’40 جنگیں دیکھنے کے باوجود 2025 سب سے پریشان کن سال کیوں لگا‘

بی بی سی اردو  |  Dec 31, 2025

BBC

انتباہ: اس مضمون میں موجود تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتی ہیں۔

میں نے 1960 کی دہائی سے شروع ہونے والی اپنی صحافتی زندگی میں دنیا بھر میں ہونے والی 40 سے زیادہ جنگوں پر رپورٹنگ کی ہے۔

میں نے سرد جنگ کو پہلے اپنے عروج تک جاتے اور پھر اچانک اسے ختم ہوتے بھی دیکھا۔ لیکن اس سب کے دوران میں نے کبھی ایسا سال نہیں دیکھا جو 2025 کی طرح پریشان کُن ہو۔

نہ صرف اس لیے کہ اس میں کئی بڑی جنگیں جاری رہیں بلکہ اس لیے بھی کہ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اُن میں سے ایک جنگ کے جغرافیائی سیاسی اثرات بے مثال اہمیت کے حامل ہیں۔

یوکرین کے صدر زیلینسکی نے خبردار کیا ہے کہ ان کے ملک میں جاری جنگ ایک عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

تقریباً 60 سال تک جنگوں کو قریب سے دیکھنے کے بعد میرے دل میں ایک خدشہ سر ابھار رہا ہے کہ وہ درست کہہ رہے ہیں۔

AFP via Getty Imagesیوکرین کے صدر زیلینسکی نے خبردار کیا ہے کہ ان کے ملک میں جاری جنگ ایک عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے

نیٹو ممالک اس وقت خود اس بات سے پریشان ہیں کہ روس زیر سمندر موجود ان کیبلز کو کاٹنے کی کوشش کر رہا ہے جو مغربی معاشرے کی الیکٹرانک مواصلات کو چلانے میں معاونت کرتی ہیں۔

روس کے ڈرونز پر الزام ہے کہ وہ نیٹو ممالک کے دفاعی نظام کا جائزہ لے رہے ہیں جبکہ ان کے ہیکرز ایسے طریقوں کی تیاری میں مگن ہیں جن سے وزارتیں، ایمرجنسی سروسز اور بڑی کارپوریشنز کو ناکارہ بنایا جا سکے۔

مغربی حکام کو یقین ہے کہ روس کی خفیہ ایجنسیاں مغرب میں پناہ لینے والے مخالفین کو قتل کرتی ہیں یا قتل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔

2018 میں سالسبری میں سابق روسی انٹیلیجنس ایجنٹ سرگئی سکریپل کے قتل کی کوشش کی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ حملہ روس کی اعلیٰ ترین قیادت کی منظوری سے کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے خود صدر پوتن کی منظوری کے بعد۔

یہ وقت کچھ مختلف ہے

سال 2025 تین مختلف طرح کی جنگوں کی لپیٹ میں رہا۔ ان میں سے ایک یوکرین ہے جہاں اقوامِ متحدہ کے مطابق اب تک 14,000 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں 70,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 30,000 سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ حماس کے زیرِانتظام وزارتِ صحت کے ان اعداد و شمار کو اقوامِ متحدہ نے قابلِ اعتبارقرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ سات اکتوبر 2023 کو حماس نے جب اسرائیل پر حملہ کیا تو اس میں تقریباً 1,200 افراد مارے گئے تھے اور 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل کے وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے بدترین انتقام کا وعدہ کیا تھا۔

اسی دوران سوڈان میں دو فوجی گروہوں کے درمیان ایک خوفناک خانہ جنگی جاری ہے۔ پچھلے چند برسوں میں وہاں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے ہیں۔

شاید اگر یہ 2025 کی واحد جنگ ہوتی تو بیرونی دنیا اسے روکنے کے لیے زیادہ کچھ کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’میں جنگیں ختم کرنے میں بہترین ہوں‘ اور پھر انھوں نے نے غزہ میں جنگ بندی کرائی تھی۔ یہ درست ہے کہ اب غزہ میں کم لوگ مر رہے ہیں۔ لیکن جنگ بندی کے باوجود غزہ کی جنگ بالکل بھی ختم ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔

مشرقِ وسطیٰ میں خوفناک انسانی المیے کے باوجود یہ کہنا عجیب لگ سکتا ہے کہ یوکرین کی جنگ اس سب سے بالکل مختلف سطح پر ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔

AFP via Getty Imagesٹرمپ کا دعوی ہے کہ وہ جنگوں کو رکواتے ہیں

سرد جنگ کے علاوہ میں نے جن تنازعات کی رپورٹنگ کی ہے وہ زیادہ تر چھوٹے پیمانے کے تھے جو یقیناً خطرناک اور خوفناک تو تھے لیکن اتنے سنگین نہیں کہ پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال سکیں۔

ان میں سے کچھ جنگوں میں مثلاً ویتنام، پہلی خلیجی جنگ، اور کوسوو کی جنگ میں کبھی کبھار ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی بڑے بحران کی شکل اختیار کر جائیں گی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔

بڑی طاقتیں اس بات سے بہت خوفزدہ تھیں کہ کہیں کوئی مقامی، روایتی جنگ ایٹمی جنگ میں نہ بدل جائے۔

1999 میں جب نیٹو کمانڈر نے برطانوی اور فرانسیسی افواج کو حکم دیا کہ وہ ایک ایئر فیلڈ پر قبضہ کریں جہاں روسی فوج پہلے پہنچ چکی تھی تب برطانوی جنرل سر مائیک جیکسن نے کوسوو میں ریڈیو پر مبینہ طور پر چیخ کر کہا کہ ’میں تمہارے لیے تیسری عالمی جنگ شروع نہیں کرنے والا۔‘

اور اب آنے والے سال 2026 میں روس صدر ٹرمپ کی یورپ میں بظاہرعدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے گویا تیار بیٹھا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ غلبہ حاصل کرسکے۔

اسی ماہ کے اوائل میں صدر پوتن نے کہا کہ روس یورپ کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اگر یورپی چاہتے ہیں تو وہ اس کے لیے تیار ہے۔

بعد میں ٹیلی وژن پر ایک تقریب میں وہ کہتے دکھائی دیے کہ ’کوئی کارروائی نہیں ہوگی اگر آپ ہمیں عزت دیں، اگر آپ ہمارے مفادات کا احترام کریں، بالکل جیسے ہم ہمیشہ آپ کے مفادات کا احترام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔‘

یو اے ای کی جانب سے سعودی الزامات کی تردید اور یمن میں اپنی افواج کے آپریشنز ختم کرنے کا اعلان: ’بندرگاہ پر اُتارے گئے سامان میں اسلحہ نہیں تھا‘’سی آئی اے سربراہ نے کہا ہم نے پاکستان میں ریڈیو سٹیشن قائم کر لیا‘: افغانستان پر سوویت حملے کا فیصلہ کیسے ہوا؟ٹرمپ، نتن یاہو ملاقات: ’کچھ ممالک غزہ جا کر حماس کو ختم کرنا چاہتے ہیں، انھیں اسرائیل کی ضرورت نہیں‘صومالی لینڈ کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان: اسرائیل کی حکمت عملی اور متحدہ عرب امارات کی خاموشیGetty Imagesپوتن نے کہا کہ روس یورپ کے ساتھ جنگ شروع کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا

ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر پہچان رکھنے والا روس پہلے ہی ایک آزاد یورپی ملک پر حملہ کر چکا ہے جس کے نتیجے میں بے شمار شہری اور فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

یوکرین نے روس پر کم از کم 20,000 بچوں کے اغوا کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف اس معاملے میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تاہم روس ہمیشہ اس الزام کو مسترد کرتا آیا ہے۔

روس کا کہنا ہے کہ اس نے نیٹو کی پیش قدمی کے سبب اپنی حفاظت کے لیے حملہ کیا، لیکن صدر پوتن نے ایک اور جس مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے وہ روس کے علاقائی اثر و رسوخ کو دوبارہ قائم کرنے کی خواہش کا اظہار ہے۔

