پی ایس ایل کی شناخت کی جنگ؟: سمیع چوہدری کا کالم

بی بی سی اردو  |  Feb 17, 2024

Getty Imagesپی ایس ایل ٹیموں کے کپتان 13 فروری 2024 کو لاہور کے قذافی کرکٹ اسٹیڈیم میں پی ایس ایل ٹرافی کی نقاب کشائی کی تقریب کے دوران تصویر کھچواتے ہوئے۔

یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ نویں ایڈیشن کا آغاز جہاں بطور برانڈ پی ایس ایل کی بڑھتی قوت کی دلیل ہے، وہیں ٹی ٹونٹی فرنچائز مارکیٹ کی حالیہ افراط نے اس ہی سیزن کو پی ایس ایل کے لیے شناخت کی جنگ بھی بنا دیا ہے۔

ایک طرف یہ نوید ہے کہ پی ایس ایل اپنے حالیہ دو سالہ سائیکل کے میڈیا رائٹس کی ڈیل چھ ارب روپے سے زائد کی ریکارڈ قیمت میں فروخت کر چکی ہے تو دوسری طرف یہ شومئی قسمت بھی ہے کہ آج سے شروع ہونے والے سیزن کو نامور غیر ملکی سپر سٹارز کی ویسی چکا چوند میسر نہیں ہو گی جو سابقہ ایڈیشنز میں اس کی پہچان رہی ہے۔

فرنچائز سرکٹ کی کرکٹ دن بدن پھیلتی جا رہی ہے اور پہلے جہاں پی ایس ایل کو فروری مارچ کی ونڈو اکیلے راج کرنے کو میسر ہوا کرتی تھی، وہاں اب اس کا دامن تنگ ہوتا جا رہا ہے کہ آئی ایل ٹی ٹوئنٹی اور ایس اے ٹوئنٹی جیسی نئی لیگز اس کی ونڈو بانٹ رہی ہیں۔

اور پھر ان غیر ملکی لیگز کو نہ صرف بھارتی فرنچائز مالکان کی بے پناہ سرمایہ کاری میسر ہے بلکہ نامی گرامی بیٹنگ کمپنیز بھی ان کے سپانسرز اور ٹائٹل سپانسرز کی شکل میں خزانے کے منہ کھولے بیٹھی ہیں۔

غیر ملکی سپر سٹارز کو یقیناً وہ دونوں لیگز اس سے کہیں زیادہ مالی فائدہ پہنچا سکتی ہیں جو پی ایس ایل اپنی سکت میں رکھتی ہے۔ اور پھر پی ایس ایل کی یہ دشواری بھی ہے کہ یہاں مختص سیلری کیپ کے ساتھ ڈرافٹنگ پروسیجر کار فرما ہوتا ہے جبکہ دیگر فرنچائز لیگز کھلی بولی لگا کر کہیں زیادہ قیمت دینے کو آمادہ ہوتی ہیں۔

سو، اس بار پی ایس ایل اپنے جلوے کے لیے مکمل انحصار مقامی سٹارز اور نو آموز ٹیلنٹ پہ کرے گی کہ ڈرافٹنگ میں جو گنے چنے انٹرنیشنل سرکٹ کے نام دیکھنے کو ملے ان میں سے بھی لنگی نگدی، ریس ٹاپلی، راشد خان، نور احمد، ٹام کرن اور ونندو ہاسارنگا جیسے ٹی ٹونٹی کے جادوگر بوجوہ دستیابی سے قاصر ہیں۔

پی ایس ایل 9: سیاسی غیریقینی کے درمیان منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ سے کھلاڑیوں کو کیا امیدیں وابستہ ہیں؟پی سی بی کے خوابوں کا گھڑ سوار شہزادہ: سمیع چوہدری کا کالم’افتخار احمد بروئے کار آ گئے‘: سمیع چوہدری کا کالم

