میری کیوری: دو بار نوبل انعام جیتنے والی خاتون سائنسدان جنھوں نے سرطان کا علاج آسان بنایا

بی بی سی اردو  |  Mar 31, 2024

Getty Imagesیہ کہانی ہے میری کیوری کے لاطینی امریکہ کے اکلوتے دورے کی

سنہ 1926 میں اگست کی 18 تاریخ کو گوئماریس روزا، جوسیلینو کوبیتشیک اور پیڈرو ناوا کی عمریں 18 سے 24 برس کے درمیان تھیں اور وہ تابکاری اور سرطان کے علاج میں اس کے استعمال سے منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کر رہے تھے۔

یہ کانفرنس برازیل کی ’یونیورسٹی فیڈرل آف میناس گیرائس‘ (یو ایف ایم جی) کے آڈیٹوریم میں ہو رہی تھی لیکن یہ کوئی عام کانفرنس نہیں تھی بلکہ یہاں میری کیوری بھی موجود تھیں۔

پولینڈ سے تعلق رکھنے والی 59 سالہ میری کیوری نے فرانسیسی شہریت بھی اختیار کر رکھی تھی اور وہ دو مرتبہ سائنسی دُنیا میں سب سے اہم سمجھا جانے والا نوبل انعام بھی جیت چکی تھیں۔

ان کو پہلا نوبل انعام فزکس میں 1903 اور دوسرا کیمسٹری میں 1911 میں دیا گیا تھا۔

دنیا کی تاریخ میں آج تک صرف چار ہی سائنسدان اپنی زندگی میں دو نوبل انعام جیت پائے ہیں اور ان سائنسدانوں میں واحد خاتون میری کیوری ہی ہیں۔

میری کیوری کا اصلی نام ماریہ سکلوڈووسکا تھا اور انھوں نے 15 جولائی سے 28 اگست 1926 تک 44 دن برازیل میں گزارے۔

اور یہ کہانی ہے میری کیوری کے لاطینی امریکہ کے اکلوتے دورے کی۔

برازیل میں سیلیبریٹی کی حیثیت

میری کیوری فرانس کے شہر ماسئی سے 15 جولائی 1926 کو برازیل کے شہر ریو دے جینیرو ایک بحری جہاز کے ذریعے آئیں تھیں اور اس سفر میں ان کے ہمراہ ان کی بڑی صاحبزادی ارینے بھی تھیں۔

یہ وہ وقت تھا جب فرانسیسی سائنسدان پیارے کیوری انتقال کر چکے تھے اور میری کیوری بیوہ ہو چکی تھیں۔ ان کے شوہر 19 اپریل 1906 کو پیرس میں سڑک پار کرتے ہوئے حادثہ کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔

برازیل میں ماں اور بیٹی کا استقبال ایک کمیٹی نے کیا جو کہ ڈاکٹر جولیانو موریرا اور روکیٹے پنٹو پر مشتمل تھیں، جنھیں ریڈیو براڈکاسٹنگ کے شعبے میں نمایاں مقام حاصل تھا۔

میری کیوری کے اس دورے کے دوران انھیں برتھا لُطز کا ساتھ بھی حاصل تھا جو برازیل میں خواتین کے سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔

پرنسٹن یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری سے منسلک محقق جواؤ پیڈرو براگا کہتی ہیں کہ ’مدام کیوری برازیل آمد کی سٹار کی طرح ہوئی تھی۔ ان کے لیے اور ان کی صاحبزادی کے لیے ہمیشہ ایک بگّی تیار رہتی تھے اور انھیں وہاں کسی آسمانی شہ کی طرح پذیرائی ملتی تھی۔‘

جواؤ مزید کہتی ہیں کہ ’جن مقامات پر وہ جایا کرتی تھیں وہاں لوگ دلکش لباس پہنتے تھے جو کہ پیرس کے فیشن سے مطابقت رکھتے تھے۔ لیکن میری کیوری کے کپڑے ہمشہ شکن آلود ہوتے تھے، وہ ہمیشہ ایک سادگی پسند خاتون رہی ہیں۔‘

برازیل میں 12 لیکچرز دینے کے لیے انھیں فرانس اور برازیل کی حکومت نے اس زمانے میں تقریباً 85 ہزار ڈالر دیے تھے۔

برازیل پہنچنے کے بعد تھکن سے چُور میری کیوری فلیمنگو میں واقع اپنے ہوٹل چلی گئیں جہاں وہ آرام کرنا چاہتی تھیں، جبکہ ان کی بیٹی تیراکی کے لیے پاس ہی موجود سمندر چلی گئیں۔