امریکہ کی ناپسندیدگی

وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ گزشتہ سال 2025 میں ایک ایسا منظر سامنے آیا جسے زیادہ تر مغربی ممالک ناقابلِ تصور سمجھتے تھے۔ یہ منظر نامہ اس امکان کو سامنے لایا جس میں ایک امریکی صدر اُس سٹریٹجک نظام سے منھ موڑتے دکھائی دیے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے قائم ہے۔

اب واشنگٹن نہ صرف یورپ کے دفاع کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے بلکہ اسے اس سمت پر بھی اعتراض ہے جس پر وہ اپنی دانست میں یورپ کو بڑھتے دیکھ رہا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ اب ’ تہذیب مٹ جانے کے واضح خطرے‘ سے دوچار ہے۔

کریملن نے اس رپورٹ کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ روس کے اپنے وژن کے عین مطابق ہے، یقیناً ایسا ہی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے روس میں انسانی حقوق پر خصوصی نمائندے کے مطابق روس کے اندر صدر پوتن نے اپنے خلاف اور یوکرین کی جنگ کے خلاف زیادہ تر اندرونی مخالفت کو خاموش کر دیا ہے۔ تاہم اسے مسائل بھی درپیش ہیں۔ افراطِ زر کے دوبارہ بڑھنے کا امکان، تیل کی آمدنی میں کمی، اور جنگی اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت کو وی اے ٹی (VAT) میں اضافہ کرنا پڑا۔

Getty Imagesٹرمپ اور زیلینسکی کی فروری 2025 میں وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران تلخ کلامی ہوئی تھی

یورپی یونین کی معیشت روس کی معیشت سے دس گنا بڑی ہے اور اگر اس میں برطانیہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ فرق اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔

یورپ کی مجموعی آبادی 45 کروڑ ہے جو روس کی 14 کروڑ 50 لاکھ آبادی سے تین گنا زیادہ ہے۔

اس کے باوجود مغربی یورپ اپنی آسائشیں کھو دینے کے اندیشے سے دوچار دکھائی دیتا ہے اور وہ اس وقت تک اپنی دفاعی ذمہ داریوں پر خرچ کرنے سے گریزاں دکھائی دیا جب تک کہ امریکہ کو اس کے تحفظ پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔

امریکہ بھی آج کل مختلف ہے۔ کم اثر و رسوخ والا، زیادہ اندرونی معاملات پر مرکوز اور اس امریکہ سے بالکل مختلف جس پر میں نے اپنی پوری صحافتی زندگی میں رپورٹنگ کی ہے۔

اب بالکل 1920 اور 1930 کی دہائیوں کی طرز پر امریکہ اپنے قومی مفادات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔

یہاں تک کہ اگر صدر ٹرمپ اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں اپنی سیاسی طاقت کا بڑا حصہ کھو بھی دیں تو بھی وہ امریکہ کو اس قدر تنہائی پسندی کی طرف دھکیل چکے ہوں گے کہ 2028 میں اگر کوئی زیادہ نیٹو نواز صدر بھی آ جائے تو شاید یورپ کی مدد کرنا اس کے لیے مشکل ہو۔

یہ نہ سمجھیں کہ ولادیمیرپوتن نے اس بات کو محسوس نہیں کیا ہو گا۔

جنگ میں اضافے کا خطرہ

اس پس منظر میں آنے والا سال 2026 بلاشبہ نہایت اہم دکھائی دیتا ہے۔ صدر زیلینسکی شاید خود کو امن معاہدے پر رضامندی ظاہرکرنے پر مجبور پائیں جس کے نتیجے میں یوکرین کے بڑے حصے کو الگ کرنا پڑے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اتنی مضبوط ضمانتیں موجود ہوں گی جو صدر پوتن کو چند برسوں بعد دوبارہ حملہ کرنے سے روک سکیں؟

