’تنظیم کمزور ضرور ہوئی لیکن ختم نہیں‘: نام نہاد دولتِ اسلامیہ قیام کے دس برس بعد آج کہاں کھڑی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 29, 2024

Reutersدولتِ اسلامیہ خراسان افغانستان اور جنوب مغربی پاکستان میں موجود ہے

دس سال پہلے شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے بانی ابوبکر البغدادی نے عراق کے شہر موصل میں واقع نوری مسجد سے اعلان کیا تھا کہ ان کا گروہ شام اور عراق میں ’خلافت‘ نافذ کر رہا ہے۔

نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے اس وقت شام اور عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور سخت اسلامی قوانین بھی نافذ کر دیے تھے، جس میں سخت سزائیں اور قتل بھی شامل تھے۔ اب بکر البغدادی کے گروہ کی جانب سے سے ان سزاؤں کی ویڈیوز بھی انٹرنیٹ پر ڈالی جاتی تھیں۔

اگلے پانچ برس تک نام نہاد دولت اسلامیہ نے دنیا بھر سے ہزاروں جہادیوں کو اپنی طرف مائل کیا اور وعدہ کیا کہ وہ ایک اسلامی خلافت نافذ کریں گے۔

لیکن حقیقت میں اس خلافت کے دوران لوگوں کی زندگیاں شدید تشدد کے گرد گھومتی رہیں: جسم جدا سروں کو چوکوں پر لٹکایا جاتا تھا، لوگوں کو سڑکوں پر گشت کرنے والی ’اخلاقی پولیس‘ کی جانب سے ہراساں کیا جاتا تھا اور امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے زیرِ اثر علاقوں میں بمباری کیا کرتی تھیں۔

70 ممالک پر مشتمل اس اتحاد نے آخر کار سنہ 2019 میں نام نہاد دولت اسلامیہ کو شام کے مشرقی علاقے باغوز سے بھی باہر نکال دیا۔ اب ظاہری خلافت ختم ہو چکی تھی لیکن وہ نظریات آج بھی اپنی جگہ برقرار ہیں۔

تو پھر اب نام نہاد دولتِ اسلامیہ بطور گروہ کہاں کھڑی ہے؟

Getty Imagesاس گروہ کی کمزور مرکزی قیادت اب بھی شام میں مقیم ہےدولتِ اسلامیہ کمزور ضرور ہوئی لیکن ختم نہیں

لندن میں موجود ایک سینیئر سکیورٹی افسر نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ گروہ ’کمزور ضرور ہوا لیکن بالکل ختم نہیں ہوا۔‘

اس گروہ کی کمزور مرکزی قیادت اب بھی شام میں مقیم ہے لیکن انھوں نے اپنی تنظیم کو کئی براعظموں تک پھیلا دیا ہے۔

نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے نام پر کئی حملے افریقہ میں کیے گئے ہیں۔ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی اس کا وجود ہے اور اس کی سب سے خطرناک ذیلی تنظیم دولتِ اسلامیہ خراسان نے رواں سال ماسکو اور ایران کے علاقے کرمان میں بھی حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔

دولتِ اسلامیہ خراسان افغانستان اور جنوب مغربی پاکستان میں موجود ہے، جہاں سے وہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔

یہ شاید سننے میں عجیب سا لگے کیونکہ طالبان کی جانب سے بھی افغانستان میں سخت شرعی نظام نافذ کیا گیا ہے، جس کے تحت خواتین کے ملازمت کرنے اور تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے اور ان کی جانب سے پتھر مار کر لوگوں کو ہلاک کرنے جیسی سخت سزائیں بھی دوبارہ متعارف کروا دی گئی ہیں۔

اس کے باوجود بھی طالبان اور نام نہاد دولتِ اسلامیہ ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں۔ طالبان نے تقریباً 20 برس تک جنگ لڑی اور اب انھیں اس کھیل میں ایک نئے کھلاڑی کا سامنا ہے۔

جب نام نہاد دولت اسلامیہ کے کنٹرول میں شام اور عراق کے علاقے تھے اس وقت یہ گروہ نئے لوگوں کو بھرتی کیا کرتا تھا جو ہوائی جہازوں کے ذریعے پہلے ترکی آتے تھے اور بعد میں انھیں بسوں کے ذریعے شام میں سمگل کر دیا جاتا تھا۔

