’مستحکم مارکیٹ یا وژن 2030‘: سعودی عرب لاطینی امریکہ کے ممالک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 05, 2024

Getty Imagesسعودی عرب کی سرکاری آئل کمپنی آرامکو نے چلّی میں ایک بڑی تیل فراہم کرنے والی کمپنی بھی خریدی ہے

لاطینی امریکا اور کیریبین ممالک میں ایک نئی طاقت سر اُٹھا رہی ہے جس کا نام ہے سعودی عرب۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے’وژن 2030‘ کے اعلان کے بعد سعودی شاہی خاندان کی اس خطے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے اور سعودی عرب نے دنیا کو یہاں اپنی اقتصادی اور سفارتی موجودگی کا بھی احساس دلایا ہے۔

سنہ 2019 میں سعودی عرب کی لاطینی امریکہ کے لیے برآمدات کا کُل حجم 2 ارب 803 کروڑ ڈالر تھا جو 2023 میں بڑھ کر 4 ارب 581 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔

اسی طرح لاطینی امریکہ سے سعودی عرب کے لیے درآمدات کا کُل حجم 2019 میں 3 ارب 811 کروڑ ڈالر تھا جو گذشتہ برس بڑھ کر 4 ارب 993 کروڑ تک پہنچ گیا تھا۔

سعودی عرب اور لاطینی امریکہ کے درمیان بڑھتی تجارت کے علاوہ ریاض کی جانب سے اس خطے میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی جا رہی ہے۔

سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس کا شمار دنیا کو تیل فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ تیل کی مدد سے کمائی جانے والی دولت کا کچھ حصہ اب سعودی عرب، لاطینی امریکہ اور کیریبین ممالک میں بھی لگا رہا ہے۔

گیانا نے گذشتہ برس نومبر میں اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب نے آئندہ برسوں میں کیریبین ممالک میں ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب کی سرکاری آئل کمپنی آرامکو نے چلّی میں ملک کی ایک بڑی تیل فراہم کرنے والی کمپنی بھی خریدی ہے اور وہ وہاں اپنے کاروبار کو وسعت دینے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔

برازیل میں مڈل ایسٹ سٹڈیز اینڈ ریسرچ گروپ نامی تھنک ٹینک سے منسلک محقق نجد خوری نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تمام اقدامات اچھے تعلقات کی طرف پہلا قدم ہیں۔‘

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی عرب، لاطینی امریکہ اور کریبین ممالک کے درمیان تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں۔

سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد الفالح نے اگست 2023 میں اس خطے میں سات ممالک کا دورہ کیا تھا اور اس دوران انھوں نے کہا تھا کہ وہ ’یہاں سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈنے آئے ہیں اور سرمایہ کاری پر مبنی شراکت داری کو مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں۔‘

سعودی عرب کا ’وژن 2030‘

جب سنہ 2015 میں شاہ سلمان نے سعودی عرب میں بادشاہت سنبھالی تو انھوں نے اپنے ساتویں بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد کے منصب پر فائز کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

محمد بن سلمان اس وقت صرف 32 برس کے تھے لیکن وہ اپنے تمام بھائیوں کے مقابلے میں اپنے والد شاہ سلمان سے زیادہ قریب تھے۔

واشنگٹن میں عرب گلف سٹڈیز انسٹٹیوٹ سے منسلک تجزیہ کار ٹم کیلن کہتے ہیں کہ محمد بن سلمان ’ایک بڑے منصوبے کے ساتھ سامنے آئے جس کا مقصد معیشت کو تنوع بخشنا، تیل پر انحصار کم کرنا اور تنگ نظر سعودی معاشرے کو بدلنا تھا۔‘

Getty Imagesسنہ 2019 میں سعودی عرب کی لاطینی امریکہ کے لیے برآمدات کا کُل حجم 2 ارب 803 کروڑ تھا

اقتصادی طور پر اس منصوبے کا مرکزی مقصد دنیا کو کاربن کے اخراج سے محفوظ رکھنا اور نوجوانوں کے لیے نئی ملازمتیں پیدا کرنا تھا۔

ٹم کیلن کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب کے تیل کی آمدنی پر انحصار کو ختم ہونے میں دہائیاں لگیں گی کیونکہ وہ بہت ہی کم قیمت میں بہت سارا تیل پیدا کر سکتے ہیں لیکن انھیں اندرونی توانائی کی ضروریات پوری کرنی ہیں جس کے سبب وہ تیل کے متبادل کی تلاش میں ہیں جس سے قابلِ تجدید توانائی پیدا کی جا سکے۔‘

وژن 2030 کو پورا کرنے کے لیے ’سعودی ساورن ویلتھ فنڈ‘ کا استعمال کیا جا رہا ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق 1 کھرب ڈالر سے زائد موجود ہیں۔

