لندن کے گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال میں زیرِ علاج 11 سالہ آرتھر بلڈ کینسر کا شکار ان چند بچوں میں سے ایک ہیں جن کو کینسر کی ایک نئی دوا دی گئی، جو کیمو تھراپی سے کہیں کم زہریلی اور کم تکلیف دہ ہے۔
آرتھر کے گھر والوں نے بھی اس دوا کے استعمال پر خوشی کا اظہار کیا کیونکہ ان کے مطابق اس سے آرتھر کی تکالیف میں کسی واضح اضافے کے بغیر ان کی حالت میں کافی بہتری آئی۔
اس دوا کے بعد آرتھر پہلے سے زیادہ وقت گھر پر گزارنے لگے کیونکہ کیمو تھراپی کے برعکس جو صرف ہسپتال میں ہو سکتی ہے، یہ دوا کہیں بھی دی جا سکتی ہے۔
جب کیمو تھراپی سے آرتھر بہت کمزور ہو گئے اور ان کا کینسر بھی مکمل طور پر ٹھیک نہ ہو سکا تو ان کے لیے ’بلائینا تو موماب‘ جس کو ’بلائینا‘ بھی کہا جاتا، آخری حل تھا۔
بلائینا پہلے ہی کینسر کے شکار بالغ افراد کو دی جا رہی ہے۔ ماہرین کو امید ہے یہ دوا بچوں میں بھی محفوظ طریقے سے مددگار ثابت ہو گی۔
برطانیہ کے تقریباً 20 ہسپتالوں میں یہ دوا بی سیل ایکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا کے شکار بچوں کو دی جا رہی ہے۔
بلائینا ایک امیونو تھراپی ہے جو کینسر کے خلیات کی نشاندہی کرتی ہے تاکہ جسم کا اپنا مدافعتی نظام ان خلیات کو پہچان کر ان کا سدِباب کر سکے۔
کیموتھراپی کے برعکس اس علاج میں صحت مند خلیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
بلائینا مائع کی شکل میں تھیلے میں آتی ہے جسے ایک باریک پلاسٹک ٹیوب کے ذریعے مریض کے بازو کی رگ میں لگا کر دیا جاتا ہے۔
بیٹری سے چلنے والا ایک پمپ یہ کنٹرول کرتا ہے کہ مریض کو کتنی دوا دی جا رہی ہے اور دوا کا ایک بیگ کئی روزتک چل سکتا ہے اور کیونکہ یہ پورا سیٹ ایک چھوٹے سے بیگ میں آجاتا ہے اس لیے اس کو با آسانی کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے۔
اس دوا سے علاج کے لیے ہسپتال نہیں جانا پڑتا اور کیموتھراپی کے برعکس، اس طریقہِ علاج سے مریض میں کمزوری بھی نہیں ہوتی۔
BBCآرتھر نے صحتیاب ہو کر واپس سکول بھی جوائن کر لیا ہےایک مسلسل چیلنج
آرتھر کو بھی کئی دوسرے مریضوں کی طرح بلائینا سے پہلے مختلف ادویات دی گئیں تاکہ ان کو اس دوا سے کوئی ری ایکشن نہ ہو۔
ابتدائی طور پر آرتھر کو کئی بار بخار چڑھا اور کچھ روز ہسپتال میں بھی رہنا پڑا مگر جلد ہی وہ گھر جانے کے لائق ہو گئے لیکن آرتھر کو یہ بیگ ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا پڑا حتٰی کہ سوتے وقت بھی۔ دوا کا پمپ تھوری آواز تو پیدا کرتامگر آرتھر کو رات بھر پر سکون نیند مل جاتی۔
آرتھر کی والدہ سنڈرین کہتی ہیں کہ کیموتھراپی ان کے بیٹے کے لیے کافی مشکل مرحلہ تھا مگر بلائینا راحت کا سبب بنی۔
وہ کہتی ہیں کہ کیموتھراپی ان کے لیے ایک مسلسل چیلنج تھا کیونکہ اس سے آرتھر کے جسم کو تکلیف ہو رہی تھی۔
’ہمیں اس کا علاج کرنے کے لیے اس کو تکلیف میں ڈالنا پڑ رہا تھا اور یہ ایک بہت مشکل کام تھا۔‘
آرتھر کو ہر چوتھے دن ہسپتال جانا پڑتا تاکہ ڈاکٹرز بلائینا کا تھیلا واپس بھر سکیں مگر باقی دن وہ گھر پر رہ پاتے۔
سنڈرین کا کہنا ہے کہ آرتھر نے اس علاج کو پوری طرح سے قبول کر لیا۔ ’اسے اس بات کی خوشی تھی کہ وہ اس کو تھام سکتا تھا اور اس کا ذمہ دار تھا۔‘
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بلائینا 80 فیصد تک کیموتھراپیکے متبادل کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔
ہر سال برطانیہ میں تقریباً 450 بچوں میں بی سیل ایکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا کی تشخیص ہوتی ہے۔
پروفیسر اجے وہڑا کا کہنا ہے کہ کیمو تھراپی ایک طرح کا زہر ہوتا ہے جو کینسر خلیات کو ختم کرنے کے ساتھ صحتمند خلیات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے لیکن س کے مقابلے میں بلائینا توموماب کہیں کم تکلیف دہ طریقہ علاج ہے۔
ایسی ہی ایک اور امیونوتھراپی دوا، کمیرک اینٹی جین ریسیمٹر ٹی سیل تھراپی بھی اب استعمال کے لیے دستیاب ہے مگر یہ بلائینا سے زیادہ مہنگی ہے اور اس کے لیے مریض کے اپنے خلیات استعمال ہوتے ہیں۔
ان خلیات پر لیب میں ردوبدل کر کے واپس انھی خلیات کو دوا کے طور پر مریض کو لگایا جاتا ہے۔ اس سارے کام میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔
ان سارے علاج کی بدولت آرتھر کو کینسر سے نجات مل گئی ہے۔
سنڈرین کہتی ہیں کہ ان کے لیے تو نیا سال اس دن تھا جس دن ان کو یہ پتا لگا کہ آرتھر کینسر سے مکمل طور پر صحتیاب ہو گیا۔’یہ ہمارے لیے دُگنی خوشی کا موقع تھا۔‘