بھرتی کیے جانے والے لوگوں کی اکثریت عسکری تربیت سے نابلد تھی یا پھر انھیں حقیقتاً اندازہ ہی نہیں تھا کہ خانہ جنگی کی وجہ سے شام میں انھیں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان افراد میں سے زیادہ تر وہ لوگ تھے جو منشیات کے عادی تھے یا پھر اپنے ملک میں چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث تھے۔ ان لوگوں میں مغربی لندن سے تعلق رکھنے والے چار مرد بھی شامل تھے جنھیں لوگ ’دا بیٹلز‘ کے نام سے جانتے ہیں اور انہی لوگوں نے مغربی امدادی کارکنان اور صحافیوں پر تشدد بھی کیا تھا۔

آج ان میں سے ایک مر چکا ہے اور باقی تین جیل میں قید ہیں۔ ان میں سے دو افراد امریکہ میں خطرناک مجرموں کے لیے بنائی گئی جیل میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔

لیکن نام نہاد دولتِ اسلامیہ آج بھی انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو حملے کرنے پر اُکسا رہی ہے۔ اس وقت اس گروہ کی جانب سے اسرائیل کے غزہ پر نو ماہ سے جاری حملوں اور شمالی شام میں خواتین اور بچوں کو قید کیے جانے کا بدلہ لینے کی اپیل کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے’دولت اسلامیہ کے تین مردوں نے میرا ریپ کیا‘’اندھی محبت مجھے شام لے گئی‘: دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ساتھ جانے والی خواتین جو اپنا ماضی بھلانا چاہتی ہیں’میرا شوہر مجرم تھا‘: دولتِ اسلامیہ کے سابق سربراہ ابوبکر البغدادی کی کہانی ان کی اہلیہ کی زبانیدولتِ اسلامیہ کی افریقہ پر توجہ

القاعدہ بھی کمزرو ہو گئی لیکن اس کا پوری طرح خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ نام نہاد دولتِ اسلامیہ بھی زندہ رہنے کے لیے عدم استحکام، لوگوں میں پھیلی ہوئی مایوسی اور حکمرانوں کی خراب گورننس کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے۔

افریقہ کے کچھ حصوں میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کو یہ تمام مواقع میسر ہیں۔ حالیہ برسوں میں مالی، نگر اور برکینا فاسو میں فوجی حکومتیں آئی ہیں جس کے سبب ان ممالک میں عدم استحکام پھیلا۔

فرانسیسی، امریکی اور یورپی یونین کے فوجی ان علاقوں میں جہادیوں کے خطرے کو کم کرنے کی کوششیں کر رہے تھے لیکن انھیں بھی روسی کرائے کے فوجیوں نے یا تو باہر دھکیل دیا یا پھر ان کی جگہ لے لی۔

اس وقت نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی پانچ ذیلی تنظیمیں افریقہ میں کام کر رہی ہیں۔ اس تنظیم کی جانب سے ذیلی تنظیموں کو’صوبوں‘ کا نام دیا گیا ہے جو مغربی افریقہ، چاڈ، کانگو اور شمالی موزمبیق میں موجود ہیں۔

Reutersاس وقت نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی پانچ ذیلی تنظیمیں افریقہ میں کام کر رہی ہیں

لیکن یہاں بھی نام نہاد دولتِ اسلامیہ کا براہ راست مقابلہ القاعدہ سے ہے۔ نام نہاد دولتِ اسلامیہ اکثر ان ممالک میں اپنے آپریشنز کے بارے میں اور نئے علاقوں پر کنٹرول بڑھانے کے حوالے سے بات کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ظاہری طور پر اکثر یہ تنظیم ان ممالک میں قائم حکومتوں سے زیادہ متحرک نظر آتی ہے، دور دراز علاقوں میں خوفناک حملے کرتی ہے جس میں نہ صرف فوجی اہلکار مارے جاتے ہیں بلکہ دیہات میں رہنے والے شہری بھی ہلاک ہوتے ہیں۔

لیکن افریقہ میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ اس طرح سے بین الاقوامی جہادیوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جیسا 10 سال قبل شام میں ہوا تھا۔ اسے اس طرح سے جہادی رضاکار میسر نہیں جیسے ماضی میں ترکی اور شام کی سرحد کے ذریعے یا پھر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے مل جایا کرتے تھے۔

لیکن نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی ذیلی تنظیموں کو افریقہ میں اب بھی نئے نوجوان مقامی افراد مل جاتے ہیں جنھیں کہیں اور مواقع نہیں مل پاتے۔

یہ چھوٹے مگر انتہائی پُرتشدد تنازعات یورپ سے ہزاروں میل دور ہیں لیکن اس جہادی خطرے کے پیشِ نظر محفوظ زندگی گزارنے کے لیے افریقہ سے پناہ گزین یورپ ضرور منتقل ہونے کی کوشش کریں گے۔

