’ہول ارتھ کیٹلاگ‘: وہ کتاب جو انٹرنیٹ سے بھی پہلے گوگل کا کام کرتی تھی‘

بی بی سی اردو  |  Mar 20, 2024

سنہ 2005 میں سٹینفورڈ یونیورسٹی، کیلیفورنیا میں اپنی تاریخی تقریر میں ٹیکنالوجی کمپنی اپیل کے بانی سٹیو جابز نے بتایا کہ ’جب میں چھوٹا تھا، تو ’دی ہول ارتھ کیٹلاگ‘ کے نام سے ایک حیرت انگیز کتاب کی اشاعت ہوئی تھی، جسے میری نسل کے لوگ ایک مقدس کتاب مانتے تھے۔‘

ایپل کے بانی اور پرسنل کمپیوٹنگ کے دور کے بانی نے مزید کہا کہ ’یہ گوگل کے آنے سے 35 سال پہلے کاغذی گوگل کی طرح کی کتاب تھی۔ یہ اچھی طرح سے ڈیزائن کردہ ٹولز اور عظیم تصورات سے بھری ہوئی تھی۔‘

معروف وبائی امراض کے ماہر لیری بریلیئنٹ، جو ٹیکنالوجی کے ماہر بھی ہیں، نے 1960 کی دہائی کے آخر میں جب اسے پڑھا تو ان کی زندگی بدل گئی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان دنوں ہمارے لیے انٹرنیٹ موجود ہونے سے پہلے کا انٹرنیٹ ’دی ہول ارتھ کیٹلاگ‘ ہی تھی۔

بریلینٹ امریکی ریاست ڈیٹرائٹ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ڈاکٹر تھے اور جب وہ 1967 میں کیلیفورنیا پہنچے تو اس وقت کے سیاسی ماحول اور خصوصاً سان فرانسسکو میں جاری نام نہاد ’سمر آف لو‘ نامی تحریک میں شامل ہو گئے۔

وہ 19 سال کی عمر میں ایک انڈین آشرم میں سٹیو جابز سے ملے اور پھر وہ دونوں زندگی بھر کے دوست بن گئے۔ انھیں مارٹن لوتھر کنگ کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ شہری حقوق کے لیے مارچ کر رہے تھے۔ انھوں نے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ چیچک کے علاج میں بھی مدد کی۔

ان کے ارد گرد ہر کوئی انقلاب کی بات کر رہا تھا اور اس وقت کی ہپی برادری ایک ساتھ مل کر رہنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن یہاں ایک بڑا مسئلہ بھی تھا جس کی نشاندہی کاؤنٹر کلچر آئیکون سٹیورٹ برانڈ نے کی۔

لندن میں وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم کے ساتھ ایک انٹرویو میں برانڈ نے وہ وقت یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی ہی ایک برادری کے ساتھرہ رہے تھے، جہاں ایک ہی مقصد تھا کہ ’تہذیب کو از سر نو تشکیل دینا تھا۔‘

لیکن کوئی بھی اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا، نہ کسی کو کھیتی باڑی آتی تھی اور نہ ہی گھر کی تعمیر کرنا۔‘ برانڈ ان ہپیوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’چونکہ مجھے ایک سائنسدان کے طور پر تربیت ملی تھی لہذا میری کوشش اس اس تحریک میں ہاتھ سے کام کرنے کے نظریے کو قابل احترام بنانے کی کوشش کرنا تھا۔‘

’ہم خدا کی طرح ہیں‘

برانڈ نے ملک بھر کا سفر کرتے ہوئے ایسی معلومات جمع کیں جو ان برادریوں کی مدد کر سکتی تھیں، اور اس سب معلومات کو ٹائپ رائٹر پر لکھی گئی ایک کتاب میں جمع کیا اور قینچی اور گوند کی مدد سے جلد کی شکل میں ڈھال دیا۔

’دی ہول ارتھ کیٹلاگ‘کاؤنٹر کلچر کے لیے ایک جزوی انسائیکلوپیڈیا تھا۔

اس کتاب کے سرورق پر عنوان ’ٹولز تک رسائی‘ کے علاوہ زمین کی ایک تصویر تھی جو برانڈ نے 1966 میں ناسا کے لیے خلا سے نظر آنے والی پورے سیارے کی تصویر شائع کرنے کی مہم کے لیے تھی۔

کتاب میں تعارف یہ کہتے ہوئے شروع ہوا کہ ’ہم دیوتاؤں کی طرح ہیں اور اس بات کو ابھی سمجھ لیں تو بہتر ہیں۔‘

اس کے بعد سے تبصروں اور تجزیوں کا ایک مجموعہ تھا جو کس گائیڈکی طرح،انارکی، آزادی پسندی، ثقافتی تجزیے، اور طنزیہ تبصروں پر مشتمل تھے اور یہ سب چھاپے گئے تھے۔

