ہوٹل کے کمرے میں خاتون کی لاش اور زہر۔۔۔ انڈیا کا ایک صدی پرانا واقعہ جو آج بھی ایک معمہ ہے

بی بی سی اردو  |  Jan 15, 2024

Getty Images1924 میں ان کے پہلے ناول کی کامیابی کے بعد اگاتھا کرسٹی نے اپنے گھر کا نام ’سٹائلس‘ رکھا

ایسے کم ہی موضوعات ہوں گے جو اکثر لوگوں کو دلچسپ لگیں اور ان میں سے ایک خاندانی تنازعات ہیں۔ خاص طور پر تب جب کسی تنازع میں گھرا خاندان آپ کا اپنا نہ ہو اور کہانی میں کسی کا قتل بھی شامل ہو۔

مشہور ناول نگار اگاتھا کرسٹی کو کرائم ناولز کی ملکہ کہا جاتا ہے۔ انھیں لوگوں کی اس دلچسپی کا باخوبی اندازہ تھا اور ان کے پہلے ناول ’دی مسٹیریئس افیئر ایٹ سٹائلس‘ میں انھوں نے اپنے قارئیں کے لیے ایک ایسی قتل کی کہانی لکھی جو خاندانی تنازعے کے گرد گھومتی ہے۔

1920 میں چھپنے والے اس ناول کی کہانی ایک امیر خاتون، ایملی انگلتھورپ کے قتل پر مبنی ہے اور اس خاتون کے خاندان بشمول ایملی کی قریبی سہیلی ایولین ہاورڈ کو ایملی کے دوسرے خاوند پر شک ہوتا ہے اور ان کے خاوند ان سے عمر میں 20 سال چھوٹے بھی ہوتے ہیں۔

یہ کتاب اگاتھا کے مشہور کردار ڈیٹیکٹو ہرکیول پائروٹ کو متعارف کرواتی ہے اور ان کی مستقبل میں آنے والی کتابوں کی طرح اس کہانی میں بھی متعدد مشتبہ افراد، چونکا دینے والے موڑ، سادہ نظروں میں چھپے ہوئے سراغ اور آخر میں ایک ’بڑا انکشاف‘ تھا جہاں جرم کا ارتکاب کرنے والا مجرم سامنے آتا تھا۔

یہ ناول اس لیے بھی منفرد ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ کہانی ایک اصل قتل سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے جو ایک صدی پہلے انڈیا کے شمال میں موجود سیاحتی مرکز مسوری میں ہوا تھا۔

ستمبر 1911 میں 49 سال کی فرانسس گارنیٹ اورمے ایک آئرش وکیل کے بنائے ہوئے ہوٹل سیوائے میں مردہ حالت میں پائی گئیں۔ پوسٹ مارٹم میں یہ بات سامنے آئی کہ انھیں ہائڈروسایانک تیزاب (زہر کی ایک قسم) دیا گیا۔ اس کا الزام ان کی 36 سالہ دوست ایوا ماؤنٹ سٹیفنز پر لگتا ہے۔

اس کیس کو عالمی شہرت ملی تھی اور 1912 کے ایک آسٹریلیئن اخبار کے مطابق اس کی وجہ ’اس کے اردگرد کے حالات کی خاصیت‘ تھی۔ برطانوی اخباروں نے اس مقدمے کی ہر چیز کے بارے میں قارئین کو اطلاع دی اور شہ سرخی میں ’مسوری مرڈر ٹرائل‘، ’ہوٹل مسٹری‘ اور ’کرسٹل گیزنگ ٹرائل‘ جیسی اصطلاحات استعمال کیں۔

