Getty Images
’کیا آپ کتے کا گوشت کھاتے ہیں؟۔۔۔۔ یہ ان تمام متنازع سوالات میں سے ایک ہے جو کوئی غیر ملکی جنوبی کوریا میں پوچھ سکتا ہے، حالانکہ اس سوال کا ردعمل اور جواب اکثر اس شخص کی عمر پر منحصر ہوتا ہے جس سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے۔
30 سالہ پارک یون کیونگ، جو جرمنی میں کام کرتی ہیں اور بعض اوقات سوال پر برا منانے کا اعتراف کرتی ہیں کہتی ہیں کہ ’یہ بہت بیزار کر دینے والا سوال ہے، مجھے ہمیشہ یہ واضح کرنا پڑتا ہے کہ میں نے اسے کبھی نہیں کھایا۔ کتے کے گوشت سے بنی ڈشز زیادہ تر جنوبی کوریا میں بزرگوں کے لیے ہیں، لیکن غیر ملکی اکثر اس سوال کو عام لوگوں سے کرتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اس سوال کا منفی مطلب ہے یعنی کوریائی باشندے کوئی بہت ہی قابل اعتراض چیز کھاتے ہیں اور یہ معاشرہ جنگلی ہے۔‘
لیکن لگتا ہے کہ اب اس طرح کے سوالات کے دن گنے جا چکے ہیں کیونکہ گذشتہ ہفتے کے اوائل میں جنوبی کوریا کی حکومت نے گوشت کے لیے کتوں کی افزائش، گوشت کی کٹائی، تقسیم اور فروخت پر سنہ 2027 تک پابندی لگانے کے لیے ایک نیا قانون پاس کیا۔
گریجویٹ سکول آف کورین سٹڈیز کے ماہر بشریات پروفیسر ڈاکٹر جو ینگ ہا بتاتے ہیں کہ اس سے صدیوں پرانی روایت کا مؤثر طریقے سے خاتمہ ہو جائے گا۔ تاریخی طور پر گایوں کی بہت زیادہ قدر کی جاتی تھی اور ان کے لیے اتنی قیمتی تھی کہ 19ویں صدی کے آخر تک انھیں ذبح کرنے کے لیے حکومتی اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا تھا۔
اور اس لیے انسانوں کو پروٹین کے دیگر ذرائع کی ضرورت تھی۔ جزیرہ نما کوریا میں رہنے والوں کے لیے کتے کا گوشت بہترین نعمل بدل میں سے ایک تھا، جس کا مزہ ہر طبقے کے لوگوں نے اٹھایا، حالانکہ ہمیشہ سے ایسے لوگ بھی تھے جو اس سے گریز کرتے تھے۔
Getty Images
لیکن کسی بھی دوسرے گوشت کی طرح اس گوشت سے بنے مختلف پکوان سامنