87 یا 55: پی ٹی آئی قومی اسمبلی کے کن حلقوں میں دھاندلی کا دعویٰ کر رہی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Feb 20, 2024

پاکستان میں آٹھ فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کے بعد سے اب تک انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس عمل کی ابتدا الیکشن کی رات تحریک انصاف کی جانب سے اس دعوے کے ساتھ ہوئی تھی کہ اسے قومی اسمبلی کی 266 میں سے 150 نشستوں پر واضح برتری حاصل ہے۔

مزید دو دن گزرے تو تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام نتائج کے اعلان کے بعد اس دعوے کو ایک اور ہندسے کی شکل دی اور قومی اسمبلی کی 170 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا اگرچہ کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران 93 نشستوں پر کامیاب ٹھہرے تھے۔

ایک دن بعد پارٹی کے سینیئر رہنما بیرسٹر گوہر نے اس عدد میں مزید دس نشستوں کا اضافہ کرتے ہوئے 180 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا اور جمعہ 16 فروری کو ایک پریس کانفرنس میں دکھائے گئے چارٹ میں بھی کہا گیا کہ قومی اسمبلی کے 87 انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں مبینہ طور پر دھاندلی ہوئی اور تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدواران کو اصل نتائج کے برعکس شکست دلوائی گئی۔

تاہم اب جبکہ انتخابات کے انعقاد کو تقریباً دو ہفتے کا وقت ہونے کو ہے، تحریک انصاف ایسی کوئی حتمی فہرست سامنے نہیں لا سکی ہے جس میں ان 87 حلقوں کی تفصیلات موجود ہوں جن کے نتائج پر جماعت کو شک ہے۔

اس دوران سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز پر بیانات اور پریس کانفرنسز میں مختلف نشستوں کے حوالے سے موقف تو سامنے لایا گیا جبکہ ویب سائٹس پر مبینہ طور پر فارم 45 بھی پیش کیے گئے تاہم بی بی سی کی جانب سے تین بار رابطہ کرنے کے باوجود تحریک انصاف کی جانب سے اب تک جن نشستوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان کی تعداد 87 سے کہیں کم ہے۔

گذشتہ جمعے کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے 45 ایسی نشستوں کے اعداد و شمار فراہم کیے گئے جہاں اس کے مطابق مبینہ طور پر دھاندلی کے ذریعے نتائج تبدیل کیے گئے ہیں۔

بی بی سی کی جانب سے اس پریس کانفرنس سے قبل اور اس کے بعد بھی تحریک انصاف کے مختلف ذمہ داران سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا اور جواب میں جو فہرستیں مہیا کی گئیں ان میں موجود قومی اسمبلی کی ایسی نشستوں کی تعداد جن پر تحریک انصاف کے مطابق مبینہ طور پر دھاندلی ہوئی ہے، 55 سے زیادہ نہیں۔

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں 180 نشستیں جیتنے اور دو تہائی اکثریت کے دعوے کس بنیاد پر اور کیوں کیے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ سوال بھی اہم ہے کہ تحریک انصاف کے اس دعوے پر اگلا قانونی مرحلہ کیا ہے؟

تحریکِ انصاف کے دعوے کیا ہیں؟

10 فروری کو پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر علی خان نے ایک پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن پرپی ٹی آئی کی ’جیتی ہوئی نشستوں کو ہاری ہوئی نشستوں میں تبدیل کرنے‘ کا الزام عائد کیا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے قومی اسمبلی میں 170 سیٹوں پر برتری حاصل کر لی ہے جن میں 94 وہ ہیں جن کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے کیا گیا ہے جبکہ ان میں سے 22 سیٹیں ایسی ہیں جس میں تین اسلام آباد، چار سندھ اور باقی پنجاب کی ہیں جن میں فارم 45 کے مطابق ہم جیت رہے تھے لیکن بعد میں نتائج تبدیل کیے گئے۔‘

اسی روز شام کو پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ 60 سیٹیں ایسی ہیں جہاں پر پی ٹی آئی کو مبینہ دھاندلی کا سامنا رہا۔

انھوں نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’23 کے قریب نشستیں ایسی ہیں جن میں فارم فارم 45 کا نتیجہ فارم 47 میں جا کر تبدیل کر دیا گیا جبکہ 40 کے قریب ایسی ہیں جن پر پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 جاری نہیں کیے گئے اور ہمارے بندوں کو نکال دیا گیا جس کے بعد الیکشن کے ساتھ جو ہوا وہ آپ کو بھی پتا ہے، مجھے بھی پتا ہے۔‘

