Getty Images
سوشل میڈیا کے سقراط اور الیکٹرانک میڈیا کے ارسطو بالکل بجا کہتے آئے ہیں کہ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں پاکستان کی تمام تر ناکامیوں کے ذمہ دار بابر اعظم ہیں۔ یہ بات آج ایک بار پھر ڈونیڈن میں بھی ثابت ہو گئی۔
حالانکہ چار سال پہلے، اوپننگ پوزیشن چھوڑ کر مڈل آرڈر میں جانا فخر زمان کی ذاتی خواہش تھی مگر قصور تو پھر بھی بابر اعظم کا ہی ہوا ناں کہ انھوں نے اس کردار کی ذمہ داری ہی کیوں قبول کی اور رضوان کے ہمراہ بہترین اوپننگ پارٹنرشپ کا ریکارڈ کیوں بنایا؟
بعض نادان یہ بھی کہتے ہیں کہ بابر اعظم کی اوپننگ کی بدولت ہی پاکستان اتنا عرصہ ٹی ٹونٹی کرکٹ پر راج کرتا رہا اور یکے بعد دیگرے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل و فائنل تک پہنچا مگر وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ جدید دور میں سٹرائیک ریٹ سے بڑھ کر کوئی شے نہیں۔
بابر اعظم بھلے ففٹی بنائیں، بھلے سینچری کریں، ان کے رنز ٹیم کے لیے سود مند نہیں ہو سکتے جب تک ان کی شاٹس اپنی ہئیت میں ’سیکسی‘ نہ ہو جائیں اور ماہرینِ شماریات کی تسکین کا سامان نہ بن جائیں۔
Getty Images
سو، ان سقراطوں اور ارسطوؤں کی بات میں بہرحال وزن ہے کہ مسئلہ صرف بابر کی اوپننگ میں ہی نہیں ہے، مسئلہ ان کی ٹیم میں موجودگی کا ہے۔ بھلا ایسے مستقل مزاج بلے باز کا اس کرکٹ کلچر میں کیا کام جس کے نمائندہ ہیرو شاہد آفریدی ہوں۔
یہاں صرف جارحیت سکہ رائج الوقت ہے۔ شاہد آفریدی اسی بنیاد پر امر ہوئے کہ وہ آؤ تاؤ دیکھے بغیر پہلی گیند سے ہی اندھا دھند بلا گھمایا کرتے تھے۔ اب اگر بابر اعظم اپنے کھیل کو ان خطوط پر استوار نہیں کر پا رہے تو پھر وہ ٹیم میں کیا کر رہے ہیں؟
پہلے پھر بھی کہیں نہ کہیں یہ شبہ تھا کہ بابر اوپننگ سے ہٹیں گے تو ٹیم ٹی ٹونٹی میچز بھی پوری پوری اننگز سے جیتنے لگے گی۔ مگر جب انھیں ون ڈاؤن کِھلا کر بھی ٹیم مطلوبہ نتائج حاصل کرنے سے قاصر رہی ہے تو واضح ہو چکا کہ مسئلہ یقیناً ٹیم میں ان کی موجودگی ہی ہے۔
بابر ہی تو ہیں جو ہر بار ٹاس جیتنے پر شاہین آفریدی کونہ صرف پہلے بولنگ پر مجبور کرتے ہیں بلکہ یہ بھی یقینی بناتے ہیں کہ لائن لینتھ کے ڈسپلن کو اڑا کر رکھ دیا جائے اور ہر اوور میں فن ایلن کو چار گیندیں ایسی مہیا کی جائیں جو باؤنڈری پار جا گریں۔
بابر اعظم ہی ہیں جو ڈریسنگ روم سے نکلتے وقت صائم ایوب کو تنبیہہ کر کے بھیجتے ہیں کہ وہ جلد از جلد واپس لوٹیں تا کہ ان کی اپنی ’باری‘ آ سکے۔ صرف یہی نہیں، کریز پر آ کر بھی وہ دوسرے کنارے پر آنے والے تمام بلے بازوں کو نظر لگاتے رہتے ہیں تا کہ کوئی بھی چل نہ پائے۔
Getty Images
آج یہاں ڈونیڈن میں بابر اعظم نے ون ڈاؤن پوزیشن پر ایک اور نصف سینچری داغ ڈالی، مگر سقراطوں اور ارسطووں کی بات بھی بے وزن نہیں کہ ایسے رنز کا کیا فائدہ جو باقی ماندہ دس بلے بازوں اور اپنے پانچوں بولرز کی کوتاہیوں کا ازالہ نہ کر سکیں۔
جب تک بابر اوپنر رہے، تب بھی پاکستان ہر دس میں سے تین میچ صرف ان کے سٹرائیک ریٹ کی وجہ سے ہارتا رہا۔ وہ تو بھلا ہو شاہین آفریدی کی بولنگ اور قوم کی دعاؤں کا، کہ ان کے طفیل باقی سات میچز پاکستان جیتتا رہا۔ وگرنہ بابر اعظم نے تو اپنے سٹرائیک ریٹ سے ہمیشہ پاکستان کو ہروانے کی کوشش ہی کی۔
اب اگرچہ پاکستان سیریز ہار چکا ہے، مگر ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا کہ اگلے دو میچز کے لیے ارسطوؤں اور سقراطوں کی بات مان کر بابر اعظم کو ٹیم سے باہر کر دیا جائے تا کہ یہ ٹیم استحکام اور تسلسل جیسی لغویات سے نکل کر، نئی جارحانہ حکمت عملی پہ پوری طرح عمل پیرا ہو سکے اور اگلے ورلڈ کپ سے بھی کہیں آگے کی سوچ سکے۔