انڈیا کی ایک نجی کمپنی نے مکمل طور پر تھری ڈی پرنٹر سے پرنٹ کیا گیا راکٹ لانچ کیا ہے۔ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) مدراس میں سنہ 2018 میں قائم کی گئی ایک سٹارٹ اپ کمپنی اگنی کول کوسموس نے انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کی مدد سے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
اگنی کول کا تیار کردہ راکٹ رواں ہفتے سری ہری کوٹا سے لانچ کیا گیا۔ ’اگنی بان‘ نامی یہ راکٹ انڈیا کے واحد پرائیویٹ لانچ پیڈ سری ہری کوٹا سے لانچ کیا گیا۔ یہ لانچ پیڈ اگنی بان بنانے والی کمپنی اگنی کول کوسموس کی ملکیت ہے۔
سنگل سٹیج راکٹ 'اگنی کول اگنی لائٹ' نامی انجن سے چلایا جائے گا۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کا پہلا راکٹ ہے جو مکمل طور پر تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی سے بنایا گیا ہے۔
یعنی اس راکٹ کو کمپیوٹر پر ڈیزائن اور تھری ڈی سکینرز کے ذریعے ہر قدم پر درستگی کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے انجن کے پرزوں کو جوڑنے کے لیے ویلڈنگ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ 3 ڈی ماڈل سے تیار ہوا ہے۔ اسی لیے اسے سنگل کمپونینٹ تھری ڈی انجن کہا جاتا ہے۔
خلائی صنعت میں تھری ڈی ٹیکنالوجی
خلائی صنعت میں تھری ڈی ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ امریکہ، روس، یورپ اور چین سمیت مختلف ممالک کی خلائی تحقیقی تنظیمیں تھری ڈی ٹیکنالوجی کے استعمال کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔
اگنی کول کوسموس کے مشیر اور آئی آئی ٹی مدراس میں ایرو سپیس انجینئرنگ کے پروفیسر ستیہ نارائن آر چکرورتی نے بتایا کہ ’مختلف ممالک نے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے راکٹ انجن کے مختلف حصوں یا پرزوں کو الگ الگ تیار کیا ہے۔ مختلف حصوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کے لیے ان کا ویلڈ ہونا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جوڑ ٹھوس ہوں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ویلڈنگ سے انجن کے وزنمیں اضافہ ہو جاتا ہے اس لیے ہم جو سنگل کمپونینٹ انجن بنا رہے ہیں اس میں کسی ویلڈنگ کی ضرورت نہیں اور اس وجہ سے انجن کا وزن بھی نہیں بڑھتا۔‘
اس راکٹ انجن کے بنانے والوں کے مطابق یہ راکٹ 30 سے 300 کلو گرام وزنی سیٹلائٹ لے جا سکتا ہے۔
بی بی سی تمل سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ستیہ نارائن چکر ورتی نے کہا کہ ’کل جب راکٹ لانچ کیا گیا تو اس میں کوئی سیٹلائٹ نہیں تھی۔
’اسے صرف زمین کے ذیلی مدار میں لانچ کیا گیا تھا لیکن اس میں 300 کلوگرام وزن کو 700 کلومیٹر اونچائی تک پہنچانے کی صلاحیت ہے۔ اگلے چند مہینوں میں اس کی صلاحیت کا تجربہ کیا جائے گا۔‘
Getty Imagesتھری ڈی پرنٹنگ کیسے کام کرتی ہے؟
انجینیئرز کمپیوٹر کے ذریعے انجن کی مطلوبہ شکل تیار کرتے ہیں۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک انجن کے ہر حصے کو ڈیجیٹل طور پر ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
پھر روٹی کے ٹکڑے کرنے کی طرح مشین کی شکل کو تہہ بہ تہ دکھایا جاتا ہے اور تھری ڈی پرنٹر تفصیل کے ساتھ اس کی باریکیوں کا معائنہ کرتا ہے۔
اس کے بعد ہم جس حصے کو بنانا چاہتے ہیں اس کے لیے ہمیں ضروری دھاتی مرکب کو باریک پاؤڈر کی شکل میں مشین میں داخل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگنی کول راکٹ کا انجن ’نکل‘ (nickel) کے مرکب سے بنا ہے۔
پھر تھری ڈی پرنٹر نے نکل کے پاؤڈر کو پگھلا کر اسے مطلوبہ شکل میں پھیلا دیا۔ ایک طرح سے دیکھیں تو کیک پر کریم پھیلانے کی طرح پرنٹر ہر تہہ کو نیچے سے اوپر تک تیار کرتا ہے۔
ہر پرت کے تیار ہونے کے بعد اس میں اگلی پرت کو شامل کرنے سے پہلے اسے ٹھنڈا اور مضبوط کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ پورا انجن مکمل نہ ہو جائے۔ پرنٹنگ ختم ہونے کے بعد اس میں کچھ تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں، جیسے اضافی مواد کو ہٹانا یا سطح کو چمکانا وغیرہ۔
زمین پر کیے گئے تجربے
