مصنوعی ذہانت والے تکیے، ٹوتھ برش اور فریج میں خاص کیا ہے اور کیا یہ معاملہ کچھ مضحکہ خیز تو نہیں ہوتا جا رہا؟

بی بی سی اردو  |  Jan 15, 2024

’آئیے اپنا مصنوعی ذہانت والا تکیہ لیجیے اور نیند میں آنے والے خراٹوں سے چھٹکارا حاصل کریں!‘

میں ٹیکنالوجی انڈسٹری کے نئی مصنوعات کے سالانہ میلے ’سی ای ایس‘ میں موجود تھا جب اس جملے نے میری توجہ حاصل کی۔

یہ جملہ سُن کر میں نے سوچا کہ مصنوعی ذہانت والا تکیہ کیا چیز ہے؟

یہ آواز جنوبی کوریا کی کمپنی ’موشن سپیس‘ کی جانب سے لگائے گئے سٹال سے آ رہی تھی۔ مجھے تجسس ہو رہا تھا تو میں ادھر اندر چلا گیا۔

اس سٹال پر موجود افراد نے پہلے تو مجھے بُری نید کے نقصانات کے متعلق اعداد و شمار دکھائے۔ دوران ڈرائیونگ غنودگی کی وجہ سے ہونے والے حادثات کے اعداد بتائے گئے اور پھر نیند کے دوران سانس بند ہونے والی بیماری (سلیپ اپنیا) سے ہونے والے صحت کے نقصانات بتائے گئے۔

اور اِن سارے مسائل کا حل اس کمپنی کے مطابق اُن کا تکیہ ہے جو خراٹوں کے نشاندہی کر سکتا ہے۔ خراٹوں کے نتیجے میں اس تکیے کے مختلف حصوں میں ہوا بھر جاتی ہے، جس سے آپ کا سر اوپر اٹھ جاتا ہے جس کی وجہ سے خراٹے لینے والا کروٹ بدل لیتا ہے اور اس کے خراٹے بند ہو جاتے ہیں۔

یہ تکیہ اس ٹیکنالوجی میلے میں موجود بہت سی مصنوعات میں سے ایک تھا۔ یہاں ایسی ہزاروں ایجادات بھی ہیں جو شاید مارکیٹ میں کامیاب نہیں ہوں گی۔

لیکن ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ تکیہ باقیوں سے مختلف ہے کیونکہ اس تکیے میں اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا ہے۔

کمپنی کے ایک نمائندے نے اصرار کیا کہ ’مصنوعی ذہانت کے ساتھ اس کی تربیت کی جا سکتی ہے کہ آپ کی مخصوص آواز کیسی ہوتی ہے جب آپ کے خراٹے نکالتے ہیں۔‘

’اس طرح یہ آپ کے خراٹوں کی آواز، ٹی وی یا باہر چلنے والی آوازوں میں فرق کر سکتا ہے۔‘

اور اس نمائش میں یہ تکیہ واحد چیز نہیں تھی جو مصنوعی ذہانت سے مزین ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ سیم سانگ کی نمائشی سٹال میں ایک پورا حصہ تھا جن میں مصنوعی ذہانت والی گھریلو اشیا موجود تھیں۔

مجھے ایک مصنوعی ذہانت والا ویکیوم کلینر دکھایا گیا۔ یہ عام ویکیوم کلینر کی طرح ہی لگتا ہے لیکن ایک چھوٹا سا فرق ہے۔

اس میں ایک مصنوعی ذہانت کا فنگشن ہے جو جائزہ لیتا ہے کہ زمین کی سطح کیسی ہے اور پھر اس کے مطابق وہ گرد و غبار کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔

ایک مصنوعی ذہانت والی واشنگ مشین بھی تھی جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ مختلف فیبرک کے کپڑوں کی نشاندہی کر سکتی ہے۔

سیم سنگ کی پریس ریلیز کہتی ہے کہ ’اے آئی واش سنسرز کا استعمال کرتے ہوئے لانڈری کا وزن اور داغ دھبوں کا جائزہ لیتی ہے اور پھر مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے پانی، ڈیٹرجنٹ کی بہترین مقدار اور وقت کا تعین کرتا ہے۔‘

سیم سنگکا نمائندہ مجھے یہ واشنگ مشین دکھاتا ہے۔ میں ابھی بھی تھوڑا سمجھ نہیں سکا کہ اس مشین میں یہ مصنوعی ذہانت کیسے استعمال ہو رہی ہے۔

انھوں نے کہا ’یہ آپ کے کپڑوں کے بارے میں معلوم کر لے گی۔‘ مجھے ابھی بھی سمجھ نہیں آئی۔

یہیں پر میں نے مصنوعی ذہانت والا شیشہ اور دانتوں کا برش بھی دیکھا۔ شاید کوئی پراڈکٹ ایسا نہیں جس میں مصنوعی ذہانت کا تڑکا نہ دیا جا سکے۔

شاید ان کمپنیوں کے سرمایہ دار اور شراکت دار ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت والی مصنوعات سامنے لائیں کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل ہوتی ہے اور سرمایہ بھی۔

اوپن اے آئی کی طرف سے متعارف کروائے گئے چیٹ جی پی ٹی کی کامیابی کی وجہ سے ہر کوئی مصنوعی ذہانت کے بارے میں اور اس کی صلاحیت کے بارے میں بات کر رہا ہے۔

یہ لارج لینگویج ماڈل کا استعمال کرتا ہے، یہ ایک مشین لرننگ کی ایسی قسم ہے جو سوالوں کے ایسے جواب دیتی ہے جیسے انسان دیتے ہیں۔

لیکن مصنوعی ذہانت والے دانتوں کے برش اور ویکیوم چیٹ جی پی ٹی سے بہت دور ہیں۔

اور اس سے ہم مصنوعی ذہانت کے ایک عمومی مسئلے کی جانب آتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اس کی کوئی ایک تعریف نہیں ہے۔

مشین لرننگ کے ماہر ایرک سیگل نے کچھ عرصہ قبل مجھے بتایا تھا کہ ’مصنوعی ذہانت مبہم پن کے ایک بے لگام، لاعلاج مسئلے سے دوچار ہے۔‘

مصنوعی ذہانت کی تعریف نہ ہونے کی وجہ سے اس سال ہر مصنوعی ذہانت والی چیز کو ضرورت سے زیادہ بڑھاوا دیا گیا۔

اور یہ ان مصنوعات کے ساتھ بھی ہوا جن میں مصنوعی ذہانت پہلے سے تھی لیکن اس کا زیادہ بول بالا نہیں ہوتا تھا۔

اب ان کی مبہم مصنوعی ذہانت کی صلاحیت کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔

لیکن مصنوعی ذہانت والی چیزوں کے پاگل پن کی وجہ سے ایک مسئلہ ہو رہا ہے: کمپنیاں مصنوعی ذہانت استعمال کرنے کا دعویٰ کر رہی ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

امریکہ کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے ایسی کمپنیوں کو پیغام دیا ہے جو مصنوعی ذہانت کی تعریف کو زیادہ کھینچ رہی ہیں۔

گذشتہ سال فروری میں شائع ہونے والے پیغام میں کمیشن نے کہا ’کیا پراڈکٹ واقعی مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتا ہے؟ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ اپنے پراڈکٹ میں مصنوعی ذہانت ہونے کا بےبنیاد دعویٰ کر کے بچ جائیں گے تو ایک بار پھر سوچ لیں۔‘

لیکن اسی پیغام میں کمیشن نے یہ بات قبول کی کہ مصنوعی ذہانت ’بہت سی ممکنہ تعریفوں کے ساتھ ایک مبہم اصطلاح‘ ہے۔

یہ صارفین کے لیے ایک مسئلہ ہے اور اس کے علاوہ صحافیوں کے لیے بھی ایک درد سر ہے۔ کئی سالوں سے میں نے ایسی کمپنیوں کے بارے میں لکھا ہے جو یہ دعوی کرتی ہیں کہ ان کی مصنوعات مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتی ہیں۔ اور اکثر اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے والے شواہد نہیں دیتیں اور اکثر کہتی ہیں کہ ٹیکنالوجی ملکیتی ہے، یعنی اس کے بارے میں تفصیل نہیں دی جا سکتی۔

مگر بونٹ کھولے بغیر انجن کیسا ہے یہ بتانا مشکل ہوتا ہے۔

کچھ کمپنیوں کو اب معلوم ہے کہ اب مصنوعی ذہانت کی اصطلاح استعمال کرنے سے فائدے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا پراڈکٹ سی ای ایس پر تھا جس کا نام آر ون ہے اور اسے ریبٹ نام کی کمپنی نے بنایا ہے۔ فون کی طرح کا یہ ڈیوائس مصنوعی ذہانت کا استمعال کرتا ہے، یہ استعمال کرنے والے کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اس میں دیگر ایپس ڈال کر محتلف کام کروائے جیسے اپنے لیے فلائٹ یا ٹیکسی بک کروانا۔

لیکن ریبٹ کی طرف سے کی گئی اس کی نمائش میں مصنوعی ذہانت کا تذکرہ نہیں تھا۔ اس کے بجائے فاؤنڈیشن ماڈل کے بارے میں بات کی گئی اور ایک نئی اصطلاح بھی استعمال ہوئی ’لارج ایکشن ماڈلز‘۔

سیم سنگ کے سٹال پر مجھے ایک ایسا پروڈکٹ ملا جو واضح طور پر مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہا تھا۔ ایک فریج جو اس کے اندر پڑی چیزوں کا جائزہ لے کر مختلف پکوانوں کی ترکیبوں کا مشورہ دیتا ہے۔ آخرکار مجھے ایسی چیز مل ہی گئی جو واضح طور پر مصنوغی ذہانت کا استعمال کر رہی تھی۔

لیکن پھر ایک سوال میرے ذہن میں آیا۔ کیا میں چاہتا ہوں کہ میرا فریج مجھے بتائے کہ کیا پکایا جا سکتا ہے؟ مجھے کبھی اس بات سے مایوسی نہیں ہوئی کہ میرا فریج مجھے یہ مشورہ نہیں دے رہا کہ آج کیا پکایا جانا چاہیے۔ لہذا ابھی کے لیے میں مصنوغی ذہانت کے بغیر تکیے، واشنگ مشین اور ویکیوم کلینر سے گزارہ کر لوں گا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More