250 افراد کو موت کی نیند سُلانے والا ’ڈاکٹر ڈیتھ‘ کیسے پکڑا گیا؟

اردو نیوز  |  Jun 16, 2024

دنیا بھر میں ڈاکٹر کو مسیحا کہا جاتا کیونکہ اس سے جان بچانے کی امید کی جاتی ہے، لوگ اس کے سامنے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن ایک ایسا بھی ڈاکٹر ہوا ہے جسے تاریخ میں ’ڈاکٹر ڈیتھ‘ یعنی موت کے ڈاکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق ہیرالڈ شپ مین وہ شخص ہیں جنہیں ’ڈاکٹر ڈیتھ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق انہوں نے تقریباً اڑھائی سو مریضوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیا، اگرچہ بہت سے لوگوں کو ان پر شک ہوا لیکن پولیس نے کبھی بھی اس سے تفتیش نہیں کی۔

ڈاکٹر ہرالڈ شپ انگلینڈ کے معروف علاقے گریٹر مانچسٹر میں پریکٹس کرتے تھے۔ وہ ایک ذہین نوجوان تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ الگ تھلگ رہتے تھے۔

انہوں نے 1972 اور 1998 کے درمیان دو مختلف ہسپتالوں میں کام کیا اور اسی دوران انہوں نے اپنے شکار کو انجام تک پہنچایا۔

اگرچہ انہوں نے کبھی بھی کسی جرم کا اعتراف نہیں کیا لیکن 1998 میں جب ڈاکٹر کے کرتوت سامنے آئی تو پورا برطانیہ سکتے ہیں آ گیا۔

ہسپتال کے بہت سے لوگوں نے ان پر اپنے شکوک و شبہات ظاہر کیے۔ ان میں ایک قبرستان کا کیئر ٹیکر بھی تھا جو کہ موت کی سرٹیفکیٹ کی تعداد سے حیران ہوا تھا۔ اسے ڈاکٹر شپ مین پر شبہ تھا۔

بہرحال کہا جاتا ہے کہ قاتل کتنا ہی ہوشیار کیوں نہ ہو وہ سراغ چھوڑ جاتا ہے۔ ہیرالڈ شپ مین پر براہ راست اس وقت الزام لگايا گیا جب ایک معمر خاتون کی اچانک ان کے گھر میں موت ہو جاتی ہے۔

شپ مین پہلے اپنے مریضوں میں ان بیماریوں کی تشخیص کرتے جو انہیں نہیں ہوتی تھی اور پھر وہ انہیں ڈائمورفین کی مہلک خوراک کا انجیکشن لگاتے تھے۔

شپ مین کے ہاتھوں مرنے والے زیادہ تر مریض معمر خواتین تھیں اور ان میں سے بیش تر کی موت رات کے بجائے دن میں ہوتی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ شکایت کے باوجود پولیس تفتیش کے دوران غلط راستے پر نکل جاتی تھی اور وہ اس وقت تک قتل کرتے رہے جب تک کہ ان کے دل میں لالچ نے گھر نہ کر لیا۔

انہوں نے اپنی ایک مریضہ کی وصیت بنوائی جس سے مرنے والی کی بیٹی کو شک ہو گیا۔ پھر انہوں نے نہ صرف چھان بین شروع کی بلکہ ڈاکٹر شپ مین کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کر دی۔

’ہیرالڈ شپ مین: ڈاکٹر ڈیتھ‘ کے نام سے ان کی زندگی میں ہی ایک ٹی وی فلم بنائی گئی جس میں ان کے جرائم کو پیش کیا گيا ہے۔

شپ مین کے ہاتھوں مرنے والے زیادہ تر مریض معمر خواتین تھیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)ہیرالڈ شپ مین 1946 میں انگلینڈ کے قصبے نوٹنگھم میں پیدا ہوئے۔ سکول میں وہ ایک ہونہار طالب علم کے طور پر جانے جاتے تھے اور انہیں رگبی میں خاصی دلچسپی اور مہارت تھی۔

لیکن شپ مین کی زندگی میں اس وقت تبدیلی آئی جب وہ صرف 17 سال کے اور ان کی ماں ویرا کو پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ وہ ان سے بے حد قریب تھے اور ہسپتال میں وہ ان کے پاس تھے۔ شپ مین نے قریب سے دیکھا کہ کس طرح ڈاکٹر نے ان کو والدہ کو مارفین دے کر ان کی تکلیف کو کم کیا تھا۔

