’عالمی معیار کی جیولین نہ ملنے‘ پر ارشد ندیم مقامی نیزے سے ٹریننگ پر مجبور

اردو نیوز  |  Mar 07, 2024

پاکستان کے سٹار جیولین تھروور ارشد ندیم نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں سات آٹھ برس سے عالمی معیار کی جیولین نہیں ملی اور پیرس اولمپکس کے لیے مقامی جیولین سے ٹریننگ کر رہے ہیں۔

جمعرات کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ارشد ندیم کا کہنا ہے کہ ’جو ورلڈ کی ایک جیولین تھی، وہ اب جواب دے چکی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ انٹرنینشل سٹینڈرڈ کی جیولین کا ہونا بہت ضروری ہے، اس سے کھیل میں بہتری آتی ہے اور ٹریننگ میں یکسانیت رہتی ہے۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ مقامی جیولین سے ٹریننگ کریں گے اور باہر جا کر انٹرنیشنل جیولین سے مقابلے میں شرکت کریں گے تو اس سے کارکردگی میں فرق پڑتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’مقامی اور غیرمعیاری جیولین سے ٹریننگ کے باعث انجری کا خطرہ ہے۔‘

’میں بائیں گھٹنے اور دائیں کہنی کے بعد پچھلے ماہ دائیں گھٹنے کی بھی سرجری کرا چکا ہوں۔‘

ارشد ندیم نے بتایا کہ ’عالمی معیار کی جیولین سات سے آٹھ لاکھ روپے کی آتی ہے، مقامی ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کی ملتی ہے لیکن اس کا معیار اچھا نہیں ہوتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عالمی مقابلوں کی تربیت کے لیے کم از کم پانچ چھ جیولینز ہونی چاہییں۔‘

ارشد ندیم نے اگست 2022 کی کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتا تھا (فوٹو: روئٹرز)ارشد ندیم نے انڈین کھلاڑی نیرج چوپڑا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میری اور ان کی ٹریننگ میں زمین آسمان کا فرق ہے، مجھے ٹریننگ کے لیے گراؤنڈ میسر نہیں، کبھی ایک ایونٹ ہوتا ہے اور کبھی دوسرا، اس لیے گراؤنڈز تبدیل کرنا پڑتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ ٹریننگ جاری نہیں رکھ پاتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلے ماہ کی سرجری کے بعد مں نے ری ہیب کے ساتھ ٹریننگ شروع کر دی ہے اور ایک ماہ تک ردھم میں آ جاؤں گا۔‘

انہوں نے پیرس اولمپکس کو اگلا ٹارگٹ قرار دیتے ئوے کہا کہ ’اس کے لیے دوسری مرتبہ کوالیفائی کیا ہے۔ اولمپکس سے قبل تیاری کے لیے ایک دو ایونٹ مل جائیں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ ٹریننگ کے لیے جنوبی افریقہ جا رہے ہیں۔

ارشد ندیم نے سات اگست 2022 کو کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتا تھا۔

 فائنل کے پانچویں راؤنڈ میں ارشد ندیم  نے 90.18 میٹر تھرو پھینکی تھی جو ایک نیا ریکارڈ تھا اور ان کے کیریئر کی سب سے بہترین تھرو بھی تھی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More