لیکن یہ اتنی اہم کیوں تھی؟

بریلیئنٹ بتاتے ہیں کہ ’یہ اہم اس لیے تھا کیونکہ ہمارے پاس انٹرنیٹ نہیں تھا۔ بڑی کتابوں تک ہماری رسائی نہیں تھی ہمیں ان چیزوں تک رسائی حاصل نہیں تھی جو ہماری مقامی برادری سے باہر تھیں۔ ہمارا اتنے سارے لوگوں سے رابطہ نہیں تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کتاب نے ہمیں یہ مدد فراہم کی کہ ہم ایک ساتھ بنیادی طور پر جینے، بااختیار بننے اور کسی چیز کا حصہ بننے کے قابل ہو سکیں اور اس سب کے بارے میں جانے کے لیے ہمیں بہترین رہنمائی ملی۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سوئس فوج کا بہترین چاقو کونسا ہے یا یا بیت الخلاء کھودنے کے لیے بہترین اوزار کیا ہے یااگر آپ طویل عرصے تک جنگل میں رہنے جا رہے ہیں اور وہاں کیسے گزر بسر کرنی ہے تو آپ اس کتاب سے رہنمائی لیں گے۔‘ یہ بنا سرچ انجن کے گوگل کی طرح تھی۔‘

یہ بھی پڑھیےتاریک مادے اور توانائی سے بنی 95 فیصد کائنات سے پردہ اٹھانے کے لیے سائنسدانوں کا نیا منصوبہ’92 ڈالر فی دعویدار‘ ایپل نے آئی فون کی رفتار کم کرنے کے کیس میں ادائیگیاں شروع کر دیںٹائٹینئم ڈیزائن، طاقتور کیمرہ، سی ٹائپ چارجر اور بہتر گیمنگ: آئی فون 15 میں نیا کیا ہے؟

ان پر 1960 کی دہائی کی ہپی تحریک کو 1970 اور 1980 کی دہائی کے کمپیوٹر انقلاب کو یعنی سائبر کلچر کے ساتھ کاؤنٹر کلچر کو متحد کرنے کا سہرا جاتا ہے۔

1960 کی دہائی میں کیلیفورنیا میں پرورش پانے والی ایک نسل جو آگے چل کر جدید کمپیوٹنگ کی بانی بنی، کے لیےیہ سب سے اہم کتاب تھی جو انھوں نے کبھی پڑھی تھی۔

لوگ جابز کو پسند کرتے ہیں، جن کا پیغام واضح تھا کہ ’یہ احتجاج، سیاست یا لابنگ نہیں بلکہ معلومات تک رسائی دنیا کو تبدیل کرے گی۔ ‘

اس دور میں لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے ان تک معلومات کی رسائی کا تصور انقلابی سمجھا جاتا تھا۔ جب جابز نے 1984 میں بڑے پیمانے پر مارکیٹ میں پہلا پرسنل کمپیوٹر متعارف کروایا تو انھوں نے بریلیئنٹ کو بتایا کہ یہ نیا کاؤنٹر کلچر ہے۔

بریلیئنٹ یاد کرتے ہیں کہ ’ایک بار میں نے مذاق میں ان سے پوچھا کہ کیا کمپیوٹر کی دنیا میں داخل ہو کر، وہ 60 اور 70 کی دہائیوں میں ہماری مساوات کی تحریک اور اقدار کو چھوڑ رہے ہیں۔‘

انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ’جس وقت میں بہت سے لوگ عوام کو بااختیار بنانے کا نعرہ لگا رہے ہیں میں نے اس وقت میں ایک کمپیوٹر تیار کر رہا ہوں ( ایپل، جسے اس وقت میکنڈوش کہا جاتا تھا) اور اسے کم قیمت پر لوگوں کے میزوں پر رکھ کر میں دراصل لوگوں کو بااختیار بنا رہا ہوں۔‘

بریلینٹ کہتے ہیں کہ ’انھیں یقین تھا کہ وہ ایسا کر پائیں گے۔‘

کھائی یا کنواں

اس وقت تک ہپی آئیڈیلزم ختم ہو چکا تھا لیکن بریلیئنٹ نے سوچا کہ سٹیو جابز اور دیگر جو عجیب و غریب نئی مشینیں بنا رہے تھے وہ سٹیورٹ برانڈ کے وژن کا ایک گم شدہ حصہ تو نہیں تھا۔

’ہول ارتھ کیٹلاگ‘ صرف لوگوں کے ایک محدود گروپ تک پہنچ سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ اگر کمپیوٹر ہم سب کو جوڑ سکتے ہیں، ہمیں نئے اوزاروں تک رسائی دے سکتے ہیں اور ہمیں دیوتاؤں میں تبدیل کرسکتے ہیں؟ تو کیا ہو گا؟‘

