کیا سورج سے نکلنے والی تابکاری اور پروٹون شعاعیں ہمارے فون اور کمپیوٹر میں خرابی کی وجہ بن سکتی ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 18, 2024

NASA

میری مو کو اچانک چھاتی میں ایک ٹیس محسوس ہوتی ہے۔ سینے کے پٹھے پھڑپھڑانے لگتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ان پھڑپھڑاتے پٹھوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ سینے کی ہڈی کے بائیں جانب پٹھے دل کی تیز دھڑکن کے ساتھ پھڑپھڑا رہے ہیں۔

سائبر سیکورٹی ریسرچر اس وقت جہاز میں اپنی منزل ایمسٹرڈم سے صرف 20 منٹ کے فاصلے پر تھی۔ وہ خوفزدہ ہو گئیں لیکن اُنھیں فوراً پتہ چل گیا کہ ان کے سینے میں لگے پیس میکر میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے۔

کیا پیس میکر کی کوئی تار خراب ہو گئی ہے، یا ڈھیلی ہو گئی ہے۔ میری مو نے جہاز کے عملے کو اپنی صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا جنھوں نے ایئرپورٹ پر ایمبولینس کا بندوبست کر لیا۔ اُنھیں بتایا گیا کہ اگر وہ اپنی منزل سے اتنی قریب نہ ہوتیں تو پائلٹ کو کسی اور ایئرپورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کرنی پڑتی۔

جب میری مو کو قریب ترین ہپستال پہنچایا گیا اور ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ شروع کیا تو پیس میکر ٹیکنیشن جلد ہی مسئلے کی تہہ تک پہنچ گئے۔ پیس میکر کے ساتھ جڑے منی کمپیوٹر میں سٹور کیا گیا ڈیٹا کسی وجہ سے کرپٹ ہو گیا تھا۔

میری مو کو شبہ ہے کہ ان کے پیس میکر میں خرابی کی وجہ وہ کائناتی شعاعیں ہیں جو ایٹمی ذرات کی ایک لڑی ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک شعاع کا ایک ذرہ مو کے سینے میں لگے پیس میکر کے اندر نصب چھوٹے سے کمپیوٹر تک پہنچا اور اسے خراب کر گیا۔

نظریہ یہ ہے کہ کائناتی شعاع کے ٹکرانے سے پیس میکر کے کمپیوٹر میں ایک برقی عدم توازن پیدا ہوا جس نے کمپیوٹر کی میموری میں تبدیلیاں پیدا کر دیں۔

اس واقعے نے پیس میکر جیسے زندگی بچانے والے آلے کے بارے میں میری مو کی سوچ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

جب کمپیوٹر خراب ہو جاتے ہیں ہم تصور کرتے ہیں کہ اس میں کوئی سافٹ ویئر مسئلہ پیدا ہو گیا ہے یا اس کی پروگرمنگ اچھی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن سورج سے نکلنے والی تابکاری بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے جن میں پروٹونز پر مبنی شعاعیں بھی شامل ہیں۔

’سنگل-ایونٹ اپ سیٹس‘ کہلانے والے ایسے واقعات کے بارے میں یقینی طور پر بنانا ناممکن ہو جاتا ہے کہ کائناتی شعاعیں کسی خاص خرابی کی وجہ تھیں کیونکہ وہ اپنے پیچھے کوئی نشان نہیں چھوڑتی ہیں۔

لیکن پھر بھی انھیں کمپیوٹر کی خرابی کے متعدد غیر معمولی واقعات کا ممکنہ ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات میں شعاعوں نے ووٹوں کی گنتی کرنے والی مشین میں خرابی پیدا کی جس سے امیدوار کے ووٹوں کی تعداد میں ہزاروں غیر موجود ووٹوں کا اضافہ ہوا اور ایک ہوائی جہاز تک متاثر ہوا جو اچانک پرواز کے دوران سینکڑوں فٹ نیچے گر گیا جس سے درجنوں مسافر زخمی ہوئے۔

NASA

اب جب انسانوں کاڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر انحصار روز بروز بڑھتا جا رہا ہے تو یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ کائناتی شعاعیں ہمارے طرز زندگی کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتی ہیں۔

اس لیے نہیں کہ مائیکرو چِپس کے سائز میں مسلسل کمی ہونے کی وجہ سے ڈیٹا کو کرپٹ کرنے کے لیے درکار چارج کم ہوتا جا رہا ہے، یعنی کائناتی شعاعوں کے لیے یہ اثر کرنا درحقیقت آسان ہوتا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ چونکہ سورج سے اچانک بے حد بڑی شعاعوں کا زمین کی طرف آنا ایک پریشان کن امکان کو جنم دیتا ہے۔ مستقبل میں سورج سے نکلنے والے ذرات کے مقناطیسی طوفان کمپیوٹرز میں بڑے پیمانے پر خلل کا باعث بن سکتے ہیں۔

میری مو کے پیس میکر کے ساتھ یہ واقعہ 2016 میں پیش آیا تھا۔ جب انھیں ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تو پیس میکر بنانے والی کمپنی سے انھیں ایک رپورٹ ملی جس میں انھیں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ ان کے پیس میکر میں کیا خرابی پیدا ہوئی تھی۔ میری مو جو اب سائبر سکیورٹی فرم مینڈیئنٹ میں سینیئر کنسلٹنٹ ہیں، بتاتی ہیں انھیں پہلی بار ’بٹ فلپس‘ کے بارے میں معلوم ہوا۔

پیس میکر کے کمپیوٹر میں ڈیٹا ’بٹس‘ کی شکل میں سٹور کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں انھیں بتایا گیا کہ کچھ بٹس الٹ پلٹ ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے سافٹ ویئر میں نقص پیدا ہو گیا۔

اس نقص نے پیس میکر کو ’بیک اپ پروگرام موڈ‘ میں جانے کی کمانڈ دی۔ کمپیوٹر کی اس غلطی کی وجہ سے دل کی دھڑکن 70 فی منٹ پر آ گئی جبکہ ان کی شدت میں اضافے کی وجہ سے ان کے پٹھے پھڑکنے لگے۔

پیس میکر کو ٹھیک کرنے والے ٹیکنیشن نے پہلے اسے کمپنی سیٹنگ میں ری سیٹ کیا اور بعد میں میری مو کی ضرورت کے مطابق اسے پھر ایڈجسٹ کر دیا۔

لیکن رپورٹ میں ڈیٹا بٹس کے پلٹ جانے کی کوئی حتمی وجہ نہیں بتائی گئی۔ البتہ ایک ممکنہ وجہ کائناتی تابکاری (کاسمک ریڈی ایشن) بتائی گئی جس کے بارے میں سو فیصد یقین سے کہنا مشکل ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’میرے پاس آپ کو پیش کرنے کے لیے کوئی اور وضاحت نہیں ہے۔‘

ستر کی دہائی سے سمجھا جا رہا ہے کہ خلا سے آنے والی تابکاری مصنوعی سیارچوں پر موجود کمپیوٹرز کو متاثر کر سکتی ہے۔

یہ تابکاری مختلف شکلیں دھار سکتی ہے اور ہمارے نظام شمسی کے اندر اور باہر بہت سے مختلف ذرائع سے نکل سکتی ہے۔ اس کا ایک منظر نامہ کچھ یوںنظر آتا ہے: سورج کی طرف سے زمین کی طرف خارج ہونے والے پروٹون ہماری فضا میں موجود ایٹموں سے ٹکرا جاتے ہیں، ان ایٹموں سے نیوٹران خارج ہوتے ہیں۔

ان ہائی انرجی نیوٹرانز میں چارج نہیں ہوتا ہے لیکن وہ دوسرے ذرات کو توڑ سکتے ہیں، ثانوی تابکاری کو متحرک کرتے ہیں جس میں چارج ہوتا ہے۔ چونکہ کمپیوٹر میموری ڈیوائسز میں بٹس کو بعض اوقات ایک چھوٹے سے برقی چارج کے طور پر محفوظ کیا جاتا ہے، اس لیے جو ثانوی شعاعیں اب ادھر ادھر اُڑ رہی ہوتی ہیں وہ بٹس کو اوپر نیچے کر سکتی ہیں، انھیں ایک حالت سے دوسری حالت میں پلٹ سکتی ہیں، جس سے ڈیٹا بدل جاتا ہے۔

فضا میں کائناتی تابکاری زمین کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ماحول ہمیں اس سے بچانے میں مدد کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہوائی مسافر زمین پر موجود لوگوں کے مقابلے اس تابکاری سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فضائی عملے کے لیے ہر ماہ پروازوں کی ایک حد مقرر ہوتی ہے۔

اگر میری مو کے پیس میکر کی خرابی کے پیچھے کائناتی شعاع تھی تو بھی ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’پیس میکر رکھنے کا فائدہ اس خطرے سے کہیں زیادہ ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں ’میں اصل میں اپنے آلے پر بھروسہ کرنے میں زیادہ پر اعتماد محسوس کرتی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ کوڈ میں کچھ غلط ہونے کی صورت میں اس میں بیک اپ موجود ہے۔‘

لیکن دوسرے کمپیوٹرز پر کائناتی شعاعوں کا اثر تباہ کن ہو سکتا ہے۔ ایک واقعہ جس پر بہت بحث ہوئی وہ 2008 کی کینٹاس ایئرویز کی مغربی آسٹریلیا کی پرواز ہے جو 10 منٹ کے اندر دو بار سینکڑوں فٹ تک نیچے آئی جس سے جہاز میں موجود درجنوں ایسے مسافر زخمی ہو گئے جو اس وقت اپنی سیٹوں پر نہیں تھے یا سیٹ بیلٹ نہیں باندھ رکھے تھے۔

کئی کو اپنے ہاتھوں اور پیروں پر چوٹیں آئیں جبکہ کئی کیبن کے اندرونی حصے سے ٹکرائے۔ مثال کے طور پر ایک بچہ جس نے سیٹ بیلٹ باندھا ہوا تھا کو اتنا بری طرح سے جھٹکا لگا کہ اس کےپیٹ میں چوٹیں آئیں۔

آسٹریلین ٹرانسپورٹ سیفٹی بیورو کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ہوائی جہاز کے 10 منٹ کے اندر دو بار سینکڑوں فٹ نیچے جانے سے پہلے جہاز میں موجود کمپیوٹر کے غلط ڈیٹا نے اس کے زاویے کو غلط انداز میں پیش کیا تھا جس پر طیارہ اڑ رہا تھا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے ناکافی شواہد ہیں کہ جہاز کے کمپیوٹر ڈیٹا میں خلل کی وجہ کائناتی شعاعیں تھیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا امکان موجود ہے۔ تفتیش کاروں کے مطابق اس کے مقابلے میں اس خلل کی دیگر تمام ممکنہ وجوہات کے رونما ہونے کا امکان نہایت کم تھا۔

NASA

بیلجیئم میں 2003 میں ووٹنگ مشین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا تھا جس نے الیکشن میں ایک امیدوار کو 4096 اضافی ووٹ دے دیئے۔ کچھ لوگوں نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ یہ بھی کمپیوٹر کے ساتھ ریڈی ایشن کے گڑبڑ کا نتیجہ تھا۔

2013 میں ایک ویڈیو گیمر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ سپر ماریو 64 گیم کے سپیڈ رنر کو بھی ایک عجیب خرابی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ گیمرکے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ ماریونے گیم میں اچانک ٹیلی پورٹ کیا۔ سپر ماریو کے سپیڈ رنر کے واقعے کے تجزیے سے سپیڈ رنر کے رویے کی کوئی تشریح سامنے نہ آ سکی اور اسی وجہ سے اس واقعے کے بارے میں بھی کائناتی ذرات کے گیم کارٹریج میں مداخلت کرنے کا امکان ظاہر کیا گیا۔

ابھی حال ہی میں اپریل 2022 میں موزیلا کے ایک سافٹ ویئر انجینئر، ٹریوس لانگ نے ایک بلاگ پوسٹ میں وضاحت کی کہ کمپنی اپنے فائر فاکس ویب براؤزر کے صارفین سے باقاعدگی سے جو ڈیٹا جمع کرتی ہے، اس کا بہت بڑا حصہ بعض اوقات غیر واضح غلطیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ٹریوس لانگ نے کہا کہ ان چھوٹی غلطیوں سے وابستہ ایک حالیہ بگ ایک جیو میگنیٹک طوفان سے ملتی جلتی ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’میں واقعی میں حیران ہونے لگا کہ کیا ہم اپنے ٹیلی میٹری ڈیٹا میں ان سنگل ایونٹ اپ سیٹس کے ذریعے ممکنہ طور پر کسی کائناتی واقعے کا پتہ لگا سکتے ہیں۔‘

چاہے تابکاری شعاعیں ان کے پیچھے ہو یا نہ ہو، ہم انٹرنیٹ کو براؤز کرتے وقت پلٹائے ہوئے بٹس کا سامنا کر سکتے ہیں۔ 2010 میں، آرٹیم ڈینابرگ نامی ایک سائبر سیکیورٹی محقق، نے اس کو محسوس کیا۔ اس نے کچھ ڈومین کے نام رجسٹر کیے جو مقبول ڈومینز سے ملتے جلتے تھے لیکن یو آر ایل میں ایک غلط کردار کے ساتھ۔

مثال کے طور پر بی بی سی ڈاٹ کام کو لے لیں۔ اگر آپ اسے غلط ٹائپ کرتے ہیں، تو آپ حادثاتی طور پر بی بی ایکس ڈاٹ کام بھی ٹائپ کر سکتے ہیں کیونکہ کی بورڈ پر ایکس سی کے پاس ہے۔ ۔ اس کا مطلب ہے کہ بائنری کوڈ میں کم از کم ایک بٹ جو ’bbc.com‘ میں ہر ایک حرف کی نمائندگی کرتا ہے غلط ہے۔ بائنری میں، حرف ’b 01100010 ہے جبکہ "c" "01100011" ہے۔ اگر آپ صرف ایک بٹس پلٹتے ہیں اور اسے 1 سے 0 کر دیں، پھر یہ ’بی‘ ہو جائے گا اور یہ بی بی بی ڈاٹ کام بن جائے گا۔

بٹس کے پلٹ جانے کا عمل ایسا نہیں جو خود کمپیوٹر استعمال کرنے والوں کو نظر آتی ہے،البتہ وہ اس کے نتائج کو محسوس کر سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کی میموری میں بٹس کو تھوڑا سا پلٹنا ہوتا ہے اور یو آر ایلکی پروسیسنگ میں، یہ مختلف مراحل پر ہو سکتا ہے، جیسے کہ جب آپ کا کمپیوٹر انٹرنیٹ پر ویب صفحہ کی درخواست کرتا ہے یا جب ویب سرور جس سے آپ جڑتے ہیں وہ اس درخواست کا جواب دیتا ہے۔

ایک بار جب ڈینابرگ نے جب تبدیل شدہ بٹس کے ساتھیو آر ایل رجسٹر کر لیا، تو وہ نتائج کا انتظار کرنے لگا۔وہ کہتے ہیں ’میرے لیے بڑی حیرت کی بات تھی کہ وہ تبدیل شدہ یو آر ایل کنکٹ ہونے لگے۔‘

دنیا کے بہت سے کمپیوٹرز میں سنگل بٹ کی غلطیاں ہوتی ہیں، یا بعض اوقات ایک سے زیادہ غلطیاں ہوتی ہیں، اور اگر وہ صحیح وقت پر صحیح جگہ پر ہوتی ہیں، تو وہ اس بات کو متاثر کر سکتی ہیں کہ آپ کا سافٹ ویئر کس ڈومین کو تلاش کر رہا ہے۔‘

مندرجہ بالا بیان کی گئی تمام مثالوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ان میں سے کسی کے پیچھے کوئی کائناتی ذرہ تھا۔ ڈینابرگ کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر میموری بگزبہت سارے کنکشن کے پیچھے ہوسکتے ہیں جو اس نے اپنے تجربے میں ریکارڈ کیے ہیں۔

اور پچھلے سال، سپر ماریو کی عجیب خرابی کا تجربہ کرنے والے محقق نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو پوسٹ کی۔

ویڈیو کا عنوان تھا ’کیا یہ واقعی ایک آئنائزنگ پارٹیکل تھا؟‘ ایسا لگتا ہے کہ اس نے مذاق میں یہ کہا ہے کہ یہ واقعہ گیم کی عام سی خرابی ہو سکتی ہے۔

ایک اور سپیڈ رنر جوpnenkoek 2012 کا نام استعمال کرتے ہیں نے ماریو گیم میں اچانک خرابی کی وجہ بتانے والے کو ہزار ڈالر دینے کی پیشکش کی تھی، انھوں نے بی بی سیفیوچر کو بتایاہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ماریوگیم میں خرابی کائناتی شعاعوں کے بجائے ہارڈ ویئر کی خرابی ہو سکتی ہے۔

بعض صورتوں میں، اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ڈیٹا موجود ہے کہ بٹس کے تبدیل ہونے کے وجہ کائناتی تابکاری تھی۔

محققین کے ایک گروپ نے حال ہی میں سیٹلائٹ کے مدار میں تقریباً دو سال کے دوران2,000 سے زیادہ بٹس غلطیوں کی تحقیقات کی۔ اس ٹیم نے 2020 میں اپنے تحقیق کے نتائج شائع کیے تھے۔ ڈیٹا کی غلطیاں سیٹلائٹ کی پرواز کے دوران خود بخود درست ہو گئی تھیں لیکن، اگر وہ اپنی جگہ پر رہتیں، تو وہ گاڑی کی پوزیشن کو غلط بیان کردیتی۔

سیٹلائٹ کے میموری ریکارڈز کا تجزیہ کرکے، محققین اس بات کی منصوبہ بندی کرنے کے قابل تھے کہ اس کے مدار کے دوران کب اور کہاں غلطیاں ہوئیں۔ ساؤتھ اٹلانٹک انوملی (SAA) کہلانے والے علاقے میں غلطیوں کی ایک بڑی تعداد میں ریکارڈکیا گیا تھا، جہاں زمین کی سطح کے اوپر کائناتی تابکاری زیادہ ہے۔

ناسا کے مطابق، خلائی شٹل پر موجود خلابازوں نے دیکھا کہ ان کے لیپ ٹاپ بعض اوقات کریش کر جاتے جب سیٹلائٹ ایس اے اے ایریا سے گزرتے تھے۔

لیکن یہ ثابت کرنا آسان نہیں کہ کمپیوٹرز میں اکا دکا غلطیوں کی وجہ کائناتی شعاعیں ہیں۔اٹلی کی ٹرینٹو یونیورسٹی کے پاولو ریخ کے لیے ہمارے اردگرد ایٹمی ذرات کا پھیلاؤ کوئی خبر نہیں۔ وہسپر ماریو جیسےواقعات کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ ثابت کرنا کہ اس کی وجہ کائناتی شعاعیں تھیں ممکن نہیں۔ لیکن وہ وضاحت کرتے ہیںکہ اس طرح کے ذرات سےکمپیوٹر سسٹمز میں ڈیٹا کی غلطیوں کا موجب بننے کا امکان موجود ہے۔

لیبارٹری کے تجربات میں، اس کے پاس کچھ ایسے آلات ہیں جو مصنوعی طور پر نیوٹران کو تیز کر سکتے ہیں تاکہ انھیں الیکٹرانکس کی طرف بھیجا جا سکے اور ذرات کے بہاؤ سے پیدا ہونے والی چھوٹی غلطیوں کا پتہ لگایا جا سکے۔

ریخ اور اس کے ساتھیوں کے ذہن میں ایک خاص مقصد ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر خود کار کاروں کے کمپیوٹر سسٹم کائناتی شعاعوں کی وجہ سے خراب ہو جائیں توکیا ہوگا۔ مثال کے طور اگر بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑی کے کیمرے سے تصویریں خراب ہو جائیں اور آن بورڈ کمپیوٹر گاڑی کے سامنے آنے والے شخص کو دیکھنے میں ناکام ہو جائے۔

ریخ اور اس کے ساتھی خود کار کاروں کے کمپیٹوٹرز میں ہونے والی غلطی کے امکان کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ ایسے پروگرام پر کام کر رہے ہیں کہ اگر خودکار گاڑی میں تصاویر کے خراب ہونے کےامکان کومصنوعی نیوٹرل نیٹ ورک کے ذریعے کم کیا جا سکے۔

تاہم ان کی تحقیق ابھی شائع نہیں ہوئی ہے اور اس کے بارے کچھ زیادہ بتانے سے قاصر ہیں۔

اس طرح کی کوششیں خود کار کاروں کو محفوظ بنا سکتی ہیں لیکن وہ کائناتی شعاعوں کے دیگر مسائل پیدا کرنے کے امکان کو ختم نہیں کریں گی۔ اور یہ بیمہ کنندگان کے لیے ایک دلچسپ مسئلہ پیدا کرتا ہے۔

ریخ کہتے ہیں کہ ’آپ یہ کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ خودکار گاڑی کو حادثہ کائناتی شعاعوں کی وجہ سے پیش آیا۔‘

ریخ کا کہنا ہے کہ، اصولی طور پر، یہ ممکن ہو گا کہ کسی کمپیوٹر سسٹم میں ڈیٹا بٹس کی غلطیوں کو ایک پارٹیکل ایکسلریٹر بنا کر کمپیوٹر کے میموری ماڈیولز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جائے۔

تابکاری کے قدرتی ذرائع سب سے اہم ہیں۔ اور جب کائناتی شعاعوں، یا خلائی موسم کی بات آتی ہے، تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ بالکل زمین کے موسم کی طرح ہےجہاں کبھی کبھی طوفان آتے ہیں۔

ستمبر 1859 کے اوائل میںاب تک کا سب سے شدید جیو میگنیٹک طوفان ریکارڈ کیا گیا۔ کیرنگٹن ایونٹ، جسے برطانوی ماہر فلکیات رچرڈ کیرنگٹن کے نام سے موسوم کیا گیا، شمسی شعلوں کی وجہ سے ہوا جس نے زمین کی طرف بڑی مقدار میں ذیلی ایٹمی ذرات پھینکے۔ جیو میگنیٹک سرگرمی کی وجہ سے انواری شعاعوں کے ناقابل یقین مظاہرے ہوئے اور بجلی کے تاروں میں چارجز پیدا ہوئے۔ کچھ ٹیلی گراف آپریٹرز نے اپنے آلات سے چنگاریاں پھٹتے ہوئے دیکھیں ۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی، ارونکی سنگیتا عبدو جیوتھی کہتی ہیں کہ اگر مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تو یہ کئی خطوں میں بجلی کی لائنوں اور انٹرنیٹ کیبلز کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ "یہ خطرہ بھی ہے کہ چارج شدہ ذرات ڈیٹا کے نظام میں خرابی کا باعث بن جائیں۔ وہ کہتی ہیں۔ "ابھی، نقصان کی حد اور اس کی پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔‘

یہ بھی پڑھیےزیادہ تابکاری خارج کرنے والے موبائل کون سے ہیں؟30 ستمبر کو انٹرنیٹ 'بلیک آؤٹ' جس سے متعدد فون اور کمپیوٹرز متاثر ہو سکتے ہیں خلاء میں مقناطیسی توانائی کا اخراج

کیلیفورنیا یونیورسٹی، ارون کے ڈینیئل وائٹسن بھی اس سےمتفق ہیں کہ اگر کیرنگٹن ایونٹ جیسا کوئی واقع ہوا تو وہ بہتپر "تباہ کن" ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں سورج کے اندر کی فزکس کے بارے میں ہماری سمجھ اتنی اچھی نہیں ہے کہ ہم اس قابل ہو سکیں کہ ہم شمسی توانائی کے اخراج کی پیش گوئی کر سکیں۔

ڈینیئل وائٹسن نے اور ساتھیوں نے لاکھوں سمارٹ فون کیمروں سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا ایک طریقہ تجویز کیا ہے جو کچھ ذیلی ایٹمی ذرات کے لیے حساس ہیںتاکہ برقی مقناطیسی مداخلت کی مثالوں کا پتہ لگایا جا سکے۔ اس سے ہمیں کائناتی شعاعوں کے پھیلاؤ اور نوعیت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے جو زمین پر ہم تک پہنچتی ہیں۔

برطانیہ کی لنکاسٹر یونیورسٹی میں مائیکل اسپینال اور ساتھیوں نے حال ہی میں برطانیہ میں نیوٹران مانیٹرنگ ڈیوائس بنانے کے منصوبے کے بارے میں بتایا ہے جس سے ہمارے ارد گرد گھومنے والے نیوٹرانوں کو ٹریک کرنے میں مدد ملے گی، وہ کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں 50 سے کم زمینی سطح کے نیوٹران مانیٹر کام کر رہے ہیں، ان میں سے ایک بھی برطانیہ میں نہیں ہے۔

برطانیہ میں نیوٹران مانیٹر سکاٹ لینڈ یا کارنوال میں بنایا جائے گا۔اگر نیوٹران مانیٹر کوتابکاری شعاعوں میں خطرناک اضافے کا پتہ چلتا ہے، تو اس طرح کی معلوماتمحمکہ موسمیات کو بھیجا جا سکتا ہے، جو پھر ہوابازی کے حکام کو ہوائی جہازوں کو گراؤنڈ کرنے یا دیگر احتیاطی اقدامات کرنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔

البتہ ان سب باتوں کو سیاق و سباق میں ڈالنا ضروری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کائناتی شعاعیں کمپیوٹر سسٹمز میں مستقل بنیادوں پر اہم خرابیوں کا باعث بن رہی ہیں۔ امریکہ میں کمپاس ڈیٹا سینٹرز کےمنیجر ٹونی گریسن کا کہنا ہے کہ انھوں نے صنعت میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کبھی تابکاری سے لاحق خطرے پر بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈیٹا میں چھوٹی بٹ لیول کی غلطیاں اکثر غیر اہم ہیں جو غلطیوں کی نشاندی کرنے والاخودکار نظام ہی درست کر سکتا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ کسی ڈیٹا سینٹر کو کائناتی شعاعوں سے محفوظ رکھنے کی کوششیں بہت مہنگی پڑ سکتی ہیں۔اس کا آسان اور سستا حلڈیٹا کا بیک اپ رکھناہے۔ گریسن کا کہنا ہے کہ اگر شدید جیو میگنٹک طوفان آ بھی جاتا ہے تو صارفین کو بیک اپ سرور پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔

لیکن کچھ ایپلی کیشنز کے لیے، کائناتی شعاعوں کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک جدید طیارے میں الیکٹرانکس کا ڈھیر ہوتا ہےجو پائلٹ کو جہاز کنٹرول کرنا میں مدد دیتا ہے۔ سیمی کنڈکٹر فرمکے فیلو ٹِم مورین کا کہنا ہے کہ بڑے ایرو اسپیس اور ڈیفنس مینوفیکچررز ایسے اجزاء استعمال کرتے ہیں جو مخصوص کائناتی شعاعوں کے اثرات کے خلاف مزاحم ہوتے ہیں۔ ان کی کمپنی ان پرزوں کی فراہمی کرنے والوں میں شامل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ نیوٹران کی وجہ سے ہونے والے سنگل ایونٹ کی پریشانیوں سے محفوظ ہے۔ہم اس سے متاثر نہیں ہوتے ہیں۔‘

مورین نے یہ واضح کرنے سے انکار کیا کہ ان کی فرم نے کمپیوٹر چپس تیار کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا ہے جو نیوٹران مداخلت سے متاثر نہیں ہیں۔ انھوں نے صرف یہ کہا کہ اس کا تعلق مواد اور سرکٹ ڈیزائن کے ساتھ ہے.

مورین کہتے ہیں کہ ہر ایپلیکیشن کو اعلی سطحی تحفظ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ مورین نے مزید کہا کہ ہر قسم کی کمپیوٹر میموری کے ساتھ یہ حاصل کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن ایسیتنظیموں کے لیے یہ اہم ہے جو طیاروں اورمصنوعی سیاروں کو ہمارے سروں پر رکھتے ہیں۔

وہ ٹیکنالوجی جس پر عملی طور پر اب ہم سب کا انحصار ہے اس سے وابستہ خطرات کی مختلف سطحیں ہیں۔ لیکن یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ جوں جوں نئی کمپیوٹر چپس میں ٹرانزسٹر اور سیمی کنڈکٹرز کے سائزچھوٹے ہوتے جا رہے ہیں، ان کے برقی مقناطیسی شعاعوں سے متاثر کے امکان بڑھتے جا رہے ہیں۔

ریخکہتے ہیں کہ جوں جوںکمپیوٹر چپس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو فونز سے لے کر واشنگ مشینوں تک کے آلات میں لگی ہیں، اس طرح ان چیپس کے کرپٹ ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

اس کے نتائج بظاہر سنگین ہو سکتے ہیں لیکن ابھی تک یہ جاننا مشکل ہے کہ یہ ہمیں یا جدید دنیا کو طاقت دینے والے نظاموں کو کس حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے۔ میری مو کے لیے، چھ سال قبل ایمسٹرڈیم جانے والی پرواز میں اس کے پیس میکر کے عجیب رویے نے اس آلے کے بارے میں علم میں اضافہ کیا جو اس کے دل کےلیے بہت اہم ہے۔ یہاں تک کہ اس نے پیس میکرز کی سائبر سیکیورٹی کے خطرات کے بارے میں تحقیق میں مدد کی۔.

اگر کوئی آوارہ نیوٹران ہی مو کے پیس میکر میں خرابی کا باعث تھا تو اس کے کئی ردعمل سامنے آئے۔ اس سے ہمیں ڈیٹا بٹس میں خلل کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا پتہ چلا۔

مو کہتی ہیں: ’دراصل میں بہت خوش ہوں، کہ میرے ساتھ یہ کچھ ہوا۔‘

زیادہ تابکاری خارج کرنے والے موبائل کون سے ہیں؟30 ستمبر کو انٹرنیٹ 'بلیک آؤٹ' جس سے متعدد فون اور کمپیوٹرز متاثر ہو سکتے ہیںکیا پاکستانی صارف ہیکرز کا آسان ہدف ہیں؟’زمین کے شمالی مقناطیسی قطب سرکنے کی گتھی سلجھ گئی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More