مسوری میں رہنے والے انڈین مصنف رسکن بانڈ نے اس پُرسکون اور سبزے سے بھرے پہاڑی علاقے کے بارے میں کافی تحریریں لکھی ہیں اور انھوں نے اپنے ایک مضمون میں اپنی رائے کا اظہار کیا کہ اگاتھا کرسٹی کی پہلی کتاب اس قتل سے متاثر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگاتھا نے اپنی کتاب میں اس جرم کے ’حالات کو استعمال کیا‘ کیونکہ یہ کیس اپنے وقت میں ’کافی سنسنی خیز‘ تھا۔

Getty Imagesڈیٹیکٹو ہرکیول پائروٹ، اگاتھا کے ناولوں کے مشہور کرداروں میں سے ایک ہے

اس وقت کی اطلاعات کے مطابق فرانسس ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے انڈیا میں رہ رہی تھیں اور انھوں نے لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی ایوا سے دوستی کی۔ ایوا روحانیت پر یقین رکھتی تھیں۔

یہ بتایا جاتا ہے کہ ’تنہائی کا شکار عورت‘ یعنی فرانسس نے ایوا سے ’کرسٹل گیزنگ‘ یعنی جادو ٹونا سیکھا۔ کرسٹل گیزنگ میں ایک کرسٹل یا شیشے کے گولے کو دیکھ کر مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کی جاتی ہے۔

یہ دونوں کافی عرصے سے سیوائے میں رہ رہی تھیں۔ ایوا کا دعویٰ تھا کہ فرانسس کی طبیعت خراب تھی اور وہ ان کا خیال رکھ رہی تھیں۔

لیکن استغاثہ نے ایوا پر الزام لگایا کہ انھوں نے فرانسس کو زہر دیا کیونکہ فرانسس نے اپنی وصیت میں مہنگی قیمت کے ہار اور دیگر زیورات ایوا کے نام کیے تھے۔

دوسری جانب ایوا کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ فرانسس نے خود کشی کی تھی کیونکہ وہ ’نہ ختم ہونے والے غم‘ کا شکار تھیں، وہ جس شخص سے شادی کرنے انڈیا آئی تھیں، وہ مر گیا تھا اور ان کی طبیعت بھی خراب رہتی تھی۔

اس کیس نے پولیس سمیت کافی لوگوں کو الجھا دیا کیونکہ اس میں بہت سے موڑ آئے۔ ایک الجھا دینے والی بات یہ تھی کہ فرانسس کے مرنے سے پہلے ہی ایوا لکھنؤ کی طرف نکل گئیں اور دوسری بات یہ تھی کہ فرانسس جس کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئیں وہ اندر سے بند تھا۔

پولیس کو ان کے کمرے میں نیند کی گولیوں کی بوتل، آرسینک اور ہائڈروسایانک تیزاب کے لیبل کے علاوہ کوئی دوا نہیں ملی۔

1900 کی دہائی کے اوائل میں خریداروں کو ادویات کے لیے دستخط درکار ہوتے تھے۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ ہائڈروسایانک تیزاب کے لیے کیے گئے دستخط فرانسس کے خطوط میں موجود ان کے دستخط سے مشابہت نہیں رکھتے تھے۔

استغاثہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایوا نے اپنے دوست کے ساتھ بات کرتے ہوئے چھ ماہ قبل فرانسس کی موت کے بارے میں پیشگوئی کی تھی اور اس کے علاوہ انھوں نے فرانسس کے معالج منگیتر کے بارے میں اور اسے اپنی ساری وراثت دینے پر بھی تحفظات پیش کیے تھے۔

لیکن وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ ایوا، فرانسس کی بہت قریبی اور وفادار دوست تھیں اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ایوا نے اپنی دوست کو زہر دیا یا مارنے کے لیے زہر خریدا۔

ایوا آخر کار بری ہو گئی تھیں اور اس موقع پر جج نے کہا تھا ’محترمہ فرانسس کی موت کے حقیقی حالات شاید کبھی معلوم نہ ہوں گے۔‘