’سعودی ساورن ویلتھ فنڈ‘ کے ’فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو‘ کے تحت متعدد اجلاس اور کانفرنسز منعقد کی جا رہی ہیں جس کا مقصد لاطینی امریکہ اور کیریبین ممالک میں کاروبار اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے دو اجلاس برازیل کے شہر ریو دے جینیرو اور امریکی شہر میامی میں منعقد کیے گئے تھے۔

وژن 2030 کا ایک مقصد سعودی معاشرے میں تبدیلی لانا اور اسے باہر کی دنیا کے لیے کھولنا بھی ہے۔ اس حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے سعودی عرب نے سنہ 2019 میں سیاحوں کو ان مقامات پر بھی جانے کی اجازت دی تھی جہاں جانے پر پہلے مذہبی وجوہات کے سبب پابندی تھی۔

سعودی عرب نے اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے خواتین کو بھی گاڑی چلانے کی اجازت دی۔ ماضی میں سعودی معاشرے میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی۔

سعودی عرب لاطینی امریکہ اور کیریبین ممالک میں دلچسپی کیوں لے رہا ہے؟

محقق نجد خوری کے مطابق ’سعودی عرب لاطینی امریکہ اور کیریبین میں سرمایہ کاری کرنے میں اس لیے دلچپسی لے رہا ہے کیونکہ وہاں مستحکم ممالک ہیں اور جنگیں بھی نہیں ہو رہیں۔‘

’لاطینی امریکہ اور کریبین ممالک کو سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور سعودی عرب کے پاس سرمایہ کاری کرنے کے لیے بہت ساری دولت موجود ہے۔‘

اس خطے میں لیتھیم، نکل اور تانبے جیسی چیزیں موجود ہیں جو صحرائی عرب ملک میں ناپید ہیں اور مسقبل میں ان تمام چیزوں کی تعزویراتی اہمیت میں بھی اضافہ ہوگا۔

یہ وہ چیزیں ہیں جو دنیا سے تیل کے ذخائر ختم ہونے کے بعد دنیا کی معیشت کے لیے اہم ہوں گی اور یہ سب جنوبی امریکہ میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔

سعودی عرب کی معیشت کو تیل سے جُدا کرنا مشکل ہو گا لیکن ریاض نے ابھی سے برقی توانائی کی طرف جانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔

Getty Imagesاس خطے میں لیتھیم، نکل اور تانبے جیسی چیزیں موجود ہیں جو صحرائی عرب ملک میں نا پید ہیں

سعودی عرب نے حال ہی میں ایک بڑی کار بنانے والی کمپنی ’سیر‘ کی بنیاد رکھی تھی اور توقع کی جا رہی ہے کہ انھیں الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے لیے جنوبی امریکہ کے معدنی وسائل کی بھی ضرورت پڑے گی۔

دورِ حاضر میں بھی لاطینی امریکہ بڑے پیمانے پر سعودی عرب کو فوڈ اور ذرعی مصنوعات فراہم کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ صحرائی ممالک میں کھیتی باڑی کرنا ایک مہنگا کام ہے جس پر کافی پیسہ خرچ ہوتا ہے۔

لاطینی امریکہ ایک ایسے خطے میں ہے جہاں تازہ پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔

سعودی عرب کی لاطینی امریکہ اور کیریبین ممالک سے تعلقات بڑھانے کی صرف اقتصادی وجوہات نہیں۔

لاطینی امریکہ اور کیریبین ممالک میں قائم زیادہ تر حکومتیں نام نہاد مغربی بلاک کا حصہ نہیں اور سعودی عرب کو امید ہو گی کہ اسے انسانی حقوق کی مبینہ پامالی پر ان ممالک کی طرف سے تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، نہ ہی اس سبب اس کے کاروبادی مفادات متاثر ہوں گے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مغربی تنظیموں کی جانب سے برسوں سے سعودی عرب پر تنقید کی جا رہیہے۔ خصوصاً خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے سعودی عرب پر جنسی امتیاز برتنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

سنہ 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا تھا اور اس قتل کا براہ راست الزام سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر عائد کیا گیا تھا۔

اس قتل کے سبب سعودی عرب اور اس کی حکومت کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچا تھا، اس کے بعد سے ہی سعودی حکومت تجارتی اور سفارتی کوششوں کے ذریعے اپنی ساکھ بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

لاطینی امریکی اور کریبین ممالک اقوامِ متحدہ اور دیگر بڑے اداروں میں بھی اچھے خاصے ووٹ رکھتے ہیں اور سعودی عرب ان کی حمایت حاصل کر کے اپنا بین الاقوامی چہرہ بہتر کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیےسعودی عرب کو پاکستان جیسی کمزور معیشت میں سرمایہ کاری سے کیا فائدہ حاصل ہو گا؟لاطینی امریکہ کے کسی ملک کے پاس جوہری ہتھیار کیوں نہیں؟Getty Imagesلاطینی امریکہ میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں فُٹ بال کا کھیل مرکزی مقام رکھتا ہے

