’ٹینک بہت قریب ہے، مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔‘ کار میں چھپی فلسطینی بچی کی آخری کال جو فائرنگ کے دوران کٹ گئی

بی بی سی اردو  |  Feb 11, 2024

غزہ شہر سے گذشتہ ماہ لاپتہ ہونے والی ایک چھ سالہ بچی اپنے کئی رشتہ داروں اور انھیں بچانے کی کوشش کرنے والے دو طبی اہلکاروں کے ساتھ مردہ پائی گئی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے انھیں کہ اسرائیلی ٹینکوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا ہے۔

چھ سالہ ہند رجب کو اس وقت نشانہ بنایا گيا جب وہ اپنی چچی، چچا اور تین کزنز کے ساتھ کار میں شہر سے فرار ہو رہی تھیں۔

ہند اور ایمرجنسی کال آپریٹرز کے درمیان فون پر ہونے والی باتوں کی آڈیو ریکارڈنگ سے پتا چلتا ہے کہ کار میں صرف چھ سالہ بچی زندہ بچی تھی اور وہ اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کے درمیان اسرائیلی فورسز سے چھپ رہی تھی۔

ایک موقع پر وہ ایمرجنسی سروسز سے کہتی ہیں کہ ’ٹینک میرے سے کافی غریب ہے۔ وہ پاس آ رہا ہے۔۔۔ کیا آپ مجھے آ کر بچا سکتے ہیں؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘

ان کی التجا اس وقت ختم ہو گئی جب مزید فائرنگ کی آواز کے درمیان فون لائن کٹ گئی۔

فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی (پی آر سی ایس) کے پیرامیڈیکس سنیچر کے روز اس علاقے تک پہنچنے میں کامیاب رہے جسے ایک فعال جنگی زون ہونے کی وجہ سے پہلے بند کر دیا گیا تھا۔

انھیں موٹر کمپنی کِیا کی سیاہ کار نظر آئی جس میں ہند رجب اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔ اس کار کی ونڈ سکرین اور ڈیش بورڈ پاش پاش ہو گئے تھے اور گاڑی پر چہار جانب گولیوں کے سوراخ تھے۔

BBCہند کی سیاہ کیا کار بعد میں ملبے کا ڈھیر پائی گئی جس پر چاروں طرف گولیوں کے نشان تھے

ایک پیرامیڈیک نے صحافیوں کو بتایا کہ کار کے اندر سے ملنے والی چھ لاشوں میں ہند رجب کی میت بھی شامل تھی، جن میں سے سبھی پر گولیوں اور گولہ باری کے نشانات تھے۔

چند میٹر کے فاصلے پر ایک اور گاڑی پڑی تھی جو کہ مکمل طور پر جل چکی تھی۔ اس کا انجن نکل کر زمین پر پھیل گیا تھا۔ ہلال احمر کا کہنا ہے کہ یہ ہند رجب کو لانے کے لیے بھیجی گئی ایمبولینس تھی۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ رجب کو بچانے کے لیے روانہ کیا جانے والا ان کا عملہ یوسف الزینو اور احمد المدعون اس وقت مارے گئے جب ایمبولینس پر اسرائیلی فورسز نے بمباری کر دی۔

ایک بیان میں پی آر سی ایس نے اسرائیل پر ایمبولینس کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس گاڑی کو 29 جنوری کو جائے وقوعہ پر پہنچتے ہی نشانہ بنایا گیا۔

اس میں کہا گیا، 'قابض (اسرائیلیوں) نے جان بوجھ کر ہلال احمر کے عملے کو نشانہ بنایا، حالانکہ ان سے پیشگی تعاون حاصل کرنے کے لیے ایمبولینس کو جائے وقوعہ پر پہنچنے کی اجازت دی گئی تھی تاکہ بچی ہند کو بچایا جا سکے۔'

پی آر سی ایس نے بی بی سی کو بتایا کہ اسے ہند کو بچانے کے لیے پیرا میڈیکس بھیجنے میں کافی وقت لگے کیونکہ اسرائیلی فوج کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں کئی گھنٹے لگ گئے تھے۔

چار سال کے دو بچوں کی موت پر پراپیگنڈے اور الزامات کی جنگ کیسے لڑی گئی؟غزہ میں بچوں کی ہلاکتوں کو دنیا کیسے روک سکتی ہے؟’اس تصویر میں زیادہ تر بچے اب زندہ نہیں ہیں‘: غزہ پر حملوں میں ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگ کیوں مارے جا رہے ہیں؟