کسی انجن کو راکٹ میں استعمال کرنے سے پہلے اسے سخت جانچ سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ حفاظت اور کارکردگی کے معیارات پر پورا اترتا ہے کہ نہیں۔
لیبارٹری کے ماحول سے ہٹ کر زمین پر اس پر دباؤ اور درجہ حرارت کی جانچ کی جاتی ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ یہ زمین کے ماحول میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
پروفیسر چکرورتی کہتے ہیں کہ ’ہم نے انجن کے مختلف حصوں کو تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے انفرادی طور پر تیار کیا اور آئی آئی ٹی مدراس کے ریسرچ کیمپس میں زمین سے 30-40 بار اس کی صلاحیت کی جانچ کی۔ انجن کو زمین پر لانے کے لیے جس قدر زور کی ضرورت ہوتی ہے، وہی انجن کا زور ہوتا ہے۔‘
ایک بار جب انجن تمام ٹیسٹ پاس کر لیتا ہے، تو یہ ایک مکمل راکٹ میں جمع ہونے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ایندھن بردار جہاز، گائیڈنس سسٹم اور دیگر پرزے لانچ سے پہلے راکٹ سے منسلک ہوتے ہیں۔
’یہ راکٹ ہے جو مٹی کے تیل پر چلتا ہے‘
یہ انجن ملک کا واحد راکٹ ہے جس میں مائع آکسیجن اور مٹی کا تیل استعمال ہوتا ہے۔
اگنی کول گروپ کے ایک تجزیہ کار کریتھر کہتے ہیں کہ ’عام طور پر راکٹ کے ابتدائی مرحلے میں انجن میں ٹھوس ایندھن اور گیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گیس کے ٹینکوں کی تیاری کے دوران انھیں بھر لیا جاتا ہے۔ اس نیم کرایوجینک انجن میں مائع آکسیجن اور مٹی کا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں آسانی سے دستیاب ہیں۔
’راکٹ کو لانچ پیڈ پر لے جانے کے بعد اسے دوبارہ بھرا جا سکتا ہے۔ اس لیے راکٹ کو سنبھالنا آسان ہوجاتا ہے۔ اور اس انجن کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔'
پروفیسر چکرورتی بتاتے ہیں کہ اس طرح سے بنائے گئے انجن کی صلاحیت پرنٹر کے سائز پر منحصر ہے۔ پرنٹر جتنا بڑا ہو گا انجن اتنا ہی بڑا ہو گا اور اس طرح وہ بھاری سیٹلائٹ لے جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے جرمنی سے خریدا ہوا ایک پرنٹر استعمال کیا ہے جو اس وقت انڈیا میں سب سے بڑا تھری ڈی پرنٹر ہے۔‘
تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے انجن کی تیاری کی لاگت اور وقت میں کئی گنا کمی آ جاتی ہے۔ تھری ڈیپرنٹر سے انجن تیار کرنے میں 72 گھنٹے لگتے ہیں لیکن عام طور پر راکٹ کی مکمل تیاری میں 2 سے 3 ماہ لگتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ہی تھری ڈی پرنٹنگ کی لاگت روایتی مینوفیکچرنگ کی لاگت کا دسواں حصہ ہے۔ یہ راکٹ ریسرچ پارک کے ’اگنی کول راکٹ فیکٹری‘ میں تیار کیے گئے ہیں۔
Getty Imagesخلائی صنعت میں نجکاری
جمعرات کو ایک ’سنگل سٹیج راکٹ‘ لانچ کیا گیا۔ اس کا صرف ایک انجن تھا۔ اگنی کول کاسموس اگلے مرحلے میں دو مرحلوں میں داغے جانے والے راکٹ کا تجربہ کرے گا۔ اگنی کول کوسموس کے مطابق راکٹ کو ہر بار اتنی ہی تعداد میں انجن لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
کمپنی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسے صارفین کی خواہشات کے مطابق ڈیزائن کیا جا سکتا ہے۔ پہلے مرحلے میں چار سے سات انجن ہو سکتے ہیں اور پھر بقدر ضرورت دوسرے مرحلے کے لیے چھوٹا انجن بھی اس میں شامل ہو سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ راکٹ کو ابھی دس سے زیادہ مقامات سے اور مستقبل میں 25 سے زیادہ مقامات سے لانچ کرنے کا منصوبہ ہے۔
خلائی صنعت میں نجی کمپنیوں کا کردار اس وقت سے بڑھتا جا رہا ہے جب نجی کمپنی ’سکائی روٹ‘ نے سنہ 2022 میں اپنا راکٹ لانچ کیا تھا۔ تب سے اگنی بان انڈیا کا دوسرا نجی راکٹ بن گیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی پچھلے کچھ سالوں سے ملک کے خلائی شعبے کی نجکاری اور کمرشلائزیشن پر زور دے رہے ہیں اور سنہ 2020 میں خلائی شعبے میں اصلاحات نے نجکاری کا دروازہ کھول دیا ہے۔
گروپ کے تجزیہ نگار کریتھر کہتے ہیں: ’منصوبہ یہ ہے کہ اگنی بان راکٹ کو تجارتی گاہک تک پہنچایا جائے۔ ایسے لوگ ہیں جو تصاویر ریکارڈ کرنے سے لے کر ٹیلی کمیونیکیشن لنکس بنانے تک مختلف وجوہات کی بنا پر سیٹلائٹ لانچ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