خوشی کے موقع پر کچھ میٹھا ضرور کھائیں، لیکن ہوشیار رہیں کیونکہ میٹھا خوشیاں چھین بھی سکتا ہے

بی بی سی اردو  |  Jan 17, 2024

Getty Images

خوشی کے موقع پر کچھ میٹھا کھائیں، لیکن ہوشیار رہیں، میٹھا کھانا آپ سے آپ کی صحت اور خوشیاں بھی چھین بھی سکتا ہے۔

دہلی میں رہنے والی 15 سالہ ریا (فرضی نام) پگمنٹیشن (یعنی گردن، بغلوں اور انگلیوں کے جوڑوں کی جلد پر سیاہ رنگ کے نشان) کے مسئلے کا شکار تھیں۔

ڈرماٹولوجسٹ یعنی جلد کی امراض کے ماہر ڈاکٹر نے انھیں ایک دوسرے متعلقہ ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا اور جب ریا کا معائنہ کیا گیا تو ان کے خون میں نہار منہ یعنی خالی پیٹ شوگر کی سطح 115 اور ناشتے کرنے کے بعد 180 پائی گئی۔

ڈاکٹروں کے مطابق خالی پیٹ خون میں شوگر کا 100 تک اور ناشتے کے بعد 140 تک ہونا نارمل سمجھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر سریندر کمار، جو ریا کا علاج کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’ریا جنک فوڈ کھاتی تھیں اور اُن کے خاندان میں ذیابیطس کے مریض بھی تھے۔ وہ ورزش بھی نہیں کرتی تھیں۔ اور اگر والدین کو ذیابیطس ہو تو بچے میں اس کے ہونے کا 50 فیصد امکان ہوتا ہے۔‘

معروف امریکی ڈاکٹر رابرٹ لسٹیگ، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پیڈیاٹرک اینڈو کرائنولوجسٹ اور ’شوگر، دی بِٹر ٹروتھ‘ کے مصنف، کہتے ہیں کہ عمومی طور پر وہ بیماریاں جنھیں بڑی عمر کے ساتھ منسلک کیا جاتا تھا اب بچوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔

Getty Images

وہ کہتے ہیں، ’آج کل یہ دیکھا جا رہا ہے کہ بچے بھی انھی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ بڑی عمر میں ہی ہوتی ہیں جیسا کہ ٹائپ 2 ذیابیطس اور فیٹی لیور۔‘

اعداد و شمار کے مطابق اب امریکہ میں 25 فیصد بچوں کے جگر میں چربی کا مسئلہ ہے، حالانکہ بچے شراب نوشی جیسی لت میں مبتلا نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر رابرٹ لسٹگ کہتے ہیں کہ ’یہ دیکھا جا رہا ہے کہ پہلے بچوں کو اتنی مقدار میں چینی یا شوگر سے بنی مصنوعات جیسے کینڈی اور چاکلیٹ وغیرہ نہیں ملتی تھیں جتنی اب مل رہی ہیں۔ اب انھیں یہ سب بہت آسانی سے مل جاتا ہے۔‘

کھانے کی اشیا میں تین اجزا ہوتے ہیں: کاربوہائیڈریٹس، چکنائی اور پروٹین۔ انسانی جسم کو توانائی کے لیے کاربوہائیڈریٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ کاربوہائیڈریٹ قدرتی طور پر کئی قسم کے کھانے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ زیادہ تر پھلوں میں پائے جاتے ہیں اور شوگر بھی ایک کاربوہائیڈریٹ ہے۔

چینی کے علاوہ جب دوسرے سادہ کاربوہائیڈریٹس جیسے چاول یا آٹا بھی ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو ہماری آنتیں انھیں توڑ کر ان سے گلوکوز حاصل کرتی ہیں۔

یہ گلوکوز جسم میں ایندھن کا کام کرتا ہے اور توانائی بھی فراہم کرتا ہے۔

انسولین مزاحمت کے بارے میں بتاتے ہوئے، ممبئی کے ذیابیطس کیئر سینٹر میں ڈاکٹر راجیو کوول اور ڈاکٹر سریندر کمار کہتے ہیں کہ انسولین ہارمون ہمارے جسم میں ایک ڈرائیور کا کام کرتا ہے۔ یہ گلوکوز کو گردے اور دل سمیت دیگر اعضا کے خلیوں تک پہنچاتا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب انسولین کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو یہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔‘ ایسی حالت میں گلوکوز دوسرے آپشنز کے ذریعے داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے جس سے خلیات میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں گلوکوز جسم میں چربی کی صورت میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر مسائل ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