رہی سہی کسر پی سی بی کے انتظامی معاملات نے پوری کر چھوڑی ہے جہاں ایک برس سے زیادہ عرصے تک یہی غیر یقینی ختم نہ ہو پائی کہ ادارے کا سربراہ کون ہو گا۔ اب اس قدر ہڑبونگ میں یہی غنیمت سے کم نہ تھا کہ بہرحال سیزن التوا سے بچ گیا۔

چونکہ ہر فرنچائز مین سٹریم میڈیا پہ تشہیر کے لیے کسی نہ کسی میڈیا چینل سے جڑی ہوتی ہے اور سیزن کی ہائپ پیدا کرنے میں بنیادی ذمہ داری اس چینل کی ہوا کرتی ہے تو اس بار یہ بھی نہ ہو پایا۔

عام انتخابات کی گہما گہمی نتائج کے بعد ماند پڑنے کی بجائے مزید آگ پکڑ چکی ہے اور سکرینوں پہ اس قدر قابض ہو چکی ہے کہ اس شور شرابے میں کرکٹ کی بات سننے کو شاید کوئی اس طرح سے آمادہ بھی نہیں اور چیختے چنگھاڑتے اینکرز ہی مرکزِ نگاہ ہیں۔

اس سارے منظرنامے میں بہرحال ٹورنامنٹ کا شروع ہو جانا ہی بڑی بات ہے۔

اب نجانے پی سی بی اپنے تئیں اس سیزن کی کیا شکل طے کر بیٹھا ہے مگر برانڈ کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ یہ اپنی اصل شناخت سے جڑا رہے اور گزشتہ سیزن کے چوکوں چھکوں کی برسات کی بجائے بولرز کی لیگ بن کر ہی سامنے آئے جو اس کی اولین شہرت رہی ہے۔

اس ہنگامے کے پرے اگر فرنچائزز پہ نظر دوڑائی جائے تو کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اس بار نئے کپتانوں اور منیجمنٹ کے تحت میدان میں اتریں گے۔ تزویراتی لحاظ سے جو دماغ ان دونوں فرنچائزز کو میسر ہیں، وہ مسابقت میں مزید جان ڈال سکتے ہیں۔

لاہور قلندرز اگرچہ راشد خان کی دستیابی سے محروم ہیں مگر ان کا فاسٹ بولنگ کور یونٹ موجود ہے اور راشد خان کی غیر موجودگی میں ٹائٹل کا دفاع اگرچہ دقت طلب ہو گا مگر پرجوش کرکٹ بہرحال خارج از امکان نہیں ہے۔

پشاور کے ابھرتے ستارے صائم ایوب کے علاوہ فاسٹ بولر محمد ذیشان بھی نگاہوں کا مرکز رہیں گے جو حالیہ انڈر 19 ورلڈ کپ میں اپنی بولنگ کے جواہر پہ ایان بشپ سے خوب داد سمیٹ چکے ہیں۔

اور سب سے نمایاں تبدیلیاں اس بار اسلام آباد یونائیٹڈ کے سیٹ اپ میں ہوئی ہیں جنہوں نے اپنے فاسٹ بولنگ کے ذخائر بہت زرخیز کئے ہیں۔ نسیم شاہ کے علاوہ عبید شاہ اور حنین شاہ بھی اس فرنچائز کا حصہ بن چکے ہیں اور اگر شاداب خان اپنی اصل بولنگ فارم بحال کر پائے تو ٹائٹل ان سے بہت دور نہیں ہو گا۔

’یہ انٹرنیشنل کرکٹ ہے، کوئی فرنچائز لیگ نہیں‘: سمیع چوہدری کا کالم’یہ امتحان پی سی بی کے فیصلوں کا ہے‘: سمیع چوہدری کا کالم’وہ پانچ منٹ جب اُمید کا سفر تمام ہوا‘: سمیع چوہدری کا کالم
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More