پی آر سی ایس کے ترجمان نیبل فرسخ نے رواں ہفتے کے شروع میں مجھے بتایا: 'ہمیں کوآرڈینیشن ملا، ہمیں گرین لائٹ ملی۔ ہمارے عملے نے وہاں پہنچنے پر اس بات کی تصدیق کی کہ انھیں وہ کار نظر آ رہی ہے جس میں ہند رجب پھنسی ہوئی تھیں، اور وہ اسے دیکھ سکتے ہیں۔ آخری بات جو ہم نے سنی وہ مسلسل فائرنگ تھی۔'

فون کال آپریٹرز کے ساتھ ہند کی بات چیت کی ریکارڈنگز کو فلسطینی ہلال احمر نے پبلک پلیٹفارم پر شیئر کیا ہے۔ جس کے بات اس بات کو جاننے کی ایک مہم چل پڑی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔

ہند کی ماں نے ہمیں بتایا کہ بیٹی کی لاش ملنے سے پہلے تک وہ 'ہر لمحے، ہر پل' اس کی آمد کی منتظر تھیں۔

اب وہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ اس کا احتساب ہونا چاہیے اور کسی نہ کسی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'میں ہر اس شخص کو جس نے میری اور میری بیٹی کی التجا سنی، پھر بھی اسے نہیں بچایا انھیں قیامت کے دن اللہ کے سامنے ان سے سوال کروں گی۔ میں نتن یاہو، بائیڈن اور ان تمام لوگوں کے لیے اپنی دل کی گہرائیوں سے بددعا کروں گی جنھوں نے ہمارے خلاف، غزہ اور اس کے لوگوں کے خلاف تعاون کیا ہے۔'

BBCبچانے کے لیے جانے والی ایمبولینس کے پراخچے اڑا دیے گئے

اس ہسپتال میں جہاں وہ اپنی بیٹی کی خبر کا انتظار کر رہی تھیں ہند کی والدہ وسام کے پاس اب بھی وہ چھوٹا سا گلابی بیگ ہے جو وہ اپنی بیٹی کے لیے رکھے ہوئے تھیں۔ اس بیگ کے اندر ایک نوٹ بک ہے جس میں ہند اپنی خوش خطی کی مشق کرتی تھیں۔

وہ پوچھتی ہیں: 'آپ اس درد کو محسوس کرنے کے لیے اور کتنی ماؤں کا انتظار کر رہے ہیں؟ اور کتنے بچوں کو مارنا چاہتے ہیں؟'

ہم نے دو بار اسرائیلی فوج سے اس دن علاقے میں ان کی کارروائیوں کے بارے میں تفصیلات جاننے کی کوشش کی اور ہند کے لاپتہ ہونے اور اسے بازیافت کرنے کے لیے بھیجی گئی ایمبولینس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں جانچ کر رہے ہیں۔

ہم نے ہفتے کے روز فلسطینی ہلال احمر کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر ان سے دوبارہ جواب طلب کیا ہے۔

جنگ کے اصولوں میں کہا گیا ہے کہ طبی عملے کو تحفظ دیا جانا چاہیے اور انھیں کسی تنازعہ میں نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اور یہ کہ زخمی افراد کو ممکنہ عملی حد تک اور کم سے کم تاخیر کے ساتھ ہی سہی وہ طبی دیکھ بھال فراہم کی جانی چاہیے جس کی انھیں ضرورت ہے۔

اسرائیل اس سے قبل حماس پر اپنے اسلحے اور جنگجوؤں کی نقل و حمل کے لیے ایمبولینس استعمال کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔

’اس تصویر میں زیادہ تر بچے اب زندہ نہیں ہیں‘: غزہ پر حملوں میں ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگ کیوں مارے جا رہے ہیں؟غزہ کے یتیم بچے:’میں نے اپنی ٹانگ اور اپنا خاندان کھو دیا لیکن میرے پاس اب بھی کچھ خواب موجود ہیں‘’ہر دس منٹ میں ایک بچہ ہلاک۔۔۔‘ اسرائیل غزہ جنگ اعداد و شمار کے حوالے سے کتنی ہولناک ہے؟ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے فلسطینی بچے: ’رہائی کے بعد میرا بھائی محمد وہ نہیں رہا جسے ہم جانتے تھے‘غزہ کے سہمے ہوئے بچے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More