شاید یہی وہ محرک تھا جس نے انہیں مریضوں اور بطور خاص معمر مریضوں کی تکالیف کو کم کرنے کا راستہ دکھایا ہو۔

انہوں نے لیڈز یونیورسٹی سے میڈیسن کی تعلیم مکمل کی اور انہوں نے پرائم روز سے شادی کی جن سے ان کو چار بچے ہوئے۔ انہوں نے 1870 میں اپنی ڈگری مکمل کی اور جلد ہی ویسٹ یارکشائر میں جنرل پریکٹیشنر بن گئے۔

1976 میں ایک افیم والی دوا حاصل کرنے کی وجہ سے انہیں معطل کر دیا گیا۔ اس وقت تک وہ اس کی لت میں جا چکے تھے۔ لیکن وہ جلد ہی ٹھیک ہو گئے اور ہائیڈ میں ڈانیبروک میڈیکل سینٹر میں کام کرنے لگے۔ انہوں نے وہاں 15 سال گزارے اور پھر وہ تنہا اپنا کلینک چلانے لگے کیونکہ وہ اپنے مریضوں میں بہت مقبول اور قابل اعتماد ہو چکے تھے۔

ان کے پہلے شکار میں 70 سالہ ایوا لیونز تھیں جنہیں ڈاکٹر شپمین نے ان کے جنم دن سے ایک دن قبل اس دوا کی زیادہ خوراک دے کر مار ڈالا جس کی لت میں وہ خود تھے۔

وہ اپنے شکار کو ایک ہی طرح سے مار رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں مرنے والوں میں سب سے زیادہ عمر 93 سالہ ایک خاتون تھیں جبکہ سب سے کم عمر 46 سال کی ایک خاتون شامل تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ ڈونیبروک میں پریکٹس کے دوران انہوں نے 77 افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔

سنہ 2000 میں ڈاکٹر شپ مین کو قتل کے 15 واقعات میں عمر قید کی سزا سنائی گئی (فائل فوٹو: کشان فوٹوز)موت کے کھیل کا خاتمہ

شپ مین کے جرائم کا پردہ اس وقت فاش ہوا جب ہائید قصبے کی سابق میئر اور ان کی زیرِعلاج 81 سالہ کیتھلین گرونڈی کی جعلی وصیت کا معاملہ سامنے آیا۔

شپ مین نے گرونڈی کو ڈائمورفین کی مہلک خوراک دینے کے بعد شواہد کو چھپانے کے لیے ان کے تابوت کا استعمال کیا۔ انہوں نے ٹائپ رائٹر پر ایک مختصر وصیت تیار کی جس میں ساری جائیداد اپنے نام پر کر لی اور گرونڈی کے اہل خانہ کو اس سے بالکل بے دخل کر دیا۔

بہرحال گرونڈی کو دفن کر دیا گیا اور پھر چند دنوں کے بعد ان کی بیٹی انجیلا ووڈرف کو مقامی وکیلوں کے ذریعے وصیت کے بارے میں مطلع کیا گیا اور انہیں فوری طور پر ان کے ساتھ ہونے والے کھیل کا شبہ ہو گیا۔ وہ خود بھی وکیل تھیں اور اپنی والدہ کے امور خود ہی دیکھا کرتی تھیں۔

ان کی پوری وصیت کی قیمت تقریباً چار لاکھ پاؤنڈ تھی۔ شبہے کی ایک اور بات یہ تھی کہ شپ مین کے اصرار پر ان کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گيا تھا۔

سنہ 2000 میں ڈاکٹر شپ مین کو قتل کے 15 واقعات اور جعل سازی کے ایک معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اپنی جیل کے دوران شپ مین نے 13 جنوری 2004 کو اپنے سیل میں پھانسی لگا کر خودکشی کر لی۔

لیکن آج بھی لوگ اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ اتنی زیادہ اموات کے باوجود ان کے خلاف کوئی سراغ کیوں نہ ملا اور ان کے زیرِعلاج عام طور پر قدرے صحت مند افراد تھے جن کی موت ہو رہی تھی۔ ایک بات یہ بھی تھی کہ ان کے زیرِعلاج مریضوں کے مرنے کی تعداد دوسرے ڈاکٹروں کے مریضوں کے مرنے کی تعداد کے مقابلے 10 گنا زیادہ تھی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More