میری کیوری نے 17 جولائی کو پیرس میں مقیم اپنی چھوٹی صاحبزادی ایو کو ایک خط لکھا اور انھیں بتایا کہ ہوٹل میں ان کا کمرا اچھا ہے، لیکن یہاں ٹرین کا کافی شور سُنائی دیتا ہے۔

انھیں میڈیا سے کوئی لگاؤ نہیں تھا کیونکہ فرانسیسی اخبارات نے ایک شادی شدہ مرد سے ان کے رشتے پر خبریں لگائی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے ایک اخبار کو انٹرویو دیا۔

میری کیوری کے اعزاز میں پہلی کانفرنس 20 جولائی کو پولی ٹیکنیک سکول میں منعقد ہوِئی جسے ریو دے جینیرو کے ریڈیو سٹیشن نے بھی نشر کیا۔

اس کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے طالب علموں کی اتنی بڑی بھیڑ جمع ہو گئی کہ لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ بھی باقی نہیں رہی۔ اسی وجہ سے اگلی کانفرنسز بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر منتقل کر دی گئیں تھیں۔

کانفرنسوں کے بیچ میں جو وقت ملتا تھا اس میں میری کیوری سیاحی مراکز جایا کرتی تھیں جیسے کہ شوگر لوف، کوکوواڈو اور بوٹینیکل گارڈن شامل ہیں۔

سوٹ کیس میں صرف دو سوئیاں

اس کے بعد وہ 16 اگست کو ٹرین کے ذریعے اپنی صاحبزادی ایرینے کے ہمراہ برازیل کے شہر بیلو ہوریزونٹے چلی گئیں۔

ان کی صاحبزادی بھی 1935 میں کیمسٹری میں نوبل انعام جیتی تھیں۔

مینا گرائس کے مرکزی شہر میں میری کیوری نے فیکلٹی آف میڈیسن میں ایک لیکچر دیا جہاں کو گوئماریس روزا، جوسیلینو کوبیتشیک اور پیڈرو ناوا بھی موجود تھے۔

سنہ 1978 میں اپنی ایک کتاب میں ڈاکٹر پیڈرو ناوا نے میری کیوری کے بارے میں لکھا کہ ’ان کا قد چھوٹا تھا، وہ سیاہ لباس زیبِ تن کیے ہوئیں تھیں۔ وہ ہمیشہ ان ہی کپڑوں میں ملبوس ہوتی تھیں، ان کے بال اچھی طرح سے نہیں بنے ہوئے ہوتے تھے اور ان کے ہاتھ اکثر کپکپا رہے ہوتے تھے، جبکہ ان کے جوتوں کا صرف ایک ہی بٹن لگا ہوا ہوتا تھا۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں ’لیکن جب وہ پڑھایا کرتی تھیں تو ان کے الفاظ پورے کمرے کو روشن کر دیتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے دیواروں میں یورینیم اور ریڈیو ایکٹو شعائیں دوڑ رہی ہوں۔‘

بیلو ہوریزونٹے میں گزرے ہوئے وقت کے دوران انھوں نے وہاں ریڈیو انسٹیٹیوٹ کا بھی دورہ کیا جس کا افتتاح چار سال قبل ہی کیا گیا تھا۔ یہ انسٹیٹیوٹ برازیل میں بنایا گیا وہ پہلا ہسپتال تھا جہاں تابکاری کے ذریعے سرطان کا علاج کیا جانا تھا۔

میری کیوری کے سوٹ کیس میں دو ریڈیم کی سوئیاں تھیں جنہیں۔ سرطان کے علاج کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ یہ سوئیاں انھوں نے برازیل کے ہسپتال کو تحفے کے طور پر دی تھیں۔

اس کے بعد برازیل نے فرانس سے ایسی مزید سوئیاں خریدیں۔

برازیل میں میری کیوری نے ایک مقامی ڈیم کا بھی دورہ کیا جہاں لوگوں نے فرانیسسی سائنسدان کو لوگوں نے بہت مجبت دی کیونکہ وہ سائنسی دُنیا میں بڑا مقام رکھتی تھیں۔

میری کیوری اور ایرینے 18 اگست کو واپس ریو دے جینیرو آگئیں اور پھر 28 اگست کو وہ واپس فرانس لوٹ گئیں۔

اسی برس ارینے کی شادی فریڈرک جولیٹ سے ہوئی۔ ان دونوں نے آرٹیفیشل تابکاری پر آگے چل کر ریسرچ کی اور نوبل انعام بھی جیتا۔

