابق ’پہلے ہم یہ توقع کر رہے تھے کہ عمران خان جیل سے تین چار ماہ کے اندر اندر باہر آ جائیں گے مگر ایک سال ہو گیا اور رہائی ممکن نہ ہو سکی۔‘
ایک سوال کے جواب میں رؤف حسن نے کہا کہ ’عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے پارٹی کی فنکشنیلٹی ضرور متاثر ہوئی ہے۔‘
انھوں نے اختلافات کے بارے میں ایک سوال پر الزام عائد کیا کہ ’چند لوگ پارٹی کو اندر سے تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے سابق پارٹی رہنما عمران اسماعیل اور فواد چوہدری کا نام بھی لیا۔
تاہم رؤف حسن کے مطابق ’تحریک انصاف میں یہ کلچر رہا ہے کہ عمران خان ہر کسی کو ملاقات کے لیے دستیاب ہوتے تھے اور وہ سب کی بات سن کر معاملہ حل کر دیتے تھے مگر اب صورتحال ایسی نہیں رہی، جس کی وجہ سے کچھ چیلنجز نے سر اٹھایا۔‘
ان کے مطابق ’اس وقت عمران خان سے پارٹی کے بہت کم تعداد میں رہنماؤں کو ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے مگر یہ بھی تقریباً تین ماہ قبل تب ممکن ہوا جب ہم نے عدالت سے اس متعلق احکامات حاصل کیے۔‘ ان کے مطابق ایک ہفتے میں صرف چھ رہنماؤں کو ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے اور یوں پارٹی رہنماؤں کی بڑی تعداد عمران خان سے ملنے سے ہی قاصر رہتی ہے۔
ان کے مطابق ’اس وجہ سے پارٹی میں کچھ اختلافی آوازیں بھی اٹھیں کہ آخر عمران خان کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کیوں نہیں ہو رہی ہے۔‘
’اختلاف ایسے ہے جیسے کسی گھر میں بہتری کے لیے ہوتا ہے‘
دوسری جانب شہریار آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ پارٹی کے اندر اختلافات سے متعلق جس طرح لوگوں نے کہانیاں بنائی ہیں یہ درست نہیں ہیں۔ ان کے مطابق رائے کا اختلاف اپنی جگہ مگر پارٹی میں کسی قسم کی کوئی گروپنگ یا تقسیم نہیں پائی جاتی ہے۔
شہریار آفریدی نے کہا کہ ’یہ اختلاف ایسے ہی ہے جیسے کسی گھر میں بہتری کے لیے ہوتا ہے۔‘ ان کے مطابق ہم سب جمعرات کو اڈیالہ جیل کے باہر ایک دوسرے سے ملے اور خوب گپ شپ کی۔
ان کے مطابق پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں انھوں نے استعفے کی بات نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ ’یہ میری آخری تقریر ہو سکتی ہے۔‘
شہریار آفریدی کے مطابق وہ پارٹی رہنماؤں سے منظم جدوجہد کی درخواست کر رہے تھے تا کہ عمران خان کی رہائی آسان بنائی جا سکے۔ ان کے مطابق ’ہم نے تو بس یہ کہا کہ کمر کس لیں اور بس معرکے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘
شہریار کے مطابق ’یہ اختلاف رائے اس حد تک تھا کہ ہم سب رہنماؤں کو یہ باور کرا سکیں کہ ہم پارٹی کی ’ریچ آؤٹ‘ یعنی دائرہ اثر بڑھائیں اور جو لوگ ناراض ہیں انھیں بھی منائیں کیونکہ پارٹی تو مشاورت سے چلتی ہے۔‘
فواد چوہدری سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’سب لوگ ہمارے لیے قابل احترام ہیں اور کسی کی بھی پارٹی میں واپسی سے متعلق حتمی فیصلہ عمران خان ہی کریں گے۔‘
Getty Images’یہ اختلافات پارٹی کی مقبولیت کی علامت ہیں‘
سینیئر تجزیہ کار عارفہ نور نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تحریک انصاف جب برسراقتدار تھی تو بھی اس جماعت کے لیے ڈسپلن ایک مسئلہ رہا اور اس طرح کے معاملات تحریک انصاف کے اندر بہت نمایاں تھے اور ایسے اختلافات پر حکومت میں ہوتے ہوئے بھی کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔‘
ان کی رائے میں ابھی جو پارٹی میں اختلافات اور گروپنگ نظر آ رہی ہے ’یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ اب پارٹی کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔‘
عارفہ نور کے مطابق ’ابھی عمران خان اور شاہ محمود قریشی جیل میں ہیں۔ بہت سے لوگ پہلے ہی پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں اور کسی نہ کسی صورت ابھی بھی کریک ڈاؤن ہو رہے ہیں تو ایسے میں پارٹی میں اختلافات ایک فطری امر ہے۔‘
انتخابی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی کے مطابق تحریک انصاف کا پہلے بھی کوئی مضبوط تنظیمی سٹرکچر نہیں تھا۔ ’یہ جماعت پہلے دن سے لے کر آج تک عمران خان کے گرد گھوم رہی ہے۔‘