پی ٹی آئی کی جانب سے فارم 45 ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے جس پر فارم 45 کے ذریعے ان حلقوں کے اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں جن پر ان کے مطابق دھاندلی ہوئی ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق 87 ایسی نشستیں ہیں جن پر مبینہ طور پر دھاندلی کی گئی ہے، تاہم ان میں سے صرف 27 نشستوں کے فارم 45 اپ لوڈ کیے گئے ہیں اور باقی نشستوں کے مکمل اعداد و شمار موجود نہیں۔

ویب سائٹ پر موجود ایک نوٹ کے مطابق 'متعدد امیدوار اس وقت روپوش ہیں، ٹیکنالوجی سے محروم ہیں اور وہ اپنے فارم عوام کے ساتھ شیئر کرنے سے قاصر ہیں۔`

اسی طرح پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کردہ گوگل ڈرائیو لنک پر 50 نشستوں کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے جمعے کے روز اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں فارم 45 اور 47 میں کے اعداد و شمار کے فرق کے حوالے سے تفصیل سے بات کی گئی۔

تاہم اس پریس کانفرنس کے بعد پی ٹی آئی کی سینٹرل میڈیا ٹیم کی جانب سے شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 45 ایسے حلقوں کی تفصیلات شیئر کی گئیں ہیں جن میں پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ نتائج کو مبینہ طور پر تبدیل کیا گیا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران ترجمان رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ہم نے اس بارے میں 45 حلقوں کے نتائج کا تجزیہ کر لیا ہے اور باقی نتائج 24 گھنٹے کے اندر فراہم کر دیے جائیں گے تاہم تاحال یہ نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔

اس پریزینٹیشن میں ایک ایسا ٹیبل بھی موجود تھا جس میں پی ٹی آئی کی کل نشستوں کے اعداد و شمار اور صوبہ کی سطح پر قومی اسمبلی کی نشستوں کا بریک ڈاؤن موجود ہے۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس سے خیبرپختونخوا میں پانچ، اسلام آباد میں تین، پنجاب میں 60، سندھ میں 16 جبکہ بلوچستان میں تین نشستیں 'چھینی' گئی ہیں۔ یہ کل ملا کر 87 سییٹیں بنتی ہیں۔

’گمشدہ‘ حلقے

بی بی سی کی جانب پی ٹی آئی ترجمان رؤف حسن، پی ٹی آئی رہنما سیمابیہ طاہر (جو مقامی ہوٹل میں تقریب کے دوران پریزینٹیشن دیتے وقت سٹیج پر موجود تھیں) اور پی ٹی آئی کی سینٹرل میڈیا ٹیم سے بارہا پوچھا گیا کہ 87 میں سے 45 حلقوں کی تفصیلات تو دستیاب ہیں مگر وہ مزید 42 حلقے کون سے ہیں جن پر پی ٹی آئی دھاندلی کا دعویٰ کر رہی ہے، تاہم اس خبر کی اشاعت تک وہ یہ فہرست فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور یہی کہا جاتا رہا ہے کہ فی الحال نتائج مرتب کیے جا رہے ہیں۔

اس حوالے سے بی بی سی نے پی ٹی آئی کی جانب سے فراہم کی گئی تفصیلات اور جماعت کے رہنماؤں کی جانب سے دیگر دعووں کی بنیاد پر ایک فہرست تیار کی ہے جس میں 55 ایسی نشستوں کی نشاندہی ہوتی ہے جہاں الیکشن کے بعد سے اب تک پی ٹی آئی کی جانب سے دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اس فہرست می شامل تمام اعداد و شمار اس خبر کی اشاعت تک الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود فارم 47 کے اعداد و شمار کے ذریعے حاصل کیے گئے ہیں اور ان کی چیدہ چیدہ تفصیلات فراہم کی جا رہی ہیں۔

Getty Imagesپی ٹی آئی کی جانب سے جن نشستوں پر دھاندلی کا دعویٰ کیا گیا، ان کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

پی ٹی آئی کی جانب سے تاحال فراہم کردہ اور بی بی سی کی جانب سے جمع کردہ تفصیلات کے مطابق جن حلقوں میں دھاندلی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ان میں سے 29 پنجاب، 19 سندھ (جن میں سے 18 کا تعلق کراچی سے ہے) تین اسلام آباد، تین بلوچستان جبکہ ایک خیبر پختوخوا میں واقع ہے۔

پنجاب کے جن حلقوں کی نشاندہی تحریکِ انصاف کی جانب سے کی گئی ہے ان میں راولپنڈی ڈویژن کی 11 نشستیں بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ سنیچر کو راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر لیاقت چٹھہ کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کے دوران ان 11 نشستوں پر دھاندلی ہونے کا دعویٰ سامنے آیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

راولپنڈی ڈویژن میں جن نشستوں پر دھاندلی کا الزام لگا ہے ان میں ضلع راولپنڈی کی تمام چھ نشستوں کے علاوہ اٹک کی دو، جہلم کی ایک اور چکوال کی دو نشستیں بھی شامل ہیں

