اسلام آباد۔13جون (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ومحصولات نے ڈیجیٹل ایپلی کیشنز پر تمام ٹیکسوں کو ختم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے اوگرا اور وزارت پٹرولیم کو پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح میں اضافہ کیلئے طریقہ ہائے کارکو واضح کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ وفاقی وزیرخزانہ سینیٹرمحمداورنگزیب نے کمیٹی کوبتایا کہ ٹیکس کے نظام کوشفاف بنانے اورٹیکس کی بنیادمیں وسعت وقت کی ضرورت ہے اور عالمی معیارکے مطابق پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کم ہے جس میں اضافہ کرنا ہوگا۔ فنانس بل 2024 کے بارے میں سفارشات کا جائزہ لینے کیلئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا افتتاحی اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، کمیٹی کے اراکین سینیٹر شیری رحمان، محسن عزیز، انوشہ رحمان، احمد خان، شازیب درانی، سینیٹر فاروق حامد نائیک، فیصل واوڈا اور سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے شرکت کی۔ چیئرمین کمیٹی نے شرکاء کا خیرمقدم کیا۔ کمیٹی کے ممبران نے منی بل 2024 کا جامع جائزہ لیا۔اجلاس میں سینیٹر انوشہ رحمن اور احمد خان نے کہا کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آن لائن فری لانسنگ اور سوشل ایپس پرکام کرہی ہے۔ انہوں نے ڈیجیٹل ایپلی کیشنز پر تمام ٹیکسوں کو ختم کرنے کی تجویز دی اورکہا کہ فری لانسرز ترسیلات زر لانے کا اہم ذریعہ ہیں۔انہوں نے 500 ڈالرتک کمانے کے بعد فون کے استعمال پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ سینیٹر محسن عزیز نے فنانس بل 2024 پر تنقید کی تاہم انہوں نے بل کا شق وار جائزہ لینے کے عمل میں حصہ لینے کے کا عزم کا اظہار کیا۔ سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے منی بل 2024 کے ذریعے ٹیکسوں میں اضافہ کی تجویز پر تشویش کا اظہار کیا۔وزیرخزانہ نے کمیٹی کوبتایا کہ ٹیکس کے نظام کوشفاف بنانے اور ٹیکس کی بنیادمیں وسعت وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی معیار کے مطابق پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کم ہے جس میں اضافہ کرنا ہوگا۔وزیرخزانہ نے کہا کہ تنخواہ دارطبقہ کیلئے نئے مالی سال کے بجٹ میں 6 لاکھ روپے تک کی آمدن پرانکم ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ شفاف معیشت کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹلائزیشن کاعمل جاری ہے ، معیشت کو دستاویزی بنایا جا رہا ہے اور نان فائلرزکے حوالہ سے تعزیری اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں جن میں بین الاقوامی سفر کے لیے پاسپورٹ پر این ٹی این نمبر درج کرنے کی تجویز زیرغور ہے۔ کمیٹی نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور وزارت پٹرولیم کو پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح میں اضافہ کیلئے طریقہ ہائے کار کو واضح کرنے کی ہدایت بھی کی ۔ کمیٹی نے کسٹمز ایکٹ 1969 میں ترامیم کا جائزہ لیا اور خاص طور پر فنانس بل کے ذریعے ڈائریکٹر جنرل کی تشکیل میں طریقہ کار کی بے ضابطگیوں کو نوٹ کیا۔کمیٹی کے اراکین نے تنازعات کے متبادل حل اے ڈی آر میں ترامیم کے لیے تجاویز پیش کیں، اراکین نے اے ڈی آر نوٹیفیکیشن کی عدم تعمیل کے لیے بورڈ پر جرمانے کو شامل کرنے کی ضرورت پرزوردیا ۔ شق 3، ذیلی شق 16 کا جائزہ لیتے ہوئے سینیٹر انوشہ رحمن اور احمد خان نے کیس مینجمنٹ سسٹم کے قیام کے لیے ہائی کورٹ کو ہدایات جاری کرنے کی فزیبلٹی پر حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے مذکورہ شق پر عمل درآمد نہ کرنے پر جرمانے کی کمی پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ اس سے ہائی کورٹ اور پارلیمنٹ دونوں پر اثرات مرتب ہوں گے۔ چیئرمین اوگرا نے کمیٹی کو آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں مجوزہ اضافے پر بریفنگ دی۔ کمیٹی نے پٹرول سٹیشنوں پر سبسڈی فراہم کرنے یا معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے دو نرخ متعارف کرانے کے علاوہ مستحق طبقات کو مراعات فراہم کرنے کا کوئی عملی طریقہ کار تلاش کرنے کے ضمن میں اوگرا کو سفارش و ہدایات جاری کیں۔ اجلاس میں نئے مالی سال کے بجٹ میں متعارف کرائے گئے ٹیرف کی ساخت پر غور کیاگیا۔حکام نے بتایا کہ حکومت نے مقامی پیداوار کو بڑھانے کے لیے مختلف شعبوں کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنی قرار دیا ہے ۔ حکام نے مزید کہا کہ ایروسول پروڈکٹس، بھرے میٹل سے ملبوس پرنٹ شدہ سرکٹ بورڈز اور ٹی وی پینلز بنانے والے شیشے کے بورڈز پر کسٹم ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان سے تازہ اور خشک میوہ جات کی درآمد پر 10 فیصد، گندم پر 11 فیصد اور چینی، چقندر، سفید کرسٹل اور سفید کرسٹل بیٹ شوگر پر 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔ اجلاس کوبتایاگیا کہ حکومت نے شمسی توانائی کی اشیاء کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔حکام نے کہا کہ یہ قدم سولر پینلز اور انورٹرز کی مقامی تیاری کو فروغ دینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ ریلیف تمام شعبوں کیلئے ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جہاں سولر انڈسٹری کو چھوٹ دی ہے، وہیں اس نے برقی گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی بھی بڑھا دی ہے۔اجلاس کو بتایاگیا کہ حکومت نے ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی آرڈیننس کے تحت قائم کیے گئے ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں درآمد اور برآمد کیے جانے والے سامان پرکسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا ہے۔ سینیٹ کمیٹی نے اس معاملے پرسرمایہ کاری بورڈ سے رائے لینے کا فیصلہ کیا اور بحث موخر کر دی۔