نیسلے کا دوہرا معیار،امیر ممالک کے بچوں کی غذائی مصنوعات میں کم اور غریب ملکوں کے لیے زیادہ چینی استعمال کرتی ہے،رپورٹ

اے پی پی  |  Apr 25, 2024

لندن۔25اپریل (اے پی پی):حال ہی میں غیر منافع بخش گروپوں کی تحقیق کے مطابق زیادہ آمدنی والے ممالک میں صحت کی بڑی تنظیموں کی سفارشات اور صارفین کے دباؤ کے باعث نیسلے برانڈ کے بچوں کے کھانے میں کوئی اضافی چینی نہیں ہوتی لیکن کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہی کمپنی بچوں کی مصنوعات میں چینی شامل کرتی ہے جو بچوں کو میٹھی غذاؤں اور غیر صحت بخش کھانے کی عادات کو ترجیح دینے کا باعث بن سکتی ہے۔

برطانوی ویب سائٹ آرس ٹیکنیکا میں گزشتہ روز شائع پبلک آئی اور انٹرنیشنل بیبی فوڈ ایکشن نیٹ ورک (آئی بی ایف اے این ) کی جاری تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غریب ممالک میں بچوں کے کھانے میں چینی کا اضافہ ماہرین کی سفارشات کے خلاف ایک بلا جواز دوہرا معیار ہے۔رپورٹ میں گروپس روڈریگو ویانا (جو ایک وبائی امراض کے ماہر اور برازیل کی فیڈرل یونیورسٹی آف پیرابا کے غذائیت کے شعبے کے پروفیسر ہیں) کا حوالہ دیا گیا جو بچوں کے کھانے میں شامل چینی کو غیر ضروری اور انتہائی نشہ آور کہتے ہیں۔ویانا نے تحقیقاتی تنظیموں کو بتایا کہ بچے میٹھے ذائقے کے عادی ہو جاتے اور مزید کی تلاش شروع کر دیتے ہیں جو بالغ زندگی میں غذائیت پر مبنی خرابیوں کا خطرہ بڑھاتا ہے جن میں موٹاپا اور دائمی غیر متعدی بیماریاں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر وغیرہ شامل ہیں۔

دونوں گروپوں نے نیسلے کے سیریلیک اور نیڈو پروڈکٹس کے غذائی مواد کا موازنہ کیا جو کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں کمپنی کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے بیبی فوڈ برانڈز ہیں جن کی سالانہ فروخت 2.5 بلین ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ سیری لیک گندم کے اناج کی مصنوعات میں تھائی لینڈ، ایتھوپیا، جنوبی افریقا، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سمیت ممالک میں 6 گرام تک اضافی چینی ہوتی ہے جبکہ برطانیہ اور جرمنی میں ایک ہی پروڈکٹ میں اضافی چینی نہیں ہوتی۔چینی کی سب سے زیادہ مقدار والی پراڈکٹ سیریلیک بیبی سیریل پروڈکٹ تھی جو فلپائن میں 7.3 گرام چینی کے ساتھ فروخت ہوتی تھی جبکہ 2 سال سے کم عمر کے بچوں کو اس خوراک میں چینی نہ شامل کرنے کی شفارش کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس 2 سے 18 سال کی عمر کے بچوں کو روزانہ 25 گرام سے کم چینی کھانے کی سفارش کی جاتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More