وسعت اللہ خان کی خصوصی تحریر: ’لاش کو عزت دو‘

بی بی سی اردو  |  Jun 04, 2024

Getty Images

بالخصوص 2018 سے اب تک جتنے بھی بجٹ پیش کیے گئے ان کا ڈھانچہ آئی ایم ایف نے بنایا۔ ہم نے صرف اس ڈھانچے پر لیپا پوتی کی۔ اب جو بجٹ آنے والا ہے وہ بھی اس سیریز کی اگلی کڑی ہے۔

آسان لفظوں میں قیدی کو زنجیر کی لمبائی تک چہل قدمی کی آزادی میسر ہے۔ یہ ان اللوں تللوں کی قیمت ہے جو ادھار کو آمدنی سمجھ کے ہضم کرنے سے جنم لیتی ہے۔

اللے تللے اشرافیہ کے ( فوج ، بیورو کریسی، تاجر و صنعت کار و بارسوخ زمیندار و ٹھیکیدار و بچولیے، کارپوریٹ سیکٹر اور سبسڈی کے خون پر پلنے والے نیم دیوالیہ پبلک سیکٹر ادارے وغیرہ وغیرہ)اور قیمت چکائی جاتی ہے ٹیکس دینے والی اقلیت، کمرشل شرحِ سود پر اٹھائے جانے والے قرضوں، برادر ممالک کے مہربند ڈپازٹس اور واجب الادا اقساط کے رول اوور کے ذریعے۔

دو سو بہتر ارب ڈالر کا اندرونی و بیرونی قرضہ جس کی قسط و سود کی ادائیگی ڈالر کے مد و جزر کے سبب ایک برس میں 64 فیصد بڑھ چکی ہے۔

دو ہزار گیارہ میں پاکستان کے ہر شہری پر یہ قرضہ 823 ڈالر فی کس تقسیم ہو رہا تھا۔آج بارہ برس بعد اس شہریکی گردن پر قرضے کا بوجھ مزید 36 فیصد ( 1122 ڈالر ) بڑھ گیا ہے۔ جبکہ اسی دورانیے میں فی کس قومی پیداوار میں چھ فیصد کمی ہوئی۔

گذشتہ ماہ ’دوبئی ان لاک‘کے نام سے ایک تحقیقاتی رپورٹ کیا سامنے آئی کہ تمام لوکل چینلز ایک ٹانگ پر ناچنے لگے۔ حالانکہ ہمیں تو خوش ہونا چاہیے کہ کوئی تو رپورٹ ایسی آئی جس میں پاکستان چوٹی کے تین ممالک میں شامل ہے۔ یعنی دوبئی میں جن غیر ملکی شہریوں کی جائیدادیں سب سے زیادہ ہیں ان میں سرِ فہرست انڈیا، پاکستان اور برطانیہ ہیں۔ اس کے بعد کہیں جا کے روس ووس کے شہری آتے ہیں۔

اس انکشاف میں اچھلنے کی بات اس لیے نہیں کہ تمام جائیدادیں قانونی ہیں۔ سب کے کاغذ پورے ہیں۔ بلکہ میں تو دعاگو ہوں کہ زرداری خاندان، شریف خاندان، اومنی گروپ اور ایس ایس پی راؤ انوار اور درجن بھر ریٹائرڈ جرنیلوں سمیت جن 17 ہزار پاکستانی شہریوں کو یہ جائیدادیں خریدنا نصیب ہوا۔ اللہ ان کی خون پسینےکی کمائی میں اور برکت دے (آمین)۔

مجھ جیسے کنگلوں کی تو بس اتنی سی خواہش ہے کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ پاکستان کے خوار شہری کو سر چھپانے کے لیے تین مرلہ فی کنبہ پلاٹ رعایتی قیمت پر فائلوں کے بجائے زمین پر مل جائے۔

ایک ہسپتالی بستر دو دو کے بجائے صرف ایک مریض کو میسر ہو تو کیا ہی کہنے۔ اور بستر اتنے ہوں کہ مریض وارڈوں کے فرش یا برآمدوں میں نہ لیٹے ہوں۔ جان بچانے والی دواؤں کی قیمت بھلے آسمان چھولے مگر کم از کم دستیاب ہوں اور جعلی نہ ہوں تو مزہ آ جائے۔