یوکرین اور اس کے یورپی حامیوں کے لیے یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جبکہ وہ پہلے ہی خود کو روس کے ساتھ جنگ میں محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں یورپ کو یوکرین کو سہارا دینے کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔

تاہم اگر امریکہ اپنی کبھی کبھار دی جانے والے دھمکی پر عمل کرتے ہوئے یوکرین سے منھ موڑ لیتا ہے تو یہ بوجھ نہایت بھاری ہوگا۔

ہم جانتے ہیں کہ صدر پوتن (اپنے فیصلوں میں) ایک جوا کھیلنے والے رہنما ہیں۔ کوئی زیادہ محتاط لیڈر فروری 2022 میں یوکرین پر حملہ کرنے سے گریز کرتا۔ ان کے ساتھی اکثر خوفناک دھمکیاں دیتے ہیں کہ روس کے جدید ہتھیاروں سے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔

تاہم خود صدر پوتن عام طور پر ان سے کہیں زیادہ محتاط رہتے ہیں۔

جب تک امریکہ نیٹو کا سرگرم رکن ہےاس وقت تک یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ اپنے تباہ کن ایٹمی حملے کے ذریعے جواب دے سکتا ہے۔

چین کا عالمی کردار

جہاں تک چین کا تعلق ہے، صدر شی جن پنگ نے حالیہ دنوں میں خودمختار جزیرے تائیوان کے خلاف براہِ راست دھمکیاں کم دی ہیں۔

تاہم دو سال پہلے سی آئی اے کے اُس وقت کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے کہا تھا کہ شی جن پنگ نے عوامی فوج (پیپلز لبریشن آرمی) کو حکم دیا ہے کہ وہ 2027 تک تائیوان پر حملے کے لیے تیار ہو جائے۔

اگر چین تائیوان پر قبضے کے لیے کوئی فیصلہ کن اقدام نہیں کرتا تو اسے شی جن پنگ کی کمزوری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور وہ ایسا نہیں چاہیں گے۔

شاید آپ سوچیں کہ آج کا چین اتنا طاقتور اور خوشحال ہے کہ اسے عوامی رائے کی فکر کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ 1989 میں ڈینگ ژیاؤ پنگ کے خلاف بغاوت جو تیانانمن کے قتلِ عام پر ختم ہوئی اس کے بعد سے چینی قیادت ملکی ردِعمل کو نہایت باریک بینی سے دیکھتی ہے اور اس کی سخت نگرانی بھی کی جاتی ہے۔

میں نے خود تیانانمن کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی رپورٹنگ کی،اور کبھی کبھار اس کے درمیان رہ کر حالات کو قریب سے محسوس بھی کیا۔

چار جون 1989 کا وہ واقعہ اتنی سادہ نہیں تھا جتنا اُس وقت ہمیں لگا تھا۔ یقیناً مسلح فوجیوں نے نہتے طلبہ پر گولیاں چلائیں لیکن بیجنگ اور کئی دیگر چینی شہروں میں ایک اور جنگ بھی جاری تھی۔

ہزاروں عام محنت کش سڑکوں پر اس عزم کے ساتھ نکل آئے تھے کہ طلبہ پر حملے کو موقع بنا کر چینی کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول کو مکمل طور پر ختم کر دیں۔

دو دن بعد جب میں سڑکوں سے گزرا تو کم از کم پانچ پولیس سٹیشن اور تین مقامی سکیورٹی پولیس ہیڈ کوارٹر جلے ہوئے دیکھے۔

ایک نواحی علاقے میں مشتعل ہجوم نے ایک پولیس اہلکار کو آگ لگا دی تھی اور اس کی جلی ہوئی لاش کو دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا تھا۔

اس کی لاش کے سر پر پولیس کی ٹوپی کو ترچھا رکھا گیا تھا اور اس کے سیاہ پڑے ہونٹوں کے درمیان ایک سگریٹ دبا دی گئی تھی۔

اس سے یہ واضح ہوا کہ فوج صرف طلبہ کے ایک پرانے مظاہرے کو ختم نہیں کر رہی تھی بلکہ عام چینی عوام کی ایک عوامی بغاوت کو کچل رہی تھی۔

