سوامی ویویکانند راک: وہ تاریخی مقام جہاں نریندر مودی الیکشن کے آخری مرحلے میں مراقبہ کر رہے ہیں

بی بی سی اردو  |  Jun 01, 2024

یکم جون کو انڈیا میں انتخابات کی ساتویں اور آخری مرحلے کی ووٹنگ سے دو دن قبل جب قانون کے مطابق انتخابی مہم ختم ہو گئی تو انڈین وزیراعظم نریندر مودی مراقبے کے لیے انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے لیے روانہ ہو گئے۔

وہ جمعرات کی شام سے انڈیا کے معروف مفکر اور ہندو سکالر سوامی ویویکانند کے نام پر قائم یادگار میں مراقبے پر ہیں اور 45 گھنٹے تک وہاں رہیں گے۔ اسے جہاں کچھ لوگوں نے ’سستی چال‘ کہا ہے وہیں ان کے حامی اسے ان کی ’قوت ارادی‘ کہہ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ سوامی ویویکانند نے کوئی سوا سو سال قبل سنہ 1892 میں جنوبی ریاست تمل ناڈو کے اس مقام پر مراقبہ کیا تھا تاکہ انھیں انڈیا کے مستقبل کی واضح تصویر نظر آ سکے۔

وزیرِاعظم مودی جمعرات کی شام چھ بجے سے ویویکانند ہال میں مراقبے میں ہیں اور وہ آج سنیچر کی شام تک وہیں رہیں گے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف ٹرینڈز گردش کر رہے ہیں اور اس کے متعلق بات ہو رہی ہے۔

دی ہندو اخبار کی رپورٹ کے مطابق رام کرشن مشن سے وابستہ ماہرین تعلیم کی رائے کنیا کماری میں ویویکانند کی یادگار میں مراقبہ کے لیے بیٹھے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی پر منقسم ہے۔

کولکتہ کے نریندر پور آر کے مشن ریزیڈنشیل کالج میں تاریخ پڑھانے والے استاد پروفیسر سوسبھن سینگپتا نے انگریزی روزنامے ’دی ہندو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ وہ جگہ ہے جہاں سوامی جی نے مسلسل تین دن تک مراقبہ کیا اور ان کے مراقبہ کا مرکزی موضوع مادرِ وطن کی ترقی پر غورو خوض تھا۔ پہلی بار کوئی شخص اور وہ بھی ایک راہب نے اپنے مادر وطن اور اپنے لوگوں کی پستی پر آنسو بہائے اور انھیں ان کی اس زوال پذیر حالت سے نکالنے کے لیے کوئی راستہ نکالنے پر مراقبہ کیا۔ اس چٹان پر ایک مندر اور مراقبہ ہال کی تعمیر کے بعد، جسے سوامی وویکانند کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، کوئی بھی فرد وہاں جا سکتا ہے، سوامی جی کو خراج عقیدت پیش کر سکتا ہے اور مراقبے کی مشق کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم بھی ایسا کر سکتے تھے۔

'لیکن میڈیا والوں کو اپنے مراقبے کی تصویر کشی کے لیے لے جانا میرے لیے ایک مختلف معنی رکھتا ہے۔ انھوں نے 2019 میں کیدارناتھ میں بھی ایسا ہی کیا تھا۔ موجودہ دور کے سیاسی لیڈروں کے پاس نہ کوئی اخلاق ہے اور نہ ہی کوئی ضمیر۔ اقتدار پر قبضہ اور اسے برقرار رکھنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اور ایک ایسے ملک میں جہاں ووٹروں کی اکثریت بہت کم پڑھی لکھی ہے، یہ سستے سٹنٹ ہیں۔‘

جبکہ ریٹائرڈ پروفیسر اچنتیم چٹرجی نے اس بارے میں کہا کہ اس سے مراقبے کرنے کے عمل کو فروغ ملتا ہے اور یہ ان کی قوت کو دکھاتا ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ ایک شاندار قدم ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ اسے ایک چال سمجھتے ہیں تو بھی یہ مشکل کام ہے، اس میں قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ مسٹر مودی نے سیاست میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے، انھوں نے دکھایا ہے کہ سیاست اور مراقبہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔'

