Reuters
غزہ میں امدادی قافلے کی طرف کھانے کی اشیا لینے کے لیے جانے والے 117 افراد کی ہلاکت کے بعد اقوامِ متحدہ کی جانب ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دوران زخمی ہونے والوں میں سے اکثر گولیاں لگنے کے باعث زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اس واقعے کے بعد امریکہ نے پہلی بار غزہ میں امداد ایئر ڈراپ کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مبصرین نے غزہ شہر میں الشفا ہسپتال کا دورہ کیا اور 200 افراد سے ملے جن کا وہاں علاج کیا جا رہا ہے۔
حماس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے عام لوگوں پر براہ راست فائرنگ کی تھی تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہاں اس کے فوجیوں کی جانب سے انتباہی فائرنگ کی گئی تھی جس کے باعث بھگدڑ کی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔
دنیا بھر سے رہنماؤں کی جانب سے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ واقعہ جمعرات کی صبح اس وقت پیش آیا جب سینکڑوں افراد ایک امدادی قافلے کے گرد موجود تھے جو اسرائیلی فوجیوں کے ہمراہ وہاں موجود تھا۔
خیال رہے کہ امریکہ کی جانب سے غزہ کے لیے طیاروں کے ذریعے امداد فراہم کرنے کا سلسلہ سنیچر سے شروع ہوا ہے اور 30 ہزار کھانے کے پیکٹ پیراشوٹس کے ذریعے تین جنگی طیاروں کے ساتھ بھیجے گئے ہیں۔
امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ آپریشن اردن کی ایئرفورس کے ساتھ مل کر کیا گیا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس امداد کے حوالے سے جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا اور یہ آئندہ بھی دی جاتی رہے گی۔
ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ شمالی غزہ میں کھانے پینے کی اشیا کی قلت کا خطرہ ہے جہاں حالیہ ہفتوں میں بہت کم امداد موصول ہوئی ہے اور اندازاً تین لاکھ افراد کو خوراک یا صاف پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
جائے وقوعہ سے لی گئی فوٹیج میں گولیوں کی بوچھاڑ سنی جا سکتی ہے اور لوگوں کو لاریوں پر چڑھتے اور گاڑیوں کے پیچھے چھپتے دیکھا جا سکتا ہے۔
غزہ کی وزارتِ صحت نے کہا ہے کہ اس واقعہ میں کم از کم 112 لوگ ہلاک ہوئے اور 760 زخمی ہوئے۔ آئی ڈی ایف کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگاری نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ دھکم پیل اور کچلے جانے کے باعث درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
آئی ڈی ایف کے لیفٹیننٹ کرنل پیٹر لرنر نے بھی برطانیہ کے چینل 4 نیوز کو بتایا کہ ’ایک بھیڑ نے قافلے پر دھاوا بول دیا‘ اور اسرائیلی فوجیوں نے ’چند انتباہی فائر کر کے بھیڑ کو محتاط طریقے سے منتشر کرنے کی کوشش کی۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم کے خصوصی مشیر مارک ریگیو نے سی این این سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کسی بھی طرح سے براہ راست ملوث نہیں تھا اور اس دوران چلائی گئی گولیاں ’فلسطینی مسلح گروہوں‘ کی جانب سے آئی تھیں۔ تاہم انھوں نے اس دعوے کے حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے کوآرڈینیٹر کے غزہ سب آفس کے سربراہ جارجیوس پیٹروپولوس نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ الشفا ہسپتال کا دورہ کیا جہاں انھیں بڑی تعداد میں لوگوں کو گولیاں لگنے کے باعث زخمی پایا۔
انھوں نے کہا کہ گولیاں لگنے کے باعث زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں نے ایسے افراد کا بھی علاج کیا تھا جو نیچے گرنے یا بھگدڑ کے دوران کچلے جانے کے باعث زخمی ہوئے تھے، تاہم انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ کون سا گروپ بڑا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ جن افراد کو گولیاں لگیں ان میں سے اکثر کو یہ زخم جسم کے اوپر اور نیچے والے حصے پر آئے۔ ایک مریض نے انھیں بتایا کہ اسے سینے میں گولی لگی اور اسے اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال آنا پڑا۔
پیٹروپولوس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عام طور پر اسرائیلی فوجی ہوا میں فائر کرتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ انھوں نے ہجوم میں اس جگہ فائرنگ کی جہاں سب سے زیادہ لوگ تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے اہلکار اس دوران موجود نہیں تھے اس لیے یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ وہاں اصل میں کیا ہوا تھا۔
الاودا ہسپتال کی نگران مینیجر ڈاکٹر محمد سالہا نے اس سے قبل بی بی سی کو بتایا تپا کہ ان کے پاس کل 176 زخمی آئے ہیں جن میں سے 142 گولیاں لگنے کے باعث زخمی ہوئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دیگر افراد ٹانگ ٹوٹنے کے باعث زخمی ہوئے۔
BBCعینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
ہسپتال میں ایک زخمی شخص نے بتایا کہ ’میں زخمیوں میں سے ایک ہوں، میں پورا دن الرشید سٹریٹ پر تھا تاکہ اپنے بچوں کے لیے کچھ خوراک حاصل کر سکوں۔ یہ جھوٹے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم امدادی سامان لے کر آئے ہیں ہم نے اپنے خون سے اس امداد کی قیمت چکائی ہے۔‘
وہاں امداد کے منتظر ایک شخص نے بتایا کہ ’غزہ کے کسی بھی دوسرے شہری کی طرح میں بھی یہاں موجود ہوں۔