خواتین کے پڑھنے پر پابندی

میری کیوری پولینڈ کے شہر وارسا میں 7 نومبر 1867 کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے آبائی ملک میں ثانوی تعلیم کے مراکز میں خواتین کے لیے دروازے بند تھے، اسی لیے وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی بہن کے پاس فرانس چلی گئیں۔

ان کی عمر ابھی 23 برس ہی ہوئی تھی کہ انھیں پروفیسر گیبرئل لپمان نے اپنی لیب میں کام کرنے کی اجازت دے دی۔

پیرس کی اسی لیب میں ان کی ملاقات اپنے مستقبل کے شوہر ڈاکٹر پیئرے کیوری سے ہوئی۔ ان دونوں کی شادی 26 جولائی 1895 شادی ہوئی۔

ان کی چھوٹی بیٹی ایو اس خاندان کی وہ واحد فرد تھیں جنھوں نے سائنس کے شعبے سے کنارہ کشی اختیار کی اور موسیقی سیکھی۔

میری کیوری اور ان کے شوہر نے ایک ساتھی سائنسدان ہینری بیکوئرل کے ساتھ مل کر پہلا نوبل انعام 1903 میں جیتا۔ وہ ہینری ہی تھے جن کی ریسرچ سے ثابت ہوا کہ یورینیم کی تابکاری سے کینسر کا علاج ممکن ہے۔

لیکن یہ سائنسدان نوبل انعام وصول کرنے سٹاک ہوم نہیں جا سکے تھے۔ پیارے کیوری رابکاری کے اطراف لمبا عرصے گزارنے کے سبب جسم میں کمزوری محسوس کر رہے تھے اور ان کی ٹانگوں میں بھی شدید درد تھا۔ وہ اکثر پورا پورا دن اپنے بستر پر ہی رہتے تھے اور ان کے ہاتھوں میں اتنی تکلیف تھی کہ وہ مشکل سے ہی کچھ لکھ پاتے تھے۔

میری کیوری کو 1906 میں اپنے شوہر کی موت سے بہت بڑا صدمہ پہنچا تھا۔

زندگی کا بڑا اعزاز

سنہ 1911 میں میری کیوری نے دوسرا نوبل انعام جیت کر تاریخ رقم کر دی۔ ان کی ریسرچ نے یہ ثابت کیا کہ پلونیم اور ریڈیم بھی سرطان کے علاج میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

ایک وقت پر نوبل کمیٹی نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ میری کیوری کی انعام کے لیے نامزدگی کو خارج کردیا جائے کیونکہ ان کے ایک شادی شدہ مرد سے تعلقات تھے۔

جواؤ کہتی ہیں کہ ’میری کیوری کو قدامت پسند معاشری کی نفرت کا سامنا تھا۔ کچھ گروہ تو ایسے بھی تھے جنھوں نے انھیں فرانس سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔‘

میری کیوری نے اس وقت نوبل کمیٹی کو ایک خط لکھا: ’مجھے یہ انعام ریڈیم اور پلونیم کی دریافت پر دیا جا رہا ہے۔ میرے سائنسی کام اور نجی زندگی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔‘

تاریخ دان کرسٹینا اراریپے فریرا کہتی ہیں کہ ’میری کیوری ان تمام خواتین کے لیے ایک روشن مثال تھیں جو سائنس میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ وہ ایک غیرمعمولی شخصیت تھیں جنھیں صرف اس لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک عورت تھیں۔‘

برازیل کی کمپیناس یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر روبرٹو ڈی آنڈراڈے مارٹنز کا کہنا ہے کہ ’میری کیوری کے لیے سب سے بڑی اعزاز کی بات یہ تھی کہ انھوں نے ریڈیم اور پلونیم کی دریافت کی۔‘

برازیل کے دورے کے آٹھ برس کے بعد مئی 1934 میں میری کیوری بیمار ہوئی اور دوبارہ کبھی اپنی لیبارٹری میں داخل نہیں ہو سکیں۔

اس بیماری کے دوران ان کی آنکھیں کمزور ہوگئیں اور ان کی قوتِ سماعت بھی چلی گئی۔ مختصر علالت کے بعد وہ 4 جولائی 1934 کو انتقال کر گئیں۔

’40 سالہ خواتین جلد ٹیسٹنگ کے ذریعے چھاتی کے سرطان سے بچ سکتی ہیں‘کینسر کی وہ ابتدائی علامات جن کو نظر انداز کرنا جان لیوا ہو سکتا ہے شہد کی مکھی کا زہر ’چھاتی کے سرطان کے چند خلیوں کو تلف کرتا ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More