انھوں نے برانڈ کو فون کیا، جو شروع میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔

’یہ ایک کاروبار تھا اور ہم میں سے کسی نے بھی واقعی کوئی کاروبار نہیں چلایا تھا۔ لیکن دوپہر کے کھانے پر ہمیں ان لوگوں کو اکٹھا کرنے کا خیال آیا جو آن لائن کیٹلاگ سے متاثر ہوئے تھے۔‘

اس وقت موجود چند آن لائن کمیونٹیز میں انھوں جو کچھ دیکھا تھا وہ شاندار اور دلچسپ تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس ابتدائی گفتگو میں کچھ جادوئی تھا لوگ ایک دوسرے کوجانتے تھے مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ جس شخص سے وہ بات کر رہے تھے وہ سیاہ فام ہے یا سفید، مرد ہے یا عورت، لمبا ہے یا چھوٹا، امریکی ہے یا غیر ملکی۔۔۔‘

یہ وہی تھا جو مارٹن لوتھر کنگ نے لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’لوگ جلد کی رنگت سے نہیں بلکہ کردار سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آپ دوسرے شخص کو نہیں دیکھ سکتے۔‘

حماقت کی آوازیںGetty Images2005 میں سٹینفورڈ یونیورسٹی میں سٹیو جابز

1990 کی دہائی کے وسط تک ’دی ویل انٹرنیٹ‘ پر سب سے اہم جگہ بن گیا تھا۔ اس وقت تقریبا کوئی بھی آن لائن نہیں تھا لیکن جو لوگ تھے وہ دی ویل کے بارے میں جانتے تھے۔

اگر آپ ایک دلچسپ بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو یہ فوری طور پر جانے کی جگہ بن گئی۔

دی ویل نے سان فرانسسکو بے ایریا کے ہیکرز، ہپیز اور مصنفین کو ٹیکنالوجی اور سیاست سے لے کر زندگی کے معنی تک ہر چیز کے بارے میں ایک آن لائن گفتگو میں اکٹھا کیا۔

آن لائن ملاقات کے بعد انھوں نے ایک ابتدائی علامت کہ حقیقی اور مجازی دنیا کے بارے میں بتایا کہ وہ ضم ہوسکتی ہے۔

ہاورڈ رینگولڈ، جس نے پہلی بار ورچوئل کمیونٹی کی اصطلاح ایجاد کی اور ویل کے ایک بااثر رکن تھے کہتے ہیں کہ ’فیس بک کے برعکس، ہم آمنے سامنے ملنے سے پہلے ایک دوسرے کو آن لائن جانتے تھے۔‘

مزید کہا کہ ’بہت سی آمنے سامنے ہونے والی بات چیت تعلقات میں بدل گئی۔ رائن گولڈ نے سنہ 2011 میں بی بی سی کے روری سیلان جونز کو بتایا تھا کہ ’لوگ ملے اور شادیاں ہوئیں، جب لوگ بیمار ہوئے تو انھیں سہارا ملا، جب لوگ مر گئے تو انھیں مدد ملی۔‘

ویب سائٹ اور کتاب نے ایک انقلابی نقطہ نظر کا اشتراک کیا۔

بہت سے لوگوں کے لیے یہ دنیا کا پہلا سوشل نیٹ ورک ہے۔ جس کے دہائیوں بعد فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کی بنیاد پڑی۔

یہ صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں تھی یہ ایک انوکھے خیال پر مبنی ایک سماجی انقلاب تھا کہ ہمیں ہر وقت ہر چیز اور ہر ایک تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ سنہ 1972 میں اس کیٹیلاگ اشاعت بند کر دی گئی تھی۔

ہول ورلڈ کیٹیلاگ کے اس آخری شمارے کے سرورق پر اپولو فور کی جانب سے لی گئی ایک تصویر ہے جس میں زمین کو جزوی سائے میں دکھایا گیا ہے۔ بیک کور پر الوداعی پیغام درج تھا کہ ’معلومات کے لیے بھوکے رہو، اور ہمیشہ کُچھ نیا پانے کی کھوج میں بے تاب رہو۔

سٹیو جابز نے سٹینفرڈ میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’میں ہمیشہ سے یہ ہی چاہتا تھا۔‘

اسی بارے میںدنیا کا عظیم نقشہ بنانے والے شخص کی کہانی جو کبھی اپنے شہر سے باہر ہی نہیں نکلاگنتی کی معمولی غلطی جس نے تاریخ کے طویل ترین سال (445 دن) کو جنم دیا’کائنات کا سب سے جہنمی مقام‘ جو روزانہ سورج کو نگل رہا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More