جو دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے تعلیم کا منھ نہیں دیکھ پاتے یہ ان کی قسمت۔ البتہ جن کے داخلے ہو چکے ہیں ان کے سکولوں میں پینے کا پانی، بیت الخلا، چار دیواری اور فرنیچر بھلے نہ بھی ہو تو چلے گا۔ تاہم ایک ایسا استاد ضرور مقرر ہو جسے اپنا مضمون پڑھانا آتا ہو اور وہ اپنی جگہ کسی ملازم یا دوست کو حاضری لگوانے کے لیے نہ بھیجا کرے۔

Getty Imagesدبئی کی پراپرٹی پاکستانی اور جنوبی ایشیائی شخصیات کے لیے سرمایہ کاری کی جنت کیوں ہے؟آئی ایم ایف کیا ہے اور یہ پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ممالک کو قرض کیوں دیتا ہے؟پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت وفاق سے پہلے صوبائی بجٹ پیش کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

سڑکیں بھلے نہ بنوائیں مگر جو تھوڑی بہت بنوائیں وہ کاغذ کے بجائے زمین پر دکھائی دیں اور کم از کم اتنی سخت جان ضرور ہوں کہ مون سون کی ایک بارش تو جھیل جائیں۔ تاکہ ایک ہی سڑک سال میں تین تین بار بنانے کا ڈھونگ نہ دیکھنا پڑے۔

عام شہری کو کسی بھی دیدہ نادیدہ جرم میں بھلے پکڑ لیں کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر اس کو تشدد یا پولیس مقابلے میں مارتے وقت بس یہ نہ کہیں کہ قیدی تفتیش کے دوران دل کا دورہ پڑنے یا پولیس کی گرفت سے فرار ہوتے ہوئے مارا گیا۔

اسی طرح اگر جبری اغوا کے برس ہا برس بعد کوئی ’مبینہ دہشت گرد یا ملک دشمن‘ لاش کی شکل اختیار کر لے تو مردہکسی سناٹے میں نہ پھینکیں بلکہ چپ چاپ گھر والوں کے حوالے کر دیں تاکہ وہ اس فانی دنیا میں تدفین کی عیاشی تو پا لے۔ یعنی لاش کو عزت دو۔

AFP

یہ ملک کون چلا رہا ہے کیوں چلا رہا ہے؟ اس کے بنیادی اقتصادی، سماجی و سیاسی مسائل کا ذمہ دار کون ہے؟ حل کیا ہے اور کن کے پاس ہے؟ یہ سب بے کار کے سوالات ہیں۔ بس اتنی سی بات ہے کہ آئین، قانون، جمہوریت، عدلیہ کی آزادی، بنیادی حقوق اور قومی اتحاد جیسی کھوکھلی اصطلاحات کی مقدار اپنے بیانات میں ذرا سی کم رکھیں تاکہ زخموں پر نمک کی مقدار بھی کچھ گھٹ جائے اور وہ ناسور نہ بن جائیں۔

قانونی و نیم قانونی جوازوں اور من مرضی منطق کی آڑ میں قومی اثاثوں کی لوٹ مار، بندر بانٹ اور کلیرنس سیل سے عام آدمی کا کوئی سروکار نہیں۔ اس کی وضاحت و صفائی بھی کوئی نہیں مانگ رہا نہ مانگ سکتا ہے۔ بس آخر میں اتنا رہنے دیجیے گا جتنا دوبارہ دہی جمانے کے لیے ’جامن یا جاگ‘ چھوڑ دیا جاتا ہے۔

رہی دال روٹی ، بجلی گیس کی مہنگائی تو اس کا ذمہ دار آئی ایم ایف ہے۔ لہذا آپ اس سے بھی بری ہیں۔

جیوندے رہو صاحب بہادر، جگ جگ جیو میرے آقا۔ بھاگ لگے رہن موتیاں والیو۔۔۔۔

دبئی کی پراپرٹی پاکستانی اور جنوبی ایشیائی شخصیات کے لیے سرمایہ کاری کی جنت کیوں ہے؟پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت وفاق سے پہلے صوبائی بجٹ پیش کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟آئی ایم ایف کیا ہے اور یہ پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ممالک کو قرض کیوں دیتا ہے؟پینڈورا پیپرز: ایک وزیر، ان کی اہلیہ اور لندن کے کئی ملین پاؤنڈ کے اپارٹمنٹ کا معمہپینڈورا پیپرز میں شامل پاکستانیوں سے جواب طلبی کے لیے خصوصی سیل قائم
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More