جب نتاشجا وِلسن نے پہلی بارمحسوس کیا کہ اُن کے اندامِ نہانی یا وجائنا کے اندر موجود ایک اُبھار نیچے کی جانب سرکنے کے لیے زور لگا رہا ہے تو انھیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اُن کے جسم کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔ اس بارے میں کسی سے مدد لینے کا سوچ کر بھی انھیں شرم محسوس ہو رہی تھی۔
اُس وقت انُ کی عمر صرف 18 سال تھی اور وہ گھر سے دور یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں۔ انھوں نے اس کیفیت کے بارے کبھی کسی سے نہیں سُنا تھا، حالانکہ 50 فیصد عورتوں کوزندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اس کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’جب میں ٹوائلٹ گئی تو میں نے دیکھا کہ میری وجائنا میں سے کوئی پُھولی ہوئی چیز باہر آ رہی ہے۔‘
’مجھے پیشاب کے قطرے گِرنے کی بھی شکایت تھی اور سیکس کرتے وقت درد بھی محسوس ہوتا تھا۔‘
’مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیوںکہ اس وقت میں اپنے جسم کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔‘
نتاشجا اب 24 برس کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت انھیں معلوم نہیں تھا کہ فرشِ پیڑُو (پیٹ کا نِچلا حصہ یا pelvis) اور سروِکس (cervix بچہ دانی کا وجائنا کے اندر ذرا سا نیچے کونکلا ہوا منھ) کیا ہوتا ہے۔
Getty Imagesیوٹیرائن پرولیپس حاملہ، غیر حاملہ، نوجوان اورادھیڑ عمر کسی بھی عورت کو متاثر کر سکتا ہے
جب انھوں نے اپنی بعض سہیلیوں سے پوچھا کہ کیا وجائنا میں اُبھار کا احساس ہونا معمول کی بات ہے، تو انھیں بتایا گیا کہ ’ہو سکتا ہے کہ یہ تمھارا ’جی سپاٹ G spot‘ ہو یا ویسے ہی کوئی دھبہ ہو۔‘ (جی سپاٹ، وجائنا کے اندر وہ مقام ہے جو سیکس کے دوران انتہائی حساس اور لذت کا باعث ہوتا ہے۔)
نتاشجا کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ یہ سوچ کر خاموش ہو گئیں کہ جو بھی ہے شاید خود سے ٹھیک ہو جائے۔
بہتر ہونے کے بجائے اُن کی علامات بدتر ہوتی چلی گئیں اور آخر کار انھوں نے اپنی والدہ سے اس کا ذکر کیا، جنھوں نے نتاشجا کو ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر آمادہ کیا۔ طبی معائنے کے بعد تصدیق ہو گئی کہ انھیں یوٹیرائین پرولیپس یعنی بچہ دانی گِرنے یا نیچے سکرنے کی شکایت ہے۔
BBCخواتین میں پیٹ کے نچلے حصے میں موجود اعضا
پیڑُو یا پیلوِس کے پٹھے یا عُضلات پیٹ کے اعضا کو اپنی جگہ پر تھامے رکھتے ہیں۔ مگر جب یہ کسی وجہ سے کمزور پڑ جاتے ہیں تو ’پیلوِک آرگن پرولیپس‘ واقع ہوتا ہے، یعنی ایک یا ایک سے زیادہ اعضا اپنی معمول کی پوزیشن سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ اس سے ایک بلج یا اُبھار سا پیدا ہوتا ہے جو وجائنا کے اندر یا باہر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اپنی جگہ سے نیچے سرکنے والا یہ عضو رحم، آنت، مثانہ یا وجائنا کا اُوپری حصہ ہو سکتا ہے۔
بہت سی خواتین کو پرولیپس یا اس کی معمولی علامات کا پتہ نہیں چلتا، لیکن کچھ کے لیے یہ صورتحال اُن کی زندگی مشکل بنا دیتا ہے۔