ڈاکٹرز کے مطابق اس کی وجہ سے جسم میں شوگر لیول بڑھنے لگتا ہے اور کئی طرح کی بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں۔

جس کی وجہ سے ذیابیطس، بلڈ پریشر، دل کے امراض حتیٰ کہ کینسر کا خطرہ بھی رہتا ہے۔

شوگر کیا ہے؟Getty Images

سر گنگا رام ہسپتال کے شعبہ اینڈو کرائنولوجی اینڈ میٹابولزم کے ڈاکٹر سریندر کمار بتاتے ہیں کہ شوگر کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔

وہ چینی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اسے پراسیس کر کے گنے سے بنایا جاتا ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ کیلوریز اور مٹھاس ہوتی ہے۔ اسے سوکروز بھی کہا جاتا ہے۔

شوگر کی دیگر اقسام گلوکوز، لییکٹوز، سوکروز اور فرکٹوز ہیں۔

ڈاکٹر سریندر کمار کہتے ہیں کہ ’پھلوں میں گلوکوز اور فریکٹوز زیادہ ہوتے ہیں۔‘ دودھ اور پنیر جیسے دودھ کی مصنوعات میں لییکٹوز پایا جاتا ہے۔ اسی طرح شہد اور پھلوں میں گلوکوز پایا جاتا ہے اور یہ نقصان دہ نہیں ہے۔

اس کے ساتھ ہی وہ چیزیں جن میں پروسیسڈ شوگر یعنی سوکروز ڈالا جاتا ہے اگر اسے زیادہ مقدار میں لیا جائے تو یہ نقصان کا باعث بنتی ہے۔

کتنا فائبر ہونا چاہیے؟

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ قدرتی شوگر والی غذاؤں کو ترجیح دی جانی چاہیے، کیونکہ یہ ہمیں زیادہ غذائیت فراہم کرتی ہیں۔ جب کہ پھلوں اور سبزیوں میں فائبر، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جبکہ ڈیری مصنوعات سے پروٹین اور کیلشیم ملتا ہے۔

برصغیر کے لوگ عموماً زیادہ مقدار میں کاربوہائیڈریٹس کھاتے ہیں جبکہ روایتی طور پر یہاں کے لوگوں کی خوراک میں چینی کی مقدار بھی زیادہ ہے۔

ڈاکٹر راجیو کوول کہتے ہیں کہ اگر آپ جو اور باجرہ جیسے اناج کھاتے ہیں تو اس سے ملنے والی شوگر آہستہ آہستہ ٹوٹتی ہے جس سے شوگر کو صحیح طریقے سے جذب کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایسی حالت میں جسم میں شوگر کا لیول اچانک نہیں بڑھتا۔ اس کے برعکس گندم کا آٹا یا میدہ فوراً ٹوٹ کر شوگر میں تبدیل ہو جاتا ہے، اس لیے اسے کھانا منع ہے۔

بہت زیادہ میٹھے کا استعمال فوری طور پر جسم میں انسولین کی ضرورت سے زیادہ پیداوار کا باعث بنتا ہے۔ اس سے بھوک بڑھ جاتی ہے اور یہ ایک سائیکل بن جاتا ہے جو کئی طرح کے مسائل کو جنم دیتا ہے۔

ڈاکٹر راجیو کوول بتاتے ہیں کہ ’میٹھا کھانے سے جسم کو دیگر کاربوہائیڈریٹس کے مقابلے میں فوری طور پر زیادہ کیلوریز ملتی ہیں۔ اس سے ہمیں توانائی ملتی ہے اور خوشی بھی ملتی ہے۔‘

Getty Imagesمیٹھا خوشی دیتا ہے

خوشی کے مواقع پر ’مٹھائی‘ کے بارے میں سوچنا فطری ہے۔ تہوار وغیرہ کے دوران مٹھائی بانٹنا یا کھانا عام ہے۔

چینی ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے اچھی ہے۔ اگر اسے گلوکوز کی شکل میں لیا جائے تو ہمیں فوری توانائی ملتی ہے اور خوشی بھی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر راجیو کوول کے مطابق ’ہمارے دماغ کے 80 فیصد کام کا انحصار گلوکوز پر ہوتا ہے۔ اگر جسم کو یہ کم مقدار میں مل جائے تو سر چکرانے جیسے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔‘

ساتھ ہی ڈاکٹر سریندر کمار کا کہنا ہے کہ ’میٹھا کھانے سے بھی ایک طرح کی خوشی ملتی ہے۔ جب ہم اسے کھاتے ہیں اور یہ ہمارے دماغ میں جذب ہو جاتا ہے تو اینڈورفن ہارمونز خارج ہوتے ہیں جس سے ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مٹھائیاں بے ترتیب طور پر کھانا شروع کر دیں۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ چینی کھانے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جب ہم مناسب جسمانی کام یا ورزش نہیں کرتے تو یہ مسائل بڑھتے ہیں۔

Getty Imagesکتنا میٹھا کھانا چاہیے؟

ورلڈ اوبیسٹی اٹلس کی سال 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2035 تک دنیا میں 51 فیصد یا چار ارب افراد زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہوں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ بچوں میں موٹاپا دوگنیشرح سے بڑھ جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق لڑکیوں میں موٹاپے کی شرح لڑکوں کے مقابلے دگنی سے بھی زیادہ ہوگی۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق، ایک آدمی کو روزانہ 36 گرام یا 150 کیلوریز سے زیادہ چینی نہیں کھانی چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو 25 گرام یا 100 کیلوریز سے زیادہ چینی نہیں لینی چاہیے۔

ڈاکٹر راجیو کوول کا کہنا ہے 1980 یا 1990 کی دہائی کے وسط میں امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں وزن بڑھنے یا ذیابیطس کا مسئلہ دیکھا گیا۔ یہ اس لیے تھا کہ اس وقت چینی کھانا عیش و عشرت یا لطف اندوزی کا ذریعہ تھا۔ لیکن اب پچھلے 15 سالوں سے بچوں کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے کیونکہ انہیں کھانے پینے کی اشیا کے بہت سے آپشن مل رہے ہیں۔

بہت زیادہ چینی کھانے کے نقصانات

ماہرین کا کہنا ہے کہ مٹھائی زیادہ مقدار میں کھانے سے جسم کو بہت سے نقصانات ہوتے ہیں۔

سب سے پہلے موٹاپے کا مسئلہ ہے اور اس کے بعد دیگر مسائل بھی جنم لیتے ہیں جیسے ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول، ذیابیطس اور دیگر امراض قلب وغیرہ۔

لیکن ڈاکٹرز یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ زیادہ چینی کھانے سے آپ صرف موٹاپے کا شکار ہوں، دیگر مسائل بھی پہلے پیدا ہو سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر خواتین کو پی سی او ڈی کا مسئلہ ہو سکتا ہے جبکہ جلد میں کالا پن یا پگمنٹیشن ہو سکتا ہے۔

Getty Imagesشوگر اور کینسر کے درمیان تعلق

ڈاکٹروں کے مطابق کینسر کی ایک وجہ جسم میں انسولین کی زیادہ مقدار ہے۔ لیکن کیا کینسر کے مریض کو مٹھائی نہیں کھانی چاہیے؟

ڈاکٹر راجیو کوول کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی ہدایات نہیں ہیں کہ کینسر کے مریض شوگر ترک کر دیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ اگر جسم میں شوگر زیادہ ہو تو کینسر کے لیے سازگار ماحول بنتا ہے۔

ان کے مطابق کینسر کا تعلق موٹاپے اور ذیابیطس سے ہے کیونکہ ایسے مریضوں میں کینسر کے واقعات 20 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر سریندر کمار کا کہنا ہے کہ اگر کسی کینسر کے مریض کو ذیابیطس ہو یا گلوکوز برداشت نہ کرنے کی وجہ سے بلڈ شوگر بڑھنے لگے تو مٹھائی نہیں کھانی چاہیے۔ لیکن اگر ایسا کوئی مسئلہ نہ ہو تو مریض محدود مقدار میں مٹھائی لے سکتا ہے۔

ایک مثال دیتے ہوئے وہ بتاتے ہیں ’اگر کوئی آئس کریم کھانا چاہتا ہے تو اسے ایک ساتھ پورا سکوپ نہیں لینا چاہیے، اسے چاہیے کہ دن کے مختلف اوقات میں ایک چمچ آئسکریم لے کر کھائے۔ ذیابیطس کا مریض بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔‘

اس کی وجہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر سریندر کمار کا کہنا ہے کہ ’کینسر یا شوگر کا مریض اگر دن کے مختلف اوقات میں تھوڑی سی آئسکریم کھاتا ہے تو اس کے جسم میں موجود انسولین اسے برداشت کر لیتی ہے۔ لیکن شوگر کی بڑی مقدار فوراً اندر داخل ہو جاتی ہے تو جسم اسے سنبھال نہیں سکے گا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More