ان کے مطابق اس سے پہلے ہمارے پاس ایم کیو ایم کی مثال تھی جس جماعت کے پاس ایک مقبول شخصیت کے علاوہ ایک مضبوط تنظیمی سٹرکچر بھی موجود تھا۔ ان کے مطابق تحریک انصاف کا معاملہ مختلف ہے۔ ’جب عمران خان پر مشکل پڑی تو پھر پارٹی کا تنظیمی سٹرکچر نظر نہیں آیا اور بہت سارے لوگ پارٹی چھوڑ گئے۔‘
ایسے اختلافات سے پارٹی کو ممکنہ طور پر پہنچنے والے نقصان سے متعلق ایک سوال پر عارفہ نور نے کہا کہ ’سیاسی جماعتوں میں اس طرح کے مسئلے رہتے ہیں مگر شاید تحریک انصاف میں زیادہ مسئلے نظر آنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جماعت بہت جلد 'گرو' کی ہے یعنی پھلی پھولی ہے۔‘
ان کے مطابق تحریک انصاف کی بنیاد تو ضرور سنہ 1996 میں رکھی گئی مگر یہ جماعت سنہ 2011 تک ایک چھوٹی سی جماعت تھی۔ ’تاہم یہ سنہ 2011 کے بعد سے مقبول ہونا شروع ہوئی اور اس وقت یہ مقبول ترین جماعت ہے۔‘
ان کے مطابق ’تحریک انصاف میں کارکن کی بھی ایک جگہ ہے اور یہاں کارکن کی بھی ایک رائے ہوتی ہے جس وجہ سے اختلافات زیادہ نظر آتے ہیں مگر یہ کوئی نقصان دہ نہیں ہیں یہ تو پارٹی کی مقبولیت کی علامت ہیں۔‘
عمران خان جیل سے پارٹی کے اختلافات دور کر سکیں گے؟
اب اگر جیل سے عمران خان اپنی پارٹی میں پیدا ہونے والے اختلافات دور کرنا چاہیں تو اس کے لیے پہلی شرط تو یہی ہے کہ وہ جب جس سے ملنا چاہیں وہ ملاقات ہو جائے۔ مگر بظاہر اس کے امکانات بھی زیادہ نہیں ہیں۔
خود عمران خان نے جمعے کو صحافیوں سے جیل کے اندر کمرہ عدالت میں غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اڈیالہ جیل میں بیٹھے کرنل اور میجر سارا نظام چلا رہے ہیں۔‘ انھوں نے سے قبل یہی کچھ سپریم کورٹ میں اپنی ایک مقدمے میں پیشی کے دوران بھی کہا۔
عمران خان نے صحافیوں کو بتایا کہ ’میری ٹیم کل (جمعرات کو) مجھ سے ملاقات کے لیے آئی تھی مگر تین گھنٹے تک وہ اڈیالہ جیل کے باہر رہی اور میں اندر ان کا انتظار کرتا رہا۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’کل مجھے اپنی ٹیم سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی اگر ملاقات ہوتی تو میں ان کے اختلافات ختم کروا دیتا۔‘
واضح رہے کہ جمعرات کو عمران خان سے ملاقات کے لیے جانے والے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو انتظامیہ نے جیل کے اندر سابق وزیراعظم سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی جن میں عمر ایوب، شاندانہ گلزار، شبلی فراز، رؤف حسن، فردوس شمیم نقوی، شہریار آفریدی سمیت دیگر رہنما شامل تھے۔
عارفہ نور کا ماننا ہے کہ عمران خان پارٹی کے اندر اختلافات دور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ اب عمران خان بہت مقبول ہیں۔‘
عارفہ نور کے مطابق ’شیر افضل مروت بہت مشہور ہو گئے تھے مگر جب عمران خان نے انھیں کنارہ کش کیا تو پھر وہ حقیت میں کنارے پر چلے گئے۔‘
ان کے مطابق ’عمران خان پر اب ان اختلافات کو دور کرانے سے متعلق کسی کا کوئی دباؤ نہیں ہو گا۔ ہاں البتہ ان پر کارکن کی رائے کا دباؤ ضرور ہو گا باقی جو بھی وہ فیصلہ کریں گے خود کریں گے۔‘
دوسری جانب ماجد نظامی کے خیال میں عمران خان کے لیے پارٹی کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو دور کرانا آسان نہیں ہوگا۔
’ان کی مجبوری ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں تا کہ پارٹی میں دراڑ کا تاثر نہ رہے۔‘
تاہم ان کے مطابق ’عمران خان کو یہ اختلافات دور کرنے کی ایسی بڑی فکر بھی نہیں ہے کیونکہ آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مقبولیت صرف عمران خان کی ہی ہے۔‘
اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہ: ’یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے‘، وزیرِقانون کا ردعملوزیر اعظم کی تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت: حکومت اور پی ٹی آئی میں بات چیت کی راہ کیسے نکل سکتی ہے؟’خاموش۔۔ کی بورڈ لے کر آئیں، عمران خان بنام سرکار اپیل ریجیکٹڈ‘’عمران خان کے خلاف نئے مقدمات کا عندیہ‘: حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