ایک ہی مریض پر ریاست اور کتنے آپریشن کرے گی؟

بی بی سی اردو  |  Jun 27, 2024

Getty Images

امریکہ نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کو ’ہوم لینڈ سکیورٹی‘ نامی سپر ادارے کی چھتری فراہم کی۔

اسی تصور کی نقل میں پاکستان میں بھی 2013 کے ایکٹ کے تحت نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) قائم ہوئی تاکہ بروقت انٹیلی جینس شیرنگ اور مربوط رابطہ کاری کے ذریعے نیکٹا کے سائے تلے دہشت گردی اور انتہاپسندی سے یکساں انداز میں نمٹنے کے لیے متعلقہ اداروں کو ایک مکے کی شکل دی جا سکے۔

16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور کے قتلِ عام کے بعد وزارتِ داخلہ اور نیکٹا کے تعاون سے تمام سرکردہ سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ایک 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا۔

مگر گذشتہ ایک دہائی میں ہم نے اعلی فوجی و سویلین حکام پر مشتمل وفاقی و صوبائی بااختیار ایپکس کمیٹیوں، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی اور پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کا نام تو بارہا سنا مگر نیکٹا کا نام عام پاکستانی کی یادداشت کا حصہ نہ بن سکا۔

جنوری 2017 میں خبر آئی کہ ’گیم چینجر‘ سی پیک کے منصوبوں اور اس پر کام کرنے والے چینی کارکنوں کے تحفظ کے لیے آرمی کی نو بٹالینز اور چھ سویلین ونگز کو یکجا کر کے لگ بھگ 14 ہزار نفری پر مشتمل ایک سپیشل سکیورٹی ڈویژن تشکیل دیا گیا ہے (تب سے اب تک درجنوں چینی کارکن ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں)۔

ستمبر 2011 میں خبر آئی کہ نیکٹا کی چھتری کو ناکافی سمجھتے ہوئے وزارتِ داخلہ میں ایک بریگیڈئیر کی سربراہی میں دوبارہ نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل زندہ کر دیا گیا جسے مشرف دور کے بعد نیکٹا میں ضم کر دیا گیا تھا۔

آئی ایس آئی، آئی بی اور ایف آئی اے پر مشتمل ایک نیشنل انٹیلی جینس کوآرڈنیشن کمیٹی الگ سے موجود ہے۔ جبکہ ایک اعلیٰ سطحی نیشنل سکیورٹی کمیٹی بھی موجود ہے مگر اس میں پولیس، آئی بی، ایف آئی اے حتیٰ کہ نیکٹا کی الگ سے نمائندگی نہیں۔

Getty Imagesامریکہ نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کو ’ہوم لینڈ سکیورٹی‘ نامی سپر ادارے کی چھتری فراہم کی

مئی 2022 میں وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگ زیب نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ نیکٹا کا پچھلے چار برس میں کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ حکومت اب اسے دوبارہ فعال بنانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹا جا سکے۔

پھر اطلاعات آنی شروع ہوئیں کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ نے ’اچھے پاکستانی طالبان‘ کو ’اچھے کردار‘ کی یقین دہانی کی شرط پر آبائی علاقوں میں واپسی کی اجازت دے دی ہے۔ ان اطلاعات کے بعد وزیرستان اور سوات میں مقامی لوگوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔ چنانچہ یہ مبینہ کوشش ترک کر دی گئی۔

آج تک کسی جانب سے وضاحت نہیں آئی کہ یہ منصوبہ کس کے ذہن کی اختراع تھی اور کس نے اس کی منظوری دی۔ حالانکہ سابق پارلیمنٹ ایک قرار داد بھی منظور کر چکی تھی کہ آئندہ دہشت گردوں سے کوئی بات چیت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں ہو گی۔

جہاں تک 10 برس پہلے منظور ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کا معاملہ ہے تو اس پر پورا چھوڑچوتھائی عمل بھی نہ ہو سکا۔ حالانکہ اسے دو برس پہلے اپ ڈیٹ بھی کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کی عملی اہمیت بس اتنی ہی رہ گئی ہے جتنا کہ قائدِ اعظم کے فرمودات کا عملی احترام۔

اس پورے عرصے میں بیشتر توجہ مبینہ دہشت گردوں کو مارنے، پکڑنے یا سرحد پار دھکیلنے پر مرکوز رہی۔ خود ملک کے اندر جن لاؤڈ سپیکرز، جلسوں، لٹریچر اور تقاریر کے ذریعے انتہاپسندی کا زہر پھیلایا جا رہا ہے، اس کے ذمہ دار آج بھی اتنے ہی دلیر ہیں جتنے نیشنل ایکشن پلان سے پہلے تھے۔

نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم حصہ متبادل بیانیے کی تشکیل کے لیے تعلیمی نصاب سے انتہاپسندی کا زہر نکال کے امن اور بھائی چارے کی آفاقی اقدار کو بچوں کے ذہن میں بٹھانا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ان اساتذہ کی بھی چھانٹی ہو جو نصاب کو بالائے طاق رکھ کے بچوں کی رگوں میں تنگ نظری اور شدت پسندی کا زہر اتار رہے ہیں۔

گذشتہ برس یہ خبر بھی آئی تھی کہ وفاقی سکولوں کی سطح پر پہلی سے پانچویں جماعت کے غیر مسلم بچوں کو ان کی اپنی مذہبی اقدار پڑھانے کے نصاب کی منظوری دے دی گئی ہے۔ مگر یہ سب اطلاعات محض خبروں تک ہی محدود ہو کے رہ گئیں۔