ان نشستوں کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو ان میں کامیاب ہونے والے اور ہارنے والے امیدوار کے درمیان ووٹوں کا فرق اوسطاً 10 سے 11 ہزار ووٹوں کے درمیان دیکھنے کو ملتا ہے تاہم یہاں مسترد کیے گئے ووٹوں کی تعداد اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔

مثال کے طور پر این اے 50 اٹک سے ہارنے والی امیدوار پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار ایمان وسیم ہیں جنھیں کل 109189 ووٹ ملے ہیں جبکہ ن لیگ کے ملک سہیل خان 119075 ووٹ ملے ہیں۔ یوں ملک سہیل کی برتری 9886 بنتی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری فارم 47 کے مطابق مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 9939 ہے۔

این اے 59 تلہ گنگ کم چکوال میں جیتنے والی امیدوار سردار غلام عباس نے 141680 ووٹ حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار رومان احمد نے 129716 ووٹ حاصل کیے۔ دونوں کے درمیان ووٹوں کا فرق 11964 ہے جبکہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 24547 ہے۔

راولپنڈی ڈویژن کے علاوہ ضلع لاہور کی پانچ نشستوں پر بھی دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ہیں جن میں سلمان اکرم راجہ کی نشست این اے 128 اور یاسمین راشد کی نشست این اے 130 بھی شامل ہیں تاہم ان حلقوں میں جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کے درمیان ووٹوں کا فرق بظاہر خاصا زیادہ ہے اور پی ٹی آئی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ نتائج میں تبدیلی فارم 47 میں کی گئی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق سلمان اکرم راجہ کو استحکام پاکستان پارٹی کے عون چوہدری جبکہ یاسمین راشد کو مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے شکست دی ہے۔

ملتان کی جن دو نشستوں پر پی ٹی آئی کی جانب سے دھاندلی کا دعویٰ کیا جا گیا ہے وہاں بھی جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کے درمیان ووٹوں کا فرق خاصا دلچسپ ہے۔

این اے 148 ملتان میں سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنے حریف اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار تیمور الطاف ملک پر صرف 293 ووٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی نے 67326 ووٹ حاصل کیے جبکہ تیمور الطاف ملک کو 67033 ووٹ ملے مگر اس حلقے میں بھی مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 12665 رہی ہے۔

این اے 151 میں بھی پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ مہربانو قریشی اور پی پی پی کے علی موسیٰ گیلانی کے درمیان ووٹوں کا فرق صرف 7431 ہے جبکہ مسترد شدہ ووٹ 16555 ہیں۔

گجرات کی دو نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ ق کے امیدوار چوہدری سالک حسین اور حسین الٰہی کامیاب ہوئے ہیں۔ حسین الٰہی این اے 63 سے کامیاب ہوئے ہیں اور انھیں اپنے حریف پر 6429 ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی اور اس حلقے میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 5631 رہی۔

اسی طرح این اے 106 ٹوبہ ٹیک سنگھ کا نتیجہ بھی دلچسپ ہے۔ یہاں مسلم لیگ ن کے جنید انور چوہدری نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار خالد نواز کو صرف 705 ووٹوں سے شکست دی ہے جبکہ یہاں مسترد شدہ ووٹ 7524 ہیں۔

اس کے علاوہ سیالکوٹ کی ایک نشست جہاں مسلم لیگ ن کےرہنما خواجہ آصف نے ریحانہ ڈار پر سبقت حاصل کی اور پھر گوجرانوالہ اور خوشاب کی ایک ایک قومی اسمبلی نشست بھی اس فہرست میں شامل ہے۔

سیالکوٹ میں خواجہ آصف این اے 71 پر پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدوار ریحانہ ڈار سے 19 ہزار ووٹوں سے فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے اس نشست پر بھی فارم 45 کے مقابلے میں فارم 47 میں نتائج کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔

Getty Imagesسندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے کون سے حلقے متنازع ہیں؟

تحریک انصاف کی جانب سے سندھ کی جن نشستوں کے بارے میں مبینہ دھاندلی کا دعویٰ کیا گیا ہے ان کی تعداد 19 ہے جن میں سے حیدر آباد کی ایک نشست جبکہ کراچی سے قومی اسمبلی کی 18 نشستیں شامل ہیں۔

ان میں سے چار نشستوں کے علاوہ، جن پر پیپلز پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا، باقی تمام پر ایم کیو ایم فتح یاب ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ یہ وہ قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں جن کا ریکارڈ تحریک انصاف کی جانب سے کسی نہ کسی شکل میں پیش کیا جا چکا ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود فارم سنتالیس کے مطابق ان میں سے کم از کم دو نشستوں پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔

کراچی کی نشستوں کے نتائج کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ این اے 235، این اے 236، این اے 237، این اے 239، این اے 240، این اے 241 اور این اے 244 پر ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواران کے درمیان کڑا مقابلہ ہوا۔

این اے 239 میں پیپلز پارٹی کے نبیل گبول تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد یاسر سے صرف 2843 ووٹوں سے جیتے جبکہ اس حلقے میں 2564 ووٹ مسترد ہوئے۔ اسی طرح این اے 240 میں ایم کیو ایم کے امیدوار ارشد وہرا صرف 3255 ووٹوں کی سبقت سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار پر بازی لے جانے میں کامیاب ہوئے۔

تحریک انصاف کی جانب سے جاری کردہ معلومات کے مطابق بلوچستان کی تین قومی اسمبلی کی نشستوں کے بارے میں بھی دعویٰ کیا گیا کہ یہاں مبینہ طور پر دھاندلی ہوئی۔ ان حلقوں کے نتائج کا جائزہ لیں تو یہاں جیت اور ہار کے درمیان فرق کے مقابلے میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے۔

مثال کے طور پر این اے دو سو باون جہاں مسلم لیگ ن کے یعقوب خان ناصر بابر خان موسی خیل سے صرف سات سو اکیانوے ووٹوں سے جیتے وہاں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد ایک ہزار تین سو چھیاسی ہے۔

اسی طرح خیبرپختونخوا میں حلقہ این 11 میں ن لیگ کے امیدوار امیر مقام کی فتح کے حوالے سے بھی تحریکِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ انھیں مبینہ طور پر دھاندلی کے ذریعے جتوایا گیا ہے۔ امیر مقام کو 59863 ووٹ پڑے جبکہ ان کے حریف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سید فرین کو 54311 ووٹ پڑے۔ یوں دونوں کے درمیان ووٹوں کا فرق 5552 رہا جبکہ مسترد شدہ ووٹ 5743 تھے۔

Getty Imagesالیکشن کمیشن کیسے تحقیقات کرے گا؟

تحریکِ انصاف نے تو چیف الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مبینہ دھاندلی کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاہم الیکشن کمیشن خود بھی انتخابی دھاندلی کی متعلق شکایات کی سماعت کے لیے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد کسی بھی حاضر سروس جج کا تقرر کر سکتا ہے۔

الیکشن ٹریبونل میں جمع کرائی گئی درخواست میں دھاندلی اور کسی بھی قسم کی کرپٹ پریکٹس کی حقائق پر مبنی تفصیلات درج کرنا لازمی ہوتی ہیں۔

اس پیٹیشن میں امیدوار کو دھاندلی میں ملوث افراد کے نام لکھنا ہوتے ہیں اور غیر قانونی عمل کا وقت اور تاریخ بھی درج کرنی ہوتی ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شکایات پر سماعت کے لیے بینچز تشکیل دے دیے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ کوئی بھی امیدوار انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق شکایت الیکشن کے دن سے 60 دن میں درج کروا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ الیکشن ٹریبونل کی ذمہ داری ہے کہ وہ شکایت پر فیصلہ 120 دن میں کرے لیکن اکثر و بیشتر ایسا نہیں ہوتا اور کیسز برسوں بھی چلتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں انتخابی امور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی و تجزیہ کار عبدالجبار ناصر کہتے ہیں کہ انتخابی عمل میں کسی بھی قسم کی بے ضابطگی کو چیلنج کرنے کا پہلا قانونی پلیٹ فارم الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے اور وہ چاہیں تو کسی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روک بھی سکتا ہے یا معاملہ ٹریبیونل کو بھیج سکتا ہے۔

الیکشن ٹریبونل کے کام پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ٹریبونل مکمل چھان بین کرتا ہے اور جاری کیے گئے نتائج کا آڈٹ کرتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'یہ جو فارم 45 کی بات ہو رہی ہے اس کی پوری چھان بین ہو گی کہ ریٹرننگ افسران کی جانب سے جاری کیے گئے فارم 45 اور وہ فارم 45 جو امیدوار لے کر ٹریبونل آ رہے ہیں وہ مماثلت رکھتے ہیں یا نہیں۔'

تاہم ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے اکثر اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہو جاتے ہیں اور پھر معاملات التوا کا شکار ہو جاتے ہیں۔

’فارم 45 کے مطابق جیت رہے تھے، فارم 47 آیا تو ہار گئے۔۔۔‘ الیکشن کمیشن انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیسے کرے گا؟عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور نتائج بدلنے کے الزامات: الیکشن فراڈ کیا ہے اور اس سے جمہوریت کو کیا خطرہ ہوتا ہے؟’یہ الیکشن پاکستان کرکٹ کے میچز جیسا ہے، آپ کو معلوم نہیں، اس سے کیا توقع کریں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More