Getty Images
بعید نہ تھا کہ دو ماہ پر محیط اس طویل دورے کا اختتام فتح کا ذائقہ چکھے بغیر ہی ہو جاتا اور تام جھام سے سجائے گئے نئے انتظامی فیصلے بھی یکسر رائیگاں قرار پائے جاتے، کہ افتخار احمد بروئے کار آ گئے۔
افتخار احمد کی بولنگ بھی عجب قصہ ہے کہ کپتان بھلے بابر اعظم تھے یا اب شاہین آفریدی ہیں، بولر افتخار احمد پر بھروسہ کرنے میں یکساں بخل سے کام لیتے ہیں اور انھیں آل راؤنڈر تسلیم کرنے سے انکاری نظر آتے ہیں۔
حالانکہ کبھی ایسا ہوا نہیں کہ کپتان نے جس مقصد کے تحت افتخار احمد کو گیند تھمائی ہو، وہ اس غایت کو نبھا نہ پائے ہوں۔ ون ڈے ورلڈ کپ میں جب بابر اعظم کو پہلے پاور پلے میں کوئی عافیت کا گوشہ نظر نہ آتا تو وہ افتخار ہی کو گیند تھما دیا کرتے۔
اور بطور آف سپنر افتخار احمد سے جو کنٹرول کپتان کو مطلوب ہوا کرتا، وہ مکمل نظم و ضبط سے فراہم بھی کیا کرتے۔ مگر پھر بھی عقدہ یہی رہا کہ ٹورنامنٹ کے کسی ایک میچ میں بھی ان کا کوٹہ پورا کروانے کی زحمت نہ کی جاتی۔
یہاں کرائسٹ چرچ میں بھی پوسٹ میچ تقریب کے میزبان مارک رچرڈسن متحیّر تھے کہ اگر افتخار احمد اس قدر موثر بولر ہیں تو اس سیریز میں پہلے بولنگ کرتے کیوں نہیں دکھائی دیے اور کیا وہ مستقبل میں بھی یہ کردار نبھائیں گے؟
یہ شاہین آفریدی کی قائدانہ صلاحیتوں پر بھی بہرحال ایک سوالیہ نشان ضرور ہے کہ جب پچھلے چاروں میچز میں ان کے ریگولر بولرز کوئی بریک تھرو تو دور، کنٹرول تک فراہم کرنے سے قاصر تھے تو افتخار احمد نظرِ التفات کے مستحق کیوں نہ سمجھے گئے۔
حارث رؤف کے لیے ورلڈ کپ کے بعد یہ سیریز بھی ایک ڈراؤنا خواب رہی ہے۔ پچھلے میچز میں جب وہ پے در پے کیوی بلے بازوں کے عتاب کا نشانہ بن رہے تھے تو بھی شاہین نے اپنے طے کردہ منصوبوں سے قدرے انحراف کر کے افتخار احمد پر بھروسہ کرنے کا کیوں نہ سوچا؟
ڈونیڈن اور ہیملٹن کے بعد، کرائسٹ چرچ میں آتے ہی کیوی کرکٹ کنڈیشنز کا حلیہ بھی کچھ بدلا ہے اور بالآخر سیریز کے اختتامی مراحل میں آ کر ہی ایک ایسا میچ دیکھنے کو ملا جس میں اگرچہ چوکوں چھکوں کی برسات تو نہ تھی مگر یہ پچھلے تمام دھواں دھار میچز سے زیادہ دلچسپی کا سامان لیے ہوئے تھا۔
شاہین کی قیادت میں بھی ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملی کہ بطور بولنگ کپتان انھوں نے اپنے بولنگ اٹیک پر اعتماد کا اظہار کیا اور ٹاس جیت کر ہدف کے دفاع کا فیصلہ کیا۔ بہرحال یہ بھی بہتری کی سمت ایک قدم تھا۔
اور پھر پچ بھی ان کے اس فیصلے کی تائید کرتی دکھائی دی کہ دن کے کھیل میں اس استعمال شدہ پچ کا دوسری اننگز میں سست تر ہو جانا یقینی تھا۔ ویسا ہی ہوا اور تمام بلے باز پچ کی رفتار سے جھوجھتے نظر آئے۔
پاکستان کے لیے اس دورے سے ایک اور مثبت پہلو عباس آفریدی کی دریافت ہے جنھوں نے ثابت کیا کہ وہ ڈومیسٹک اور فرنچائز سرکٹ میں کامیابی کے بعد انٹرنیشنل لیول پر بھی دباؤ کو جھیل سکتے ہیں اور اپنے اعصاب سنبھال سکتے ہیں۔
مگر جہاں تک بات ہے اس تجربہ سازی کے وسیع تر نتائج کا، کہ ورلڈ کپ کے تناظر میں پاکستان کے لیے اپنے حتمی سکواڈ کے وسائل طے ہو سکیں، اس میں بہرحال یہ دورہ کوئی مدد فراہم نہیں کر پایا۔
اوپننگ کمبینیشن ابھی بھی طے ہونے کی منزل سے کوسوں دور ہے کیونکہ ایک ممکنہ اوپنر محمد حارث کو اس سیریز سے 'آرام' دیا جا چکا تھا۔ مڈل آرڈر کے سوال ابھی بھی وہیں کھڑے ہیں کہ اعظم خان اور نہ ہی صاحبزادہ فرحان ان کا کوئی جواب دے پائے ہیں۔
بحیثیت مجموعی یہ دورہ پاکستان کے لیے کہیں بھی ثمر آور نہیں رہا کہ فتح پاس پھٹک کے نہ دی اور نئی منیجمنٹ کے نئے فیصلے بھی یاوری کرنے سے قاصر رہے، تا آنکہ افتخار احمد بروئے کار آئے اور ایک آخری میچ کی فتح کا دلاسہ میسر ہو پایا کہ اب اس ساری تگ و دو کو لغوی طور پہ لاحاصل بھی نہیں کہا جا سکتا۔