اس کی عمومی علامات میں نیچے کی طرف دباؤ یا کسی چیز کے وجائنا سے باہر آنے کا احساس شامل ہو سکتا ہے، جیسے’ٹینس کی گیند پر بیٹھنے‘ کا احساس، ساتھ ہی مثانے اور آنتوں کے مسائل اور سیکس کے دوران تکلیف ہونا شامل ہو سکتا ہے۔
پرولیپس کی وجوہات جینیاتی بھی ہو سکتی ہیں اور یہ بھاری بوجھ اٹھانے، قبض یا مسلسل کھانسنے سے بھی ہو سکتا ہے۔
حمل اور بچے کی پیدائش سے پرولیپس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، خاص طور پر جب زچگی کے دوران دشواریاں پیش آئیں۔
عمر بڑھنے اور مینوپاز یعنی ماہواری کے مستقل بند ہو جانے کے بعد بھی پرولیپس کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے۔
پیلوِس (پیٹ کے فرش) کے پٹھوں کی ورزش اور رہن سہن میں تبدیلیوں سے علامات کی شدّت کم کی جا سکتی ہے، مگر بعض حالتوں میں وجائنل پیسری یعنی رحم کے منھ کا چھلّا یا پھر سرجری ضروری ہو جاتی ہے۔
Getty Imagesوجائنل پیسری یا چھلّا ڈال کر بچہ دانی کو اپنی جگہ پر رکھا جا سکتا ہے
نتاشجا کی خواہش ہے کہ وہ لوگوں کو آگاہی دیں کیونکہ یہ نوجوان لڑکیوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
وہ سوشل میڈیا اور اپنے بلاگ ’لیونگ وِد پرولیپس‘ کی مدد سے اس کیفیت سے جڑے ہوئے شرم کے احساس کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ احساس لڑکیوں کو ڈاکٹر کے پاس جانے سے روکتا ہے۔ ’میں جانتی ہوں کہ اگر شرمندگی کا احساس کم ہوتا تو میں بہت پہلے ڈاکٹر کے پاس چلی جاتی۔‘
برطانیہ میں نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسیلینس (این آئی سی ای) کے مطابق 12 میں سے ایک خاتون پرولیپس کی شکایت کرتی ہے لیکن معائنہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس سے 50 فیصد عورتیں متاثر ہوتی ہیں۔
سٹرلنگ یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ شرمندگی کا احساس، آگاہی کی کمی اور یہ خوف کہ ان کی علامات کو قابلِ غور نہیں سجمجھا جائے گا وہ عوامل ہیں جو متاثرہ عورتوں کو مدد حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔
اس تحقیق میں گذشتہ 20 برسوں کے دوران برطانیہ سمیت 24 ممالک کے مقالوں کا جائزہ لیا گیا، جس میں 20 ہزار سے زیادہ خواتین سے معلومات حاصل کی گئی تھیں۔
محققین کلیئر جووانی اور ڈاکٹر پوروا ابھی ینکر کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ سمیت دنیا بھر سے اس بات کے بہت سے شواہد ملے ہیں کہ عورتوں کو اب بھی خواتین کی صحت کے مسائل، جیسا کہ پرولیپس، کے معاملے میں مدد حاصل کرنے میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
’ہمیں نہ صرف خواتین اور ڈاکٹروں میں آگاہی اور تعلیم کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین میں یہ تصوربدلا جا سکے کہ معالجین خواتین کے مخصوص عوارض کو قابل توجہ نہیں سمجھتے۔‘
نتاشجا خواتین کو مشورہ دیتی ہیں کہ اگر انھیں یوٹرائین پرولیپس جیسی کیفیت کا سامنا ہے تو بجائے تنہائی میں تکلیف سہنے کے انھیں ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس مشکل سے گزرنے والی آپ اکیلی عورت نہیں ہیں۔‘