Getty Imagesویویکانند راک پر یادگار تعمیر کی گئیویویکانند راک کیا ہے؟

کہا جاتا ہے کہ انڈیا کے عظیم ہندو مفکر ویویکانند نے انڈیا کے جنوب ترین مقام کنیاکماری سے سمندر کے اندر تیر کر ایک چٹان پر قیام کیا جہاں انھوں نے تین دن اور تین راتوں تک مراقبہ کیا اور انھیں وہاں سے گیان (علم یا روشن خیالی) حاصل ہوا۔

ہم نے اس بارے میں حیدرآباد یونیورسٹی میں تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ایم این راجیش سے بات کی جو اسی ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہ چٹان تو وہاں شروع سے ہی موجود ہے، عہدِ وسطیٰ میں بھی یہ ایک پرکشش جگہ تھی لیکن اس پر جو یادگار تعمیر ہوئی ہے وہ پوسٹ کولونیئل ہے۔

انھوں نے بتایا کہ انڈیا میں پوسٹ کولونیئل تعمیرات بہت کم ہیں۔ ایک تو یہ ہے اور ایک کروناندھی نے مدراس (چنئی) میں ولوور کوٹیم تیار کرایا تھا۔ ٹرانسپورٹ کی سہولت کے بعد یہاں سیاحوں کی آمد زیادہ ہے اور یہاں آنے والے سیاحوں میں زیادہ تر گجراتی اور بنگالی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ وہ مقام ہے جہاں خلیج بنگال، بحر ہند اور بحیرۂ عرب ملتے ہیں۔ اور وہاں آپ کو تین طرح کے پانی نظر آئیں گے۔ خلیج بنگال کا پانی ذرا گدلا ہے جبکہ بحیرۂ عرب کا پانی نیلا اور سری لنکا کی طرف سے بحر ہند کا پانی سبز ہے۔'

انھوں نے بتایا کہ یہ جگہ کیرالہ سے بھی نزدیک ہے اور یہ عقیدت سے زیادہ سیاحت کی جگہ ہے جہاں سے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے بہترین مناظر نظر آتے ہیں۔

پروفیسر راجیش نے بتایا کہ سنہ 1893 میں شکاگو میں دنیا بھر کے مذاہب کی کانفرنس ہوئی تھی اور اس سے قبل ویویکانند نے یہاں کچھ دن گزارے تھے جس کی نسبت سے اسے آج ویویکانند راک کہا جاتا ہے اور اس پر تعمیر یادگار ویویکانند راک میموریل ہے۔

بہر حال سنہ 1970 میں انڈین حکومت نے سوامی ویویکانند کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سمندر کے آدھا کلومیٹر اندر موجود اس جڑواں راک (چٹان) پر ویویکانند کی یادگار کے طور پر تعمیرات کیں جو آج سیاحوں کی توجہ کا بڑا مرکز ہے، جہاں بہت سے لوگ مراقبہ کرنے کے لیے بھی جاتے ہیں اور اسی مناسبت سے وہاں ایک ہال تعمیر کیا گیا ہے جسے 'دھیان منڈپم' کہا جاتا ہے۔

وزیر اعظم مودی بھی اسی ہال میں مراقبہ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر کے ساتھ میمز کی بھی بھرمار ہے۔

Getty Imagesکنیا کماری کے ساحل سے یہ 500 میٹرکے فاصلے پر سمندر کے اندر ہےلوک داستانوں میں یہ چٹان

اس کے علاوہ اساطیر اور لوک داستانوں کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ اسی چٹان پر دیوی کنیا کماری (ہندو دیوی پاروتی کا روپ) نے بھگوان شیو کی عقیدت میں تپسیا کی تھی۔

دھیان منڈپ کے ڈیزائن میں پورے انڈیا کے مندروں کے فن تعمیر کے مختلف انداز شامل ہیں۔

سنہ 1970 میں تعمیر ہونے والی یہ یادگار دو اہم ڈھانچوں پر مشتمل ہے۔ ایک وویکانند منڈپم ہے اور دوسرا شری پدا منڈپم۔ لیکن یہ بغیر کسی تنازعے کے وجود میں نہیں آئی۔

سنہ 1962 میں ویویکانند کے 100ویں یوم پیدائش پر کچھ لوگوں نے کنیاکماری کمیٹی بنائی تاکہ ان کے اعزاز میں ایک یادگار قائم کیا جائے۔ اسی دوران دارالحکومت مدراس (اب چنئی) میں رام کرشن مشن والوں نے بھی ایک یادگار کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔

جب ان کے منصوبے کا پتہ وہاں کی مقامی کیتھولک برادری کو چلا تو انھوں نے اس کی مخالفت کی اور وہاں ایک بڑی سی صلیب نصب کر دی کیونکہ یہ راک ان کے مطابق سینٹ زیویئر راک تھی۔ یہ صلیب اتنی بڑی تھی کہ کنیا کماری کے ساحل سے نظر آتی تھی۔

صلیب کے نصب کیے جانے کے بعد ہندوؤں نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ حکومت نے ایک تحقیقاتی کیمشن قائم کیا جس نے اسے ویویکانند راک قرار دیا اور حکومت نے کسی قسم کی تعمیر کو منع کر دیا البتہ وہاں سوامی ویویکانند راک کی ایک پتھر کی تختی لگا دی گئی۔

کلچر انڈیا ڈاٹ نیٹ کے مطابق آر ایس ایس سے وابستہ کارکن ایکناتھ راناڈے کو جب ویویکانند میموریل کمیٹی کا سیکریٹری مقرر کیا گیا تو انھوں نے اس مقام پر یادگار کی تعمیر کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ حالانکہ تمل ناڈو کے وزیر اعلی کے ساتھ ساتھ انڈیا کے وزیر ثقافت ہمایوں کبیر اس کے خلاف تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اس چٹان پر کسی تعمیر سے اس کی قدرتی خوبصورتی ختم ہو جائے گی۔

بہر راناڈے نے اس کے لیے 300 سے زیاد رکن پارلیمان کے دستخط لیے اور اسے وزیر اعظم نہرو کو پیش کیا جس کے بعد تمل ناڈو کے وزیر اعلی ایک چھوٹی سی یادگار کے لیے تیار ہوئے لیکن پھر راناڈے نے ایک دوسرا طریقہ اپناتے ہوئے اس میں توسیع کرالی اور یوں سنہ چھ سال کی مدت میں ایک یادگار تیار ہوئی۔ سنہ 1970 میں اس کا افتتاح ہوا اور ملک کے باشندوں کے نام اس کا انتساب ہوا۔

پروفیسر راجیشن نے کہا کہ ویویکانند راک میموریل کی تعمیر کے بعد سے اس کی دیکھ بھال کلکتہ کے بیلور مٹھ کے زیر انتظام تھی۔ لیکن جب اس تعمیر کو مقبولیت حاصل ہونے لگی تو مقامی حکومت بھی اس پر کچھ کنٹرول رکھنا چاہتی تھی اور اس لیے انھوں نے اس کے قریب ہی ایک مشہور تامل آئیکون تیروولوور کا ایک مجسمہ بنایا ہے جو 133 فٹ بلند ہے۔

یہ مجسمہ انھوں نے اس لیے قائم کیا ہے تاکہ اس بات پر زور دیا جا سکے کہ علاقائی شناخت قومی تشخص کے نیچے دب نہ جائے۔

’جب تک زندہ ہوں دلتوں کے کوٹے کو مسلمانوں میں تقسیم نہیں ہونے دوں گا‘: مودی مسلمان مخالف بیانیے سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟’میں پیدا نہیں ہوا بلکہ بھیجا گیا ہوں‘: مودی کا بیان جسے ان کے ناقدین ’خود پسندی کی انتہا‘ قرار دے رہے ہیںسوشل میڈیا پر 'مراقبے' کی گونج

وزیر اعظم نریندر مودی کے 45 گھنٹے کے مراقبے کے اعلان کے بعد سے اس کے حوالے سے کم از کم آدھا درجن ٹرینڈ سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے این آئی نے اس حوالے سے مختلف زاویے سے مسٹر مودی کے مراقبے کا ایک ویڈیو شائع کی ہے جس پر لوگ طرح طرح کے کمنٹس کر رہے ہیں۔

انڈیا میں کمیونسٹ پارٹی (مارکسی) کے معروف رہنما سیتارام یچوری نے اس حوالے سے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا مودی 27 ستمبر 1893 کو شکاگو میں عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ کے آخری اجلاس میں سوامی وویکانند کے اختتامی الفاظ سے واقف ہیں؟'

خیال رہے کہ ویویکانند نے شکاگو جانے سے قبل تین دن تک کنیاکماری کے سمندر میں موجود اس چٹان پر مراقبے میں رہے تھے۔