یہ بھی پڑھیےوسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: ’بائیس کروڑ میں سے صرف بائیس پاکستانی چاہیں‘وسعت اللہ خان کا کالم ’بات سے بات‘: کیا آملیٹ کو دوبارہ انڈہ بنایا جا سکتا ہے؟وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: جان محمد اکیلا تو نہیں ہےAFP

جن تنظیموں کو مشرف دور سے کالعدم فہرست میں ڈالا جاتا رہا ان میں سے اکثر کئی کئی نام بدل کے آج بھی فعال ہیں۔

کچھ تو قومی و علاقائی سیاسی دھارے کا بھی حصہ ہیں۔ ان میں سے کئی تنظیمیں ’ہجومی انصاف‘ کا کلچر بڑھانے میں بھی آگِے آگے ہیں۔ چونکہ یہ سب تنظیمیں کسی نہ کسی کے کام کی ہیں لہذا ان کی مکمل بیخ کنی وسیع تر قومی مفاد میں شائد ہو تو ہو مگر بیخ کنی کے ذمہ داروں کے مفاد میں ہرگز نہیں۔

جن ریاستی اداروں کی طاقت کل وقتی طور پر اندرونی و بیرونی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے تعاقب میں لگنی تھی اس میں سے آدھی طاقت اندرونِ ملک سیاسی مینیجمنٹ میں لگا دی گئی۔

آپ کو شاید یاد ہو کہ جون 2007 میں اسلام آباد میں لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کے ڈنڈہ بردار بریگیڈ نے ایف ایٹ سیکٹر کے ایک مساج پارلر سے چھ خواتین سمیت نو چینی شہریوں کو اغوا کر لیا تھا اور ان کی رہائی کے لیے اس وقت کے چینی سفیر لئیو ژاؤ ہوئے کو لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی سے براہ راست فون پر بات کرنا پڑی۔ کیونکہ لال مسجد کی انتظامیہ کسی حکومتی عہدیدار کو خاطر میں نہیں لا رہی تھی۔

یہ پہلا موقع تھا جب پاک چین تعلقات کو نان سٹیٹ ایکٹرز نے یرغمال بنانے کی کھلم کھلا کوشش کی۔ تب سی پیک کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا۔

اگرچہ اس سے پہلے لال مسجد بریگیڈ نے متعدد شہریوں اور پولیس والوں کو اغوا کیا یا مارا پیٹا۔ مگر چینی شہریوں کا اغوا وہ آخری تنکہ تھا جس کے بوجھ نے برداشت کے اونٹ کی کمر توڑ دی۔ اس واقعے کے دو ہفتے بعد لال مسجد آپریشن ہوا۔ اسکے بعد پاکستان دہشت گردی و انتہا پسندی کی دلدل میں اور گہرا پھنس گیا۔

اس واقعے کے 17 برس بعد پچھلے ہفتے اسلام آباد میں سی پیک سے متعلق اہم جائزہ اجلاس میں شریک چینی وزیر لیو ژیان چاؤ نے سیاسی و فوجی قیادت کی موجودگی میں کھل کے کہا کہ اعتماد سونے سے زیادہ قیمتی شے ہے اور ہمارے سرمایہ کار سی پیک کے دوسرے مرحلے میں سرمایہ کاری سے یوں ہچکچا رہے ہیں کہ انھیں پاکستان میں سلامتی کے حالات اور یقین دہانیوں پر اعتبار نہیں۔

اجلاس کے بعد چینی وزیر نے آرمی چیف سے علیحدہ سے ملاقات کی۔

BBCجون 2007 میں اسلام آباد میں لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کے ڈنڈہ بردار بریگیڈ نے ایف ایٹ سیکٹر کے ایک مساج پارلر سے چھ خواتین سمیت نو چینی شہریوں کو اغوا کر لیا تھا

چینی عام طور پر کھلے عام دوستوں سے شکوہ نہیں کرتے۔ لہذا چینی وزیر کا اس طرح کھل کے سکیورٹی کے معاملات پر عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے کہ درونِ خانہ کس سطح کی تپش محسوس ہو رہی ہو گی۔

اسی تپش سے آپریشنِ عزِم استحکام کا تصور پیدا ہوا۔ جس کے بارے میں عام آدمی اور پارلیمنٹ تو رہے ایک طرف، خود ایسے آپریشنز کے سرجن بھی نہیں جانتے کہ اس کی شکل کیا ہو گی اور کون سا ہدف کس قدر اور کتنی مدت میں حاصل ہو گا۔

ماضی میں ایسی جتنی بھی پھرتیاں دکھائی گئیں ان کا نتیجہ تھکن کی شکل میں ہی نکلا۔ جتنے بھی آپریشن ہوئے ان کے مقاصد کے نتائج کا کوئی آڈٹ نہیں ہو سکا۔ شائد مسئلہ آپریشن سے زیادہ مریض کی ’پوسٹ آپریٹو‘ دیکھ بھال کا ہے۔

کیا اس بار ’سیکنڈ اوپینیئن‘ لینے کی ضرورت سمجھی جائے گی؟ سرجن کے سامنے تمام ضروری رپورٹس ہیں؟آلاتِ جراحی وائرس سے پاک ہیں؟ کیا سرجن کو یقین ہے کہ اس بار کون سا گردہ نکالنا ہے؟

آخری بات: کیا اس بار واقعی کارروائی کرنی ہے یا کارروائی ڈالنی ہے؟

اسی بارے میںوسعت اللہ خان کی تحریر: ’خدایا آئی ایم ایف کو ہیضہ ہو جائے‘وسعت اللہ خان کی خصوصی تحریر: ’لاش کو عزت دو‘وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: عمران خان بڑا خطرہ ہے یا آئی ایم ایف؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More