یورپ اب بھی نام نہاد دولتِ اسلامیہ کا ہدف ہے؟

2010 کی دہائی کے وسط میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ اپنی طاقت کے عروج پر تھی اور اس کی جانب سے یورپ میں خوفناک حملے بھی کیے گئے تھے۔ سنہ 2015 میں اس گروہ نے پیرس میں واقع ایک کانسرٹ ہال پر حملہ کیا تھا جس میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

قاتلوں کو شام میں تربیت دی گئی تھی اور وہ متعدد ممالک کی سرحدیں عبور کر کے یورپ پہنچے تھے جہاں انھیں خودکار ہتھیار جیسے کہ کلاشنکوف حاصل کرنے میں بھی زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

یورپی شہروں میں ایسے حملوں کے بعد پولیس اور سکیورٹی اداروں میں انٹیلیجنس شیئر کرنے کے نظام میں بہتری آئی۔

برطانوی حکام کا ماننا ہے کہ اس وجہ سے القاعدہ اور نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کے لیے سنہ 2005 کے لندن بم حملوں یا 2015 میں پیرس کے کانسرٹ ہال جیسی کارروائیاں کرنا مشکل ضرور ہو گیا لیکن ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں۔

Reutersسنہ 2015 میں اس گروہ نے پیرس میں واقع ایک کانسرٹ ہال پر حملہ کیا تھا جس میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے

اب ان حکام کو اکیلے کارروائیاں کرنے والے جہادیوں کی زیادہ فکر ہے: وہ انتہا پسند جو انٹرنیٹ پر موجود جہادی پروپگینڈے کے اثر میں آ جاتے ہیں اور حملے کرتے ہیں۔

برطانیہ میں ایم آئی فائیو کی جانب سے کیے جانے والے آپریشنز سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ اب بھی القاعدہ اور نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔

یورپ اب بھی ان تنظیموں کی توجہ کا مرکز ہے۔ رواں سال مارچ میں ماسکو کے کروکس سٹی ہال میں ہونے والے حملے میں 140 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ اپنے دشمنوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے اب بھی موقع کی تلاش میں ہے۔

دولتِ اسلامیہ کی قیادت کو درپیش مشکلات

نام نہاد دولتِ اسلامیہ کا میڈیا پروپگنڈا اب اتنا متاثر کُن نہیں رہا جیسا کہ شام اور عراق کے علاقوں میں قائم خلافت کے دوران ہوا کرتا تھا لیکن اب بھی یہ تنظیم نفرت پھیلانے، بدلے کی آگ کو ہوا دینے اور اپنے پروپیگنڈا کو پھیلانے کے لیے تربیت یافتہ گرافک اور ویب ڈیزائنرز کو بھرتی کر رہی ہے۔

ایک حالیہ ویڈیو میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی جانب سے آرٹیفشل انٹیلیجنس کی مدد سے ایک عربی بولنے والا کردار بنایا گیا تھا جو اپنا پیغام لوگوں کو دے رہا تھا۔

نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے رہنما اپنی شناخت کو چھپانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور ایسا 2019 میں ابوبکر البغدادی کی موت کے بعد سے ہو رہا ہے۔

ماضی کے برعکس اب اس گروہ کے پاس کوئی اسی سحر انگیز شخصیت موجود نہیں جو انٹرنیٹ پر اپنے گروہ کا پیغام پھیلا سکے۔ ماضی میں القاعدہ کے پاس اسامہ بن لادن کی شکل میں ایسی شخصیت موجود تھی۔

کسی ایسی شخصیت کی غیرموجودگی میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی قیادت اپنی اہمیت کھو رہی ہے اور اپنے پیروکاروں سے دور کھڑی نظر آتی ہے۔

جہادی رہنماؤں کی زندگیاں زیادہ لمبی نہیں ہوتیں۔ ایک مرتبہ جب وہ منظرِ عام پر آ جاتے ہیں تو انھیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان کے ٹھکانوں کا علم ہوجائے گا۔ ایسا کبھی برقی آلات سے جاسوسی کے ذریعے ہوتا ہے یا پھر کوئی مخبر ان کے ٹھکانوں کا پتا لگا لیتا ہے۔

اس وقت نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے موجودہ سربراہ کے حوالے سے کسی کے پاس کوئی معلومات موجود نہیں۔

حجام سے شدت پسند بننے کا سفر: تاجک شہری دولت اسلامیہ کے لیے آسان ہدف کیوں ہیں؟دولت اسلامیہ کی دلہن بننے والی خاتون کی امریکہ واپس لوٹنے کی درخواست مسترددولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کی بیویاں، بچے: ’ایسا المیہ جس کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More