Getty Images
پہیہ پھر سے ایجاد کرنے کی کوشش میں اب پاکستان کرکٹ کی گاڑی ہی جام ہو چکی ہے۔ وہ استحکام اور تسلسل جو کچھ ماہ پہلے تک، اس الیون کا خاصہ ہوا کرتا تھا، اب قصۂ پارینہ معلوم ہوتا ہے۔
اب بظاہر ایک اضطراب سا طاری ہے جہاں بے سبب ہاتھ پیر مارے جا رہے ہیں اور یہ تمام سعی بالآخر لاحاصل رہ جاتی ہے کیونکہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ اس ساری کھوج کا حتمی مقصد کیا ہے۔
وقت آن پڑا ہے کہ اس نئی دقت کا حل تلاش کرنے کو شماریات کے ان سبھی ماہرین کی ایک گول میز کانفرنس بلوائی جائے جو ہر فتح کے بعد بھی بابر اعظم اور محمد رضوان کے سٹرائیک ریٹ کا متنجن پکا کر سوشل میڈیا پر ہاتھوں ہاتھ بیچا کرتے تھے۔
اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ کپتان بدلنے اور منیجمنٹ بدلنے سے فخر زمان بلا پکڑنا ہی بھول گئے ہوں یا افتخار احمد کی ساری قوت ماند پڑ گئی ہو۔ لیکن جو بدلاؤ بہرطور آیا ہے، وہ اس سوچ میں آیا ہے جس کے زاویے سے یہ ٹیم اب کھیل کو دیکھنے لگی ہے۔
اوروں کے گالوں کی سرخی پر رشک کرتے ہوئے اپنے منہ پر طمانچے رسید کرنے کا انجام یہ ہوا ہے کہ کوئی ایک بھی بلے باز اپنے فطری کھیل کو فوقیت دینے پر مائل نہیں اور تھنک ٹینک کی مسلط کردہ سوچ کے تحت ہر گیند کو باؤنڈری پار پھینکنے کی کوشش میں مگن ہے۔
گذشتہ میچ کے بعد بیٹنگ کوچ ایڈم ہولیوک یہ فرماتے پائے گئے کہ مڈل اوورز کی پاکستانی بیٹنگ ان کے لیے ایک معمہ بنتی جا رہی ہے۔ وہ شاید اس امر سے واقف نہیں کہ مڈل اوورز کی بیٹنگ میں استحکام تبھی تھا جب بابر اور رضوان میں سے کوئی ایک ڈیتھ اوورز تک اپنا کنارہ سنبھالے رکھتا تھا۔
Getty Images
لیکن اب ہر کوئی ہر گیند باؤنڈری پار پھینکنے کی کوشش میں سرگرداں ہے، جو کہ تبھی ممکن ہے جب حریف بولرز کے ہاتھوں میں چھالے پڑ چکے ہوں اور فیلڈرز کے ہاتھوں میں سوراخ ہو چکے ہوں۔ بہرحال یہ انٹرنیشنل کرکٹ ہے، کوئی فرنچائز لیگ نہیں کہ جہاں حریف بولنگ میں ایک دو آسان اہداف میسر ہو جائیں۔
یہ بابر اعظم کا فطری کھیل نہیں کہ وہ آتے ہی 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لپکتی شارٹ پچ گیند کو مڈ وکٹ کے اوپر سے چھکا لگانے کی کوشش کریں۔ مگر داد ہو ان ’صحافیوں‘ اور ’تجزیہ کاروں‘ کو، کہ جن کا رسوخ اب ڈریسنگ روم میں گونجنے لگا ہے اور بابر ہی کیا، سبھی بلے باز اپنی رفتار سے دو قدم آگے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پہلے تین میچز کے برعکس کرائسٹ چرچ کا گراؤنڈ اور وکٹ بلے بازی کے لیے آسان نہ تھے، وکٹ میں کچھ گرفت بھی تھی اور باؤنڈریز کی طوالت بھی خاصی تھی۔ اس پر کیوی بولرز ٹیسٹ کرکٹ کی سی ہارڈ لینتھ بولنگ پر بھی کاربند تھے۔
یہاں اگر دو بلے باز بھی ویسی اننگز جمانے کی کوشش کرتے جو محمد رضوان نے کی، تو معاملہ مختلف ہو سکتا تھا کہ لمبے شاٹس کھوجنے کی بجائے سٹرائیک روٹیشن پر دھیان رہتا اور ایک مسابقتی مجموعہ بورڈ پر سج پاتا۔
مگر جارحیت پر عمل پیرا بیٹنگ لائن جس مجموعے تک رینگ پائی، وہ اس پچ کے مسابقتی مجموعے سے کوئی بیس رنز کم تھا اور اس کے دفاع کو بولنگ میں بھی کسی معجزے کی ہی ضرورت تھی۔
وہ ذرا سا معجزہ اگرچہ برپا بھی ہوا اور کیوی ٹاپ آرڈر بالکل اوسان کھو کر ہر گیند پر بلا گھماتے شاہین آفریدی کا شکار ہو بیٹھا۔ مگر جونہی گیند کی دمک ماند پڑی، یہ ہدف کیویز کے لیے تر نوالہ ثابت ہوا۔
سیکھنے کو ڈیرل مچل اور گلین فلپس کی اس ساجھے داری میں بہت کچھ تھا کہ اگر سٹرائیک ریٹ کی بحث کو کچھ دیر طاق پر رکھ کر، میچ کی صورتحال کو ملحوظ رکھ لیا جائے تو ہاری ہوئی بازی کا پانسہ پلٹتے بھی دیر نہیں لگتی۔
مگر شاید، خوش قسمتی سے، کیویز کو ایسے بارسوخ صحافی اور مبصرین میسر نہیں جو بتلا پائیں کہ پہلی تیس گیندوں پر مچل اور فلپس کا سٹرائیک ریٹ عالمی معیارات سے کس قدر کم تھا اور کیوی کرکٹ کی بہبود کے لیے ان دونوں کو ٹیم سے بے دخل کرنا کتنا ناگزیر ہے۔