سیتا رام یچوری نے ویویکانند کے پیغام کو شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’اگر کوئی صرف اپنے مذہب کی بقا اور دوسروں کے (مذہب کی) تباہی کا خواب دیکھتا ہے تو میں اس پر دل کی گہرائیوں سے ترس کھاتا ہوں اور اس جانب اشارہ کرتا ہوں کہ مزاحمت کے باوجود عنقریب ہر مذہب کے جھنڈے پر 'جنگ نہیں بلکہ مدد'، 'اتحاد نہ کہ تباہی'، 'ہم آہنگی اور امن نہ کہ اختلاف' لکھا ہو گا۔‘

واضح رہے کہ رواں انتخابات میں وزیر اعظم مودی نے جس طرح سے ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس کے متعلق کمیونسٹ پارٹی اور دیگر پارٹیوں نے الیکشن کمیشن کے پاس شکایت درج کی ہے کہ وزیر اعظم نے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔

https://twitter.com/SitaramYechury/status/1796481102334529991

معروف صحافی ونود ورما نے دھیان کی تصاویر کا کولاج ڈال کر اپنی ایک فیس بک پوسٹ پر لکھا: ’چاروں طرف کیمرا اور آنکھوں پر چشمہ! ایسے کون مراقبہ کرتا ہے مہاراج؟ اور ویویکانند کی مورتی کے پاس جہاں جناب بیٹھے ہیں وہاں بیٹھ کر مراقبہ کرنا منع ہے۔ دھیان کے لیے نیچے علیحدہ حصہ ہے۔ تصویر لینا بھی ممنوع ہے۔ وزیر اعظم ہیں اس لیے اصول توڑ دیے گئے۔ ویسے کسے پتا کہ آپ کے مراقبے میں کیا ہے!‘

شانتانو نام کے ایک صارف نے ایک میڈیا ڈیبیٹ کی کلپ ڈالتے ہوئے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا ہے کہ ’نریندر مودی جو کر رہے ہیں وہ فلم کی شوٹنگ ہے نہ کہ مراقبہ۔‘

ہرمیت کور نامی ایک صارف نے ٹائمز آف انڈیا کی پی ایم مودی کی ایک کلپ کے ساتھ لکھا ہے کہ 'کنیا کماری میں 45 گھنٹے کے میڈیٹیشن (میڈیا اٹینشن) کے لیے مودی کے خبطی سرکس کی قمیت: ’سکیورٹی نے سارے ساحل کے رخ کے کمرے لے لیے ہیں۔ سیاحوں کو ویویکانند راک میموریل اور تھیروولوور راک کی زیارت سے جمعرات سے سنیچر تک کے لیے روک دیا گيا ہے۔ ماہی گیری پر تین دنوں کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔ ان کی روانگی تک ایک ہزار کشتیوں کو لنگرانداز کر دیا گیا ہے۔ ایک آدمی کے غرور کے لیے پورے ملک کو گروی رکھ دیا گیا ہے۔‘

ماحولیات کے لیے کام کرنے والی کارکن لیسیپریا کنجوگام نے لکھا کہ ’کسی کا مراقبہ دنیا بھر کی خبروں میں چھایا ہے لیکن منی پور کا سیلاب قومی خبروں سے بھی غائب ہے۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے سیلاب زدہ علاقوں کی تصاویر بھی پوسٹ کی ہیں۔

بہت سے لوگوں نے اسے مراقبے کے بجائے نوٹنکی کہا ہے جبکہ بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ مراقبہ تنہائی میں ہوتا ہے نہ کہ کیمرے کی چکاچوند کے درمیان۔

’میں پیدا نہیں ہوا بلکہ بھیجا گیا ہوں‘: مودی کا بیان جسے ان کے ناقدین ’خود پسندی کی انتہا‘ قرار دے رہے ہیںمودی کے پاکستان کو چوڑیاں پہنانے کے بیان پر پاکستان کا ردعمل:’انتخابی مقاصد کے لیے اپنی سیاست میں پاکستان کو گھسیٹنا بند کریں‘کیا رام مندر والی ریاست اترپردیش مودی کو تیسری بار وزیراعظم بنا سکے گی؟بی جے پی کا گڑھ سمجھی جانے والی ریاستیں مودی کے لیے کیسے پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More