حال ہی میں سعودی عرب نے ورلڈ ایکسپو 2030 کے ایونٹ کی میزبانی حاصل کی ہے۔ متعدد کریبین ممالک نے اس ایونٹ کی میزبانی حاصل کرنے میں اٹلی اور جنوبی کوریا کے مقابلے میں سعودی عرب کی مدد اپنے ووٹوں کے ذریعے کی تھی۔

ٹم کیلن کہتے ہیں کہ ’ولی عہد محمد بن سلمان کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ گلوبل ساؤتھ میں ایک مرکزی اور اہم کردار حاصل کر لیں۔‘

لاطینی امریکہ میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں فُٹ بال کا کھیل مرکزی مقام رکھتا ہے۔ سعودی عرب نے حال ہی میں اپنی فُٹ بال لیگ پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں اور وہ بڑے فُٹ بالرز بشمول کرسٹیانو رونالڈو اور نیمار جونیئر کو سعودی فُٹ بال کلبز میں شامل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

سعودی عرب اور برازیل کے تعلقات

سعودی عرب اور لاطینی امریکہ کے ممالک درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا راستہ برازیل سے ہوتے ہوئے گزرتا ہے۔ دونوں ممالک اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری نے اپنے حالیہ دورہ برازیل میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب برازیل میں اور برازیل سعودی عرب میں بڑی سرمایہ کاری کرے۔ انھوں نے کہا تھا اس کا مقصد ’گلوبل ساؤتھ میں تبدیلی لانا اور مشترکہ اقدار کو فروغ دینا ہے۔‘

برازیل کے صدر لوئیز لولا ڈی سلوا سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھا آئیڈیا ہے۔ اپنے حالیہ دورہ ریاض کے موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم صرف اس بات میں دلچپسی نہیں رکھتے کہ سعودی عرب برازیل میں کتنی سرمایہ کاری کرسکتا ہے بلکہ ہمیں اس بات میں بھی دلچسپی ہے کہ برازیل کے کاروباری حضرات سعودی عرب میں کتبی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔‘

سعودی عرب اور برازیل کے درمیان تعلقات حالیہ دور میں تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔ برازیل نے بطور مشاہدہ کار سعودی عرب کی دعوت پر ’آرگنائزیشن آف دا پیٹرولیم ایکپسورٹنگ کنٹریز‘ میں بھی شمولیت اختیار کی۔

دوسری جانب برازیل نے سعودی عرب کو برکس میں شامل کروایا ہے۔ برکس نامی تنظیم برازیل نے چین، انڈیا، مصر، جنوبی افریقہ، ایتھوپیا، متحدہ عرب امارات اور ایران کے ساتھ مل کر قائم کی تھی۔

عرب برازیلین چیمبر آف کامرس کے نائب صدر محمد نوراد کہتے ہیں کہ ’یہ تعلقات سیاسی سے زیادہ کاروباری ہیں اور ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ اس کے سبب دونوں ممالک کے لیے بہت سارے کاروباری اور اقتصادی مواقع پیدا ہوں گے۔‘

اگر تجارت کی بات کی جائے تو برازیل سعودی عرب کو حلال فوڈ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ برازیل سعودی عرب کو چینی، کارن اور حلال گوشت بھی ایکسپورٹ کرتا ہے۔

محمد نوراد کہتے ہیں کہ ’برازیل قابلِ تجدید توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ بات بھی سعودی عرب کی دلچسپی کی وجہ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کے میدان میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو بڑھانے کی بہت گنجائش موجود ہے۔

دوسری جانب نجد خوری کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب، لاطینی امریکہ اور کریبین ممالک کے درمیان تعلقات کی ابھی ابتدا ہوئی ہے اور ان تعلقات کے سبب یہاں کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان تعلقات کے بیچ میں کچھ ’رکاوٹیں‘ بھی آئیں گی کیونکہ دونوں خطوں کے کلچر اور جغرافیہ مختلف ہیں۔

سعودی عرب کا قدیم خانہ بدوش بدو گروہ سے ملک بننے تک کا سفرنیوم: سعودی شہر کی زمین کے لیے سعودی اہلکاروں کو شہریوں کے’قتل تک کی اجازت‘ دی گئیشاہ عبدالعزیز کے بیٹے کے ہاتھوں سفارتکار کے قتل کے بعد شراب پر لگائی گئی پابندی سعودی حکام اب کیوں ختم کرنے جا رہے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More