چین کی سیاسی قیادت، جو اب بھی 36 سال پہلے کے واقعات کو دفن کرنے میں ناکام ہے، ہر وقت مخالفت کی علامات پر نظر رکھتی ہے چاہے وہ منظم گروہ ہوں جیسے فالون گونگ، آزاد مسیحی چرچ، ہانگ کانگ کی جمہوریت کی تحریک، یا صرف مقامی بدعنوانی کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ، ان سب سب کو سختی سے کچل دیا جاتا ہے۔

میں نے 1989 کے بعد چین پر کافی وقت گزارا اور اس کی معاشی اور سیاسی برتری کے عروج کو دیکھتے ہوئے رپورٹنگ کی۔

اس دوران میں ایک ایسے اعلیٰ سیاستدان کو بھی جاننے لگا جو شی جن پنگ کا حریف اور مقابل تھے۔ ان کا نام بو ژی لائی تھا۔ وہ مغرب دوست تھے اور چین کی سیاست پر حیرت انگیز طور پر کھل کر بات کرتے تھے۔

ایک بار انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’آپ کبھی نہیں سمجھ سکیں گے کہ ایک حکومت کتنی غیر محفوظ محسوس کرتی ہے جب اسے معلوم ہو کہ وہ منتخب نہیں ہوئی۔‘

جہاں تک بو ژی لائی کا تعلق ہے انھیں 2013 میں رشوت، بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

BBCجان سمپسن نے 1989 سے چین پر کافی رپورٹنگ کی ہے (تصویر: تیانانمن اسکوائر، 2016)

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو 2026 نہایت اہم سال ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس دوران چین کی طاقت مزید بڑھتی جائے گی جبکہ صدر شی جن پنگ کی سب سے بڑی خواہش یعنی تائیوان پر قبضے کی حکمتِ عملی زیادہ واضح ہو جائے گی۔

ممکن ہے کہ یوکرین کی جنگ کسی معاہدے کے ذریعے ختم ہو جائے لیکن اس میں ایسی شرائط ہوں جو صدر پوتن کے حق میں جائیں۔ اس صورت میں وہ جب چاہیں مزید یوکرینی علاقے پر قبضے کے لیے آزاد ہوں گے۔

صدر ٹرمپ کی اگرچہ نومبر کے مڈ ٹرم انتخابات میں سیاسی طاقت کم ہو سکتی ہےتاہم وہ یورپ سے امریکہ کو مزید دور کر دیں گے۔ یورپ کے نقطۂ نظر سے مستقبل کی تصویر نہایت مایوس کن ہو سکتی ہے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ براہِ راست لڑائی ہوگی تو دوبارہ سوچیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ سفارتی اور فوجی چالوں کا مجموعہ ہوگی، جس میں آمریت کو فروغ ملے گا۔ یہ مغربی اتحاد کو توڑنے کی دھمکی بھی دے سکتی ہے۔ اور یہ عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔

یو اے ای کی جانب سے سعودی الزامات کی تردید اور یمن میں اپنی افواج کے آپریشنز ختم کرنے کا اعلان: ’بندرگاہ پر اُتارے گئے سامان میں اسلحہ نہیں تھا‘’سی آئی اے سربراہ نے کہا ہم نے پاکستان میں ریڈیو سٹیشن قائم کر لیا‘: افغانستان پر سوویت حملے کا فیصلہ کیسے ہوا؟ٹرمپ، نتن یاہو ملاقات: ’کچھ ممالک غزہ جا کر حماس کو ختم کرنا چاہتے ہیں، انھیں اسرائیل کی ضرورت نہیں‘صومالی لینڈ کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان: اسرائیل کی حکمت عملی اور متحدہ عرب امارات کی خاموشیکیا مشرقی پاکستان میں جنرل امیر عبداللہ نیازی نے یہ تصویر دیکھ کر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا؟فوجیان: کیا چین کا جدید ترین طیارہ بردار بحری جہاز امریکہ کے ساتھ بحری ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا آغاز ہو سکتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More