انتباہ: تحریر میں آگے ’دی مسٹیریس افیئر آٹ سٹالس‘ ناول کے متن کی تفصیلات ہیں۔ اگر آپ اس ناول کو خود پڑھنا چاہتے ہیں تو اس تحریر کو آگے نہ پڑھیں۔

اگاتھا کی کتاب میں اس کیس میں ہونے والی پی رفت جیسے حالات ہیں۔ ایملی بھی فرانسس کی طرح زہر سے مر جاتی ہیں اور ان کی لاش بھی اندر سے بند کمرے میں ملتی ہے۔ کتاب کے آخر میں قارئین کو پتا چلتا ہے کہ ان کی قریبی سہیلی ایولین نے ان کو زہر دیا۔ انھوں نے اپنا روپ بدل کر اور نقلی دستخط کا استعمال کرتے ہوئے زہر خریدا اور اپنے دوست کو قتل کرنے کے لیے ان کے پاس مالی وجوہات تھیں۔

اور ایولین بھی ایملی کی موت سے پہلے ان کے گھر سے چلی جاتی ہیں۔ تو پھر انھوں نے یہ قتل کیسے کیا، یہ معمہ سلجھانے کے لیے ڈیٹیکٹو ہرکیول پائروٹ میدان میں آتے ہیں۔

کئی دہائیوں بعد بھی کتاب اور اس اصل واقعے کے درمیان مشترکات سے ابھی بھی لوگ محظوظ ہوتے ہیں۔ 2022 میں ہونے والے عالمی اگاتھا کرسٹی فیسٹیول میں انڈین کرائم رائٹر منجیری پربھو نے اگاتھا کے پہلے ناول اور مسوری میں ہونے والے قتل کے درمیان ’دلچسپ‘ مشترکات کے بارے میں بات کی۔

Getty Imagesدوسری عالمی جنگ میں اگاتھا نے بطور نرس کام کیا تھا جس کی وجہ سے انھیں مختلف زہروں کے بارے میں معلومات تھیں

صرف اگاتھا وہ واحد مصنفہ نہیں جو انڈیا میں زہر سے ہونے والی اموات سے متاثر تھیں۔ سیسل والش نے بھی آگرہ میں ہونے والے ایک جنونی قتل پر کہانی لکھی جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا، اس وقت یہ علاقہ برطانوی راج کے اندر آگرہ اور اودھ کے صوبے میں تھا۔

’آگرہ ڈبل مرڈر: آ کرائم آف پیشن فرام راج‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ کیسے میرٹھ شہر میں رہنے والی برطانوی خاتون اور ایک اینگلو انڈین شخص ڈاکٹر کلارک کے ساتھ مل کر قتل کی سازش کرتے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ کی طرح 19ویں صدی میں انڈیا میں زہر دینے کے واقعات کافی عام تھے۔ زہریلے مواد خاص طور پر آرسینک کی نگرانی نہیں ہوتی تھی۔ ڈیوڈ آرنلڈ اپنی کتاب ’ٹاکسک ہسٹوریز: پوائزن اینڈ پولوشن ان ماڈرن انڈیا‘ میں کہتے ہیں کہ آرسینک بطور زہر دینے کے واقعات کی وجہ سے زہر کی فروخت اور استعمال کی نگرانی کے لیے انڈین پوائزن ایکٹ 1904 لایا گیا۔

اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ ’جب 10 سال بعد، 1914 میں پوائزن ایکٹ کا جائزہ لینے کی بات آئی، تو یوپی (متحدہ صوبوں) کی حکومت نے حالیہ برسوں میں صوبے میں زہر دینے کے دو بدنام واقعات کا حوالہ دیا - ایک فرانسس اورم قتل اور دوسرا فلام۔ کلارک کیس۔

آج بھی لوگوں کو جرائم پر مبنی فلموں، پوڈ کاسٹ اور ویب شوز میں دلچسپی ہے۔ لیکن اگاتھا کرسٹی کے مداحوں کے لیے ان کا پہلا ناول ان کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More