برطانیہ میں سائبر فلیشنگ کے نئے قانون کے تحت ایک پیڈو فائل یعنی بچوں کی طرف جنسی رغبت رکھنے والے شخص کو قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔
39 برس کے نیکولس ہاکس 15 برس کی لڑکی کو اپنے عضو تناسل کی تصویر بھیجنے کا جرم ثابت ہونے پر اس نئے قانون کے تحت جیل جانے والے پہلے مجرم بن گئے ہیں۔
بیسلڈن میں ایسیکس کے رہائشی جو کہ ایک ’رجسٹرڈ جنسی مجرم‘ ہیں نے ایک خاتون کو بھی ایسی عریاں تصاویر بھیجی تھیں۔
خاتون نے 9 فروری کو بھیجی گئیں واٹس ایپ تصاویر کے ’سکرین شاٹس‘ لیے اور اسی دن پولیس کو شکایت درج کر دی۔
نکولس ہاکس نے دو الزامات کا اعتراف کیا ہے، جس کے بعد انھیں 15 ماہ سے کچھ زیادہ عرصے کے لیے جیل بھیج دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ انھیں آن لائن سیفٹی ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔ یہ قانون 31 جنوری کو نافذ ہوا۔ تاہم سکاٹ لینڈ، جس کا الگ قانونی نظام ہے، میں یہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ایک جرم ہے۔
ساؤتھنڈ کراؤن کورٹ میں سزا سناتے ہوئے جج سمانتھا لی نے کہا کہ نکولس ہاکس ’پریشان‘ تھے اور ’وہ اپنے اور اپنی جنسیت کے بارے میں گمراہ کن رائے‘ پر یقین رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ سائبر فلیشنگ ایک ایسا عمل ہے جس میں عام طور پر ایک مجرم ایک آن لائن پلیٹ فارم ۔۔ میسجنگ ایپلی کیشنز اور سوشل میڈیا۔۔ کے ذریعے لوگوں کو غیر مناسب اور عریاں تصاویر بھیجتا ہے۔
Getty Images
نکولس ہاکس پہلے ہی ایک رجسٹرڈ جنسی مجرم تھے، جن کے بارے میں گذشتہ سال 16 سال سے کم عمر کے ایک بچے کے سامنے اپنے حساس جسم کے اعضا دکھانے جنسی تعلقات اور ’جنسی سرگرمی‘ کے لیے ’کمیونٹی آرڈر‘ دیا گیا تھا۔ ان کی یہ رجسٹریشن نومبر 2033 تک رہی۔
اب انھیں قابل اعتراض تصویر بھیجنے اور گذشتہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے پر 66 ہفتے کے لیے جیل بھیجا گیا ہے۔
نکولس ہاکس کو دس سال تک کے لیے ایک ’حکم امتناعی‘ پر عمل پیرا رہنا ہو گا اور ان سے اب 15 سال تک کے لیے ’سیکسشوئل ہارمپروینشن آرڈر‘ کے تحت نمٹا جائے گا۔
ایسیکس پولیس کے انس پی جیمز گرے نے کہا کہ نکولس نے ’خود کو ایک خطرناک شخص ثابت کیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مجرموں کا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ آن لائن جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے ان کے پکڑے جانے کا امکان کم ہے، تاہم ایسا نہیں ہے۔‘
ایسٹ آف انگلینڈ کی ڈپٹی چیف کراؤن پراسیکیوٹر ہننا وان ڈیڈیلسزن نے انصاف کی جلد فراہمی کی تعریف کی اور انھوں نے کہا کہ نئی قانون سازی نے استغاثہ کی صحیح معنوں میں مدد فراہم کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ قانون ڈیجیٹل کی دنیا میں جرم کرنے والوں کے خلاف استغاثہ کے ہاتھ مزید مضبوط کرتا ہے۔
ان کے مطابق ’سائبر فلیشنگ ایک سنگین جرم ہے جو متاثرین پر دیرپا اثر مرتب کرتا ہے، لیکن اکثر اوقات اسے ایک بے تکے ’مذاق‘ کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق جس طرح وہ لوگ جو حقیقت میں ایسے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر جس طرح کی کارروائی کا سامنا انھیں کرنا پڑ سکتا ہے بالکل اسی طرح وہ مجرم جو آن لائن ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اب سکرین کے پردے کے پیچھے چھپ کر قانون کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔
لارڈ چانسلر اور جسٹس سکریٹری الیکس چاک کے سی نے کہا کہ ’سائبر فلیشنگ ایک ذلت آمیز اور تکلیف دہ جرم ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے معمولی جرم کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ہم نے قانون میں تبدیلی کی ہے تاکہ اس طرح کی گھناؤنی حرکتیں کرنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جا سکے اور آج کی سزا ایک واضح پیغام ہے کہ اس طرح کے رویے کے سنگین نتائج نکلیں گے۔‘
سائبر فلیشنگ کے موضوع پر ایک کتاب کی مصنفہ پروفیسر کلیئر میک گلین نے بی بی سی ریڈیو 4 کے ’ٹوڈے پروگرام‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انھیں خدشہ ہے کہ قانون میں اب بھی خامیاں موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ استغاثہ کے لیے یہ ثابت کرنا ایک ’مشکل‘ ہے کہ آیا ایسی عریاں تصاویر بھیجنے والا نقصان پہنچانے تکلیف دینے یا تذلیل کا ارادہ رکھتا تھا۔
دُرہم یونیورسٹی کے پروفیسر میک گلین نے کہا کہ ’ایسی عریاں تصاویر بھیجنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مذاق تھا یا وہ صرف تفریح کے لیے ایسا کر رہے تھے اور ان کا ارادہ کسی قسم کا نقصان پہنچانے کا نہیں تھا۔‘
ان کے مطابق اگر ہم یہ سب جانتے بھی ہوں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں وہ درست نہیں تو بھی جرم تو ہمیں یعنی استغاثہ کو ہی ثابت کرنا ہو گا۔
اومیگل پر ’ڈیجیٹل جنسی غلام‘ بننے والی لڑکی ویب سائٹ کو بند کروانے میں کیسے کامیاب ہوئیرشمیکا مندانا کی وائرل ویڈیو: ڈیپ فیک کیا ہے اور اس کی شناخت کیسے کی جا سکتی ہے؟بی بی سی میزبان پر ایک اور نوجوان کو دھمکی آمیز میسیجز بھیجنے کا الزام
سائبر فلیشنگ کے مسئلے کو گذشتہ سال بی بی سی ٹو کی ایک دستاویزی فلم میں زیر بحث لایا گیا تھا، جسے ’ایملی اٹیک: آسکنگ فار اِٹ؟‘ کا نام دیا گیا۔
ایملی اٹیک اداکارہ، ٹی وی میزبان اور سماجی کارکن ہیں۔ انھوں نے سائبر فلیشنگ اور آن لائن ہراساں کرنے کے اپنے ذاتی تجربات شیئر کیے۔
’ٹوڈے پروگرام‘ میں بات کرتے ہوئے لوٹن سے تعلق رکھنے والی ایملی نے کہا کہ انھیں آن لائن ’ہزاروں‘ نامناسب اور عریاں تصاویر موصول ہوئیں مگر وہ چپ کر کے اس صدمے کو پی گئیں۔
34 برس کی اداکارہ نے کہا کہ ’مجھے یہ پیغامات مختلف مردوں سے، مختلف تصاویر، ویڈیوز کی صورت موصول ہو رہے تھے اور بہت کچھ ایسا جس کے بارے میں آپ تصور کر سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق یہ سب دیکھ کر وہ تو اتنے دور نکل گئیں کہ وہ بحیثیت عورت اپنے وجود پر ہی سوال اٹھانا شروع ہو گئی تھیں۔
ان کے مطابق ہمیں واقعی ایسے معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جنھیں ایک عرصے سے معمولی ہی لیا جاتا رہا ہے۔
خواتین آن لائن ہراسانی کے واقعات ایف آئی اے کو رپورٹ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں؟سنگاپور کے ہوٹل کا کمرہ اور جرمن فوجی افسر کی معمولی غلطی: جاسوسوں نے حساس گفتگو کیسے ریکارڈ کی؟خود کشی کے لیے زہر بیچنے والا شخص، جس نے آن لائن فورم کے ذریعے سمندر پار مہلک کیمیکل پہنچایا خواتین کے ساتھ رات گزارنے اور انھیں ’حاملہ‘ کرنے کی نوکری: سینکڑوں مرد پیسے اور سیکس کے لالچ میں آ کر کیسے لُٹے؟