آغاز تین چار سوالات سے کرتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اپنی لائبریری یا کتابوں والی الماری میں ابن صفی یا مظہر کلیم کے جاسوسی ناول دیگر کتابوں کے پیچھے چھپا کر رکھے ہیں؟ اس ڈر سے کہ ان ناولوں کو پڑھنے پر کوئی ہمارا مذاق نہ اڑائے؟آپ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ میچور آدمی ہیں، کسی ذمہ دار عہدے پر فائز، آپ کو ڈائجسٹ پڑھنے پسند ہیں، ان کی سلسلہ وار کہانیاں مرغوب ہیں۔ ہر مہینے جاسوسی، سسپنس، سرگزشت جیسے ڈائجسٹ لیتے ہیں، مگر کسی کے سامنے پڑھنے سے ہچکچاتے ہیں؟کیا آپ محی الدین نواب کے لکھے طویل ترین سلسلہ وار ناول دیوتا کے فین ہیں، احمد اقبال کا ناول شکاری اور مداری پسند تھا۔ طاہر جاوید مغل کا تاوان، دیوی، انگارے وغیرہ آپ کے فیورٹ ناول ہیں۔محمود مودی کا سرکش، کاشف زبیر کی سراب آپ شوق سے پڑھتے رہے، مگر کسی ادبی علمی محفل میں ان سب کا نام نہیں لے پاتے؟آپ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں، مگر نامور ادیبوں کی کتابوں کے بجائے آپ کو ڈائجسٹ پسند ہیں، خواتین، شعاع، کرن، پاکیزہ وغیرہ شوق سے منگوا کر پڑھتی ہیں، ان کی کہانیوں، ان کی رائٹرز کی مداح ہیں، مگر ماڈرن اعلیٰ تعلیم کزنز کے سامنے یہ ڈائجسٹ پڑھنے اور ان کا ذکر کرنے سے کتراتی ہیں؟کیا آپ عمیرہ احمد، نمرہ احمد اور اس صف کی دیگر ناول نگار، ڈرامہ نگار خواتین کی فین ہیں، مگر فیس بک پر علانیہ یہ بات کہنے کی جرات نہیں رکھتیں؟کیا عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کا مذاق اڑاتی پوسٹوں سے آپ کو اختلاف ہوتا ہے، مگر یہ بات کہنے کی جرات نہیں ہوتی، خاموش رہتیں یا پھر سرے سے مکر جاتی ہیں کہ کبھی ان لکھاری خواتین کو پڑھا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ تحریر آپ کے لیے ہی ہے۔ پہلے میں اپنا مختصر تعارف کرا دوں، میں عامر خاکوانی 27 برسوں سے صحافت میں ہوں، 20 برسوں سے ملک کے مختلف بڑے قومی اخبارات میں کالم لکھ رہا ہوں، میری چار کتابیں چھپ چکی ہیں جبکہ کم وبیش اتنی ہی زیرترتیب ہیں۔ میں کتابوں پر بہت زیادہ کالم اور سوشل میڈیا پوسٹیں لکھتا رہتا ہوں، حتیٰ کہ ایک لحاظ سے یہ میری شناخت بن گئی ہے۔ میں فکشن اور نان فکشن دونوں کا مطالعہ کرتا اور ان پر ریویوز، تحریریں وغیرہ لکھتا رہتا ہوں۔ بلامبالغہ سینکڑوں بار میرے قارئین اپنے میسجز کے ذریعے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ میں اپنے پسندیدہ مصنفین اور پسندیدہ کتابوں کی فہرست شائع کروں۔ انہیں لگتا شاید وہ کوئی توپ قسم کی خاص لسٹ ہوگی۔میرے فیورٹ رائٹرز میں ڈائجسٹوں کے لیے لکھنے والے بھی بہت سے ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)ویسے میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ اردو کے سب اچھے، معروف ناول نگاروں کو تفصیل سے پڑھوں۔ متعدد لکھاریوں کو مکمل طور پرپڑھنے کی کوشش کی ہے۔ کرشن چندر، قرۃالعین حیدر، عبداللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ، انتظار حسین، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، شمس الرحمن فاروقی، شکیل عادل زادہ، قاضی عبدالستار وغیرہ۔ جبکہ مرزا اطہر بیگ، حسن منظر،طاہرہ اقبال، علی اکبر ناطق، اختر رضا سلیمی، عاصم بٹ، رفاقت حیات، اقبال خورشید، حفیظ خان وغیرہ کو بھی غور سے پڑھا ہے۔ ( یاد رہے کہ میں اس وقت صرف ناول نگاروں کا تذکرہ کر رہا ہوں اس لئے بڑے افسانہ نگاروں تک کو نظرانداز کر دیا۔)احمد بشیر کا سوانحی ناول اور حمید شیخ کا گینڈا پہلوان بھی پڑھا۔ رحیم گل کے ناول پڑھے ہیں۔ جبکہ اردو کے ابتدائی ناول امراو جان ادا اور ڈپٹی نظیر احمد کے ناول توبتہ النصوع وغیرہ بھی پڑھے۔بعض لکھاریوں کے نام شائد رہ بھی گئے ہوں۔ عالمی ادب کے اردو میں چھپنے والے بہت سے تراجم پڑھے ہیں۔ گارشیا مارکیز، میلان کنڈیرا، اورحان پاموک، حوزے سارا ماگو، ہاروکی موراکامی ، یشار کمال،اسماعیل کدارا، ماریو پوزو وغیرہ وغیرہ۔ رشین کلاسیک کے تراجم بہت سے پڑھے ہیں۔ ٹالسٹائی، دوستئوفسکی کا تقریباً تمام کام، گورگی، شولوخوف، ترگنیف وغیرہ۔ جبکہ ہیمنگوئے، بالزاک، کامیو، سارتر اور میلول وغیرہ کے بھی بعض ناولوں کے تراجم۔ سٹینلے گارڈنر کا سوفی کی دنیا اور ڈکنر، ایملی برونٹے اور جین آسٹن کے ناولوں کے تراجم۔ بہت زیادہ نہیں مگر کچھ ناول انگریزی میں بھی پڑھ ڈالے۔ کچھ سیریس فکشن اور کچھ پاپولر فکشن جیسے پائولو کوہیلو، سڈنی شیلڈن، جان گریشیم، سٹیفن کنگ، جے کے راؤلنگ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں جاسوسی ناول پڑھے۔ ابن صفی کی عمران سیریز اور کرنل فریدی سیریز کے تمام ناول (ایک سے زیادہ بار )، مظہر کلیم ، ایچ اقبال کے عمران سیریز ۔ اشتیاق احمد کے بے شمار جاسوسی ناول، اے حمید کی امبر ناگ سیریز س لے کر ان کا بہت سا دوسرا کام، فیروز سنز کی شائع کردہ بچوں کے لئے داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا۔ خواتین، شعاع، کرن، آنچل، حنا، دوشیزہ ڈائجسٹ بھی بہت پڑھے ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)ڈائجسٹ بھی بہت سے پڑھے ہیں۔ بے شمار ڈائجسٹ، سینکڑوں کی تعداد میں۔ سب رنگ کا تو شاید ہی کوئی پرچہ چھوڑا ہو، سسپنس، جاسوسی، سرگزشت، عالمی، عمران ڈائجسٹ، نیا رخ، نئے افق، مسٹری میگزین، ایکشن، رازدار۔ جبکہ خواتین، شعاع، کرن، آنچل، حنا، دوشیزہ ڈائجسٹ بھی بہت پڑھے ہیں، چند ایک پاکیزہ ڈائجسٹ بھی۔ میرے فیورٹ رائٹرز میں ڈائجسٹوں کے لیے لکھنے والے بھی بہت سے ہیں۔ جیسے محی الدین نواب، احمد اقبال، ایم اے راحت، علیم الحق حقی، طاہر جاوید مغل، جبار توقیر، انورصدیقی، محمود احمد مودی، اقلیم علیم، کاشف زبیر وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح خواتین رائٹرز کو بھی بہت پڑھا۔پچھلے چند برسوں میں عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے کئی ناول پڑھے۔ نمرہ احمد کے دو ناول تو آج کل ہی میں ختم کئے ہیں۔ عمیرہ احمد کے پیر کامل، آب حیات، حاصل جبکہ نمرہ احمد کے ناول مصحف، جنت کے پتے، نمل، حالم ، بیلی راجپوتاں کی ملکہ جبکہ آخری ناول مالا آج کل پڑھ رہا ہوں۔ تو کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ اعتراف کرتے ہوئے کسی قسم کا کمپلیکس نہیں ہونا چاہیے کہ آپ ڈائجسٹ رائٹر کو پڑھ رہے ہیں۔ تاریخ انسانی کے عظیم ترین ناولوں کی فہرست میں ٹالسٹائی کا وار اینڈ پیس بھی شامل ہے (فائل فوٹو: گڈ ریڈز) لکھاری پاپولر فکشن لکھے یا سو کالڈ ادب عالیہ ، قاری کے لئے وہ دلچسپ ہونا چاہیے۔ اسے پڑھ کر کچھ حاصل ہونا چاہیے، زندگی کے مختلف زاویے، سوچ، انسانوں کے پرتیں، تہیں اور شیڈز۔ کچھ چمکتے دمکتے جملے، دل لبھانے والے خوش رنگ الفاظ ، اکا دکا خوبصورت شعری ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ حاصل ہوا تو کسی بھی طور کم نہیں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ تاریخ انسانی کے عظیم ترین ناولوں ٹالسٹائی کے وار اینڈ پیس، اینا کارینینا اور دوستئوفسکی کے ’برادرز کراما زوف‘ اور ’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘ کو پڑھنا ایک شاندار اور عظیم تجربہ ہے، مگر یقین مانیے کہ اگر آپ نمرہ احمد، عمیرہ احمد یا ابن صفی کے کسی ناول کو پڑھتے ہوئے حظ اٹھاتے ہیں، لطف لیتے ہیں تو یہ بھی کم نہیں۔اپنی زندگی کے تجربات سے یہ سیکھا ہے کہ جو من کو بھائے، جو دل کو چھو جائے، وہی اصل ہے، وہی امرت ہے، وہی اکیسر۔ اس حوالے سے کوئی کمپلیکس نہیں، مجھے جو ناول دلچسپ لگتا ہے، اسے پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ انجوائے کرتا ہوں۔ کوئی بہت ہی خشک، بور ناول جسے پڑھتے ہوئے قاری سانس بھی نہ لے سکے وہ اگر دنیا کے عظیم مصنف نے لکھا ہوتب بھی بیکار ہے۔ اس لیے پیارے لوگو، پڑھنے کی عادت ڈالو۔ جو بھی آپ کو اچھا لگتا ہے، خوشی دیتا ہے، آپ اسے پڑھ کر کچھ دیر کے لئے اپنے غم، فکر، پریشانی بھول جاتے ہیں۔ ریلیکس ہوتے ہیں،مسکراتے، دکھی ہوتے یا کسی بھی خاص کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں اور وہ آپ کے دل کو ٹچ کر رہی ہوتی تو ٹھیک ہے۔ وہ گڈ ہے۔ بن داس ہو کر اسے پڑھتے رہیں۔ مجھے عمیرہ احمد کا ناول ’پیر کامل‘ اچھا لگا، آب حیات اور الف بھی ، انہوں نے میرے دل کو چھوا۔ اس میں جو نظریہ ہے، وہ مجھے اچھا لگا۔ اور کیا چاہیے؟ مجھے ہرگز یہ نہیں لگا کہ عمیرہ احمد اور نمرہ احمد مذہب کا چورن بیچتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ ججمنٹ دینے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ہم کسی مصنف کے دل میں جھانک کر کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ اس کی نیت کا فیصلہ کیسے اور کیوں کرنا چاہتے ہیں؟مجھے نمرہ احمد کا ناول ’نمل‘ بہت پسند آیا، اس نے مجھے بڑے دنوں تک اپنے ٹرانس میں باندھے رکھا۔مجھے ہرگز یہ نہیں لگا کہ عمیرہ احمد اور نمرہ احمد مذہب کا چورن بیچتے ہیں (فائل فوٹو: بک سٹور)نمل کے ایک دلچسپ کردار احمر شفیع کے جملے جو وہ ’چڑیل‘ زمر کے لیے بولتا ہے، میں ان سے لطف اندوز ہوا اور مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ نمل یا پاپولر فکشن کے کسی بھی ناول میں غلطیاں ہوسکتی ہیں، ان پر بات ہوسکتی ہے، لیکن اگر کسی کہانی کی بنت ایسی ہے کہ آپ ڈیڈھ ہزار صفحات پڑھتے چلے جاتے ہیں تو کیا یہ کسی رائٹر کی ناکامی ہے ؟ نہیں میرے نزدیک تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ مجھے نمرہ احمد کا ناول حالم بھی اچھا لگا، چی تالیہ کے کردار نے مسحور کیا، وہ لڑکا جو اس کے ساتھ ٹائم ٹریول میں کیا اس کی شوخ باتیں، فاتح کا مضبوط کردار یہ سب بہت دلچسپ تھا۔ اب میں مالا پڑھ رہا ہوں، اس کے بھی کئی سو ٖصٖفحات پڑھ لئے ہیں، اگر ایگزیکٹ بتائوں تو آٹھ سو صٖفحات ہوچکے ۔ بہت دلچسپ لگ رہا ہے۔ ماہر فرید کا کردار دلچسپ ہے ، اس کے اپنے شیڈز ہیں۔ ’بیربل ماہر‘ کامیڈی ریلیف والا کردار لگ رہا، ماہی کی باتیں ، جملے دلچسپ ہیں، کردار نظروں کے سامنے آ جاتا ہے جبکہ مالا کا مضبوط مگر ضدی کردار اپنی جگہ، جادو اور شیطانی کردارعامل سرکار وغیرہ تو اپنی جگہ ہیں۔ یہ سب دلچسپ اور مزے کا ہے۔ اگر آپ بھی ایسا سوچتے ہیں تو پھر بن داس مزے لیں ان تمام تحریروں کا، ان پر بنے ڈراموں کا۔ ہرگز کسی قسم کے کمپلیکس کا شکار نہ ہوں۔ ہم نے اورحان پامک، مارکیز، کنڈیرا اور کلاسیک میں ٹالسٹائی، دوستئوفسکی یا ڈکنز، بالزک وغیرہ کو پڑھ کر کوئی ایسی انمول دولت نہیں حاصل کر لی جس کے بغیر آپ کی زندگیاں نامکمل یا ادھوری ہیں۔ اپنے تخیل کی نائو سنجیدہ فکشن کے سمندر میں بھی اتاریں (فائل فوٹو: گُڈ ریڈز)مزا لینا، لطف کشید کرنا اور اپنے اندر کی دنیا میں کچھ نئے حسین کردار بسا لینا، اپنے تخیل کے ذریعے ان نامعلوم دنیائوں کو دیکھنا ہی آخری تجزیے میں اصل حاصل حصول ہے۔ ہاں یہ ضرور کریں کہ جب موقعہ ملے تو پاپولر فکشن کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے شاہکار بھی ضرور پڑھیں، ان کا لطف بھی لیں، ان اچھوتے ذائقوں سے بھی مستفید ہوں۔ اپنے تخیل کی نائو سنجیدہ فکشن کے سمندر میں بھی اتاریں، مگر اپنے پاپولر فکشن کے سمندر پر نادم یا شرمندہ نہ ہوں۔ وہ بھی ایک سمندر ہے اور اس کا سفر بھی اتنا ہی دلکش، حسین اور دل خوش کن ہو سکتا ہے۔ خوش رہیں۔ لطف اٹھائیں کہ آج کی مشینی، تلخ، دوڑتی بھاگتی، چیختی چلاتی زندگی میں سب سے زیادہ اس کی کمی اور ضرورت محسوس ہوتی۔ رب آپ پر سدا مہربان ہو۔ آمین