’تمام لوگ یہاں آٹے کے حصول کے لیے آئے ہیں، اور مجھے یہ بولنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی کہ ہم قحط کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔‘
عینی شاہد کامل ابو نہل کا کہنا ہے کہ انھیں نہ صرف گولی لگی بلکہ ان پر ٹرک بھی چڑھ گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’جب انھوں نے (اسرائیلی فوج) فائرنگ بند کی تو ہم دوبارہ امدادی سامان لینے گئے، جب میں کچھ آٹا اور ڈبے والا دہی لے کر ٹرک سے اترا تو انھوں نے ہم پر گولی چلا دی۔ مجھے گولی لگی اور ٹرک ڈرائیور نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی اور ٹرک میری ٹانگ پر چڑھ گیا۔‘
Getty Images’خطرہ محسوس کرنے پر فوجیوں نے محدود ردِعمل دیتے ہوئے ان پر گولی چلائی‘
اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہیگری نے دعویٰ کیا کہ ’کچھ زور زبردستی کرتے ہوئے دھکے دے رہے تھے جبکہ دیگر غزہ کے لوگوں کو کچل کر ہلاک کر رہے تھے، امدادی سامان کو لوٹ رہے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس بدقسمت واقعے کے نتیجے میں درجنوں غزہ کے لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ’محتاط ہو کر چند انتباہی فائر سے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی‘ لیکن پھر وہ پیچھے ہٹ گئے، ’جب سینکڑوں، ہزاروں میں تبدیل ہو گئے اور حالات قابو سے باہر نکل گئے۔‘
وہ زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج قافلے کو اپنی منزل تک پہنچنے میں مدد کر رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’قافلے کی جانب کوئی اسرائیلی فوج کی طرف سے حملہ نہیں کیا گیا۔‘
آئی ڈی ایف کے ترجمان کے مطابق کچھ شہری انتباہی فائرنگ کے باوجود قریب ہی واقع چیک پوسٹ پر موجود اسرائیلی فوجیوں کی جانب بڑھے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطرہ محسوس کرنے پر فوجیوں نے ’محدود ردِعمل‘ دیتے ہوئے ان پر گولی چلائی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک فلسطینی عینی شاہد نے ہجوم اور ڈرائیوروں میں پائے جانے والے خوف و ہراس کے بارے میں بتایا جو آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مرنے والوں میں سے بیشتر کچلے گئے تھے۔
AFP’اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی اور امدادی ٹرک لاشوں کو کچلتے ہوئے نکل گئے‘
حماس نے ’ناقابل تردید‘ شواہد جیسے کہ ’شہریوں پر سیدھی گولی چلانا اور ان کے سر کا نشانہ لینا جس کا مقصد انھیں فوری قتل کرنا تھا‘ کا حوالہ دیتے ہوئے آئی ڈی ایف کے بیان کو مسترد کر دیا ہے۔
درجنوں زخمیوں کو تشویشناک حالت میں غزہ شہر میں واقع الشفا ہسپتال لایا گیا۔ تاہم، وہاں موجود طبی عملہ زخمیوں کی تعداد اور ان کی شدت سے نمٹنے میں ناکام رہا۔
ہسپتال میں اپنے دوست، تیمر شنباری، کی لاش تھامے بیٹھے ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے لیے آٹے کا تھیلا لینے کی امید میں نابلسی چوراہے پر گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی ’اور امدادی ٹرک لاشوں کو کچلتے ہوئے نکل گئے۔‘
دو ہسپتالوں، کمال عدوان اور العودہ، میں زیرِ علاج زخمیوں کے بارے میں وہاں کے حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر کو گولیاں یا چھرے لگنے کے زخم آئے ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں مقیم حماس مخالف فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اسرائیلی افواج پر ’گھناؤنے قتل عام‘ کا الزام لگایا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں اور ایک بار پھر ’فوری انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی‘ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی زمینی کارروائی کے پہلے مرحلے کا نشانہ بننے کے بعد شمالی غزہ کو بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کئی مہینوں سے یہاں امداد کی فراہمی بڑی حد تک منقطع ہے۔
گذشتہ ہفتے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا تھا کہ ان کو اس علاقے کو بھیجی جانے والی امدادی سامان کی ترسیل اس وقت روکنی پڑی جب تین ہفتوں میں پہلی بار وہاں جانے والے ان کے قافلے کو بھوکے لوگوں کے ہجوم نے ایک اسرائیلی چوکی کے قریب گھیر لیا تھا اور بعد ازاں غزہ شہر میں ان کو فائرنگ کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
منگل کے روز، اقوام متحدہ کے ایک سینیئر امدادی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً 576,000 افراد کو شدید خوراک کی قلت کا سامنا ہے، یہ آبادی کا کم و بیش ایک چوتھائی حصہ بنتا ہے جبکہ شمال میں دو سال سے کم عمر ہر چھ میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
وزارت صحت نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں شمالی غزہ کے ہسپتالوں میں پانی کی کمی اور غذائی قلت سے دس بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے عالمی دباؤ کے شکوے کے بیچ غزہ میں جنگ بندی کی امید، یہ معاہدہ کیسا ہو سکتا ہے؟غزہ میں 30 ہزار ہلاکتیں: اسرائیل کا حماس کے 10 ہزار جنگجو مارنے کا دعویٰ کتنا حقیقی؟خاندان کے 103 افراد کھونے والے فلسطینی نوجوان: ’میری بیوی جانتی تھی کہ وہ مر جائے گی۔۔۔ یہ ہماری آخری فون کال تھی‘نتن یاہو نے حماس کی مالی امداد روکنے کا موقع خود گنوایا: موساد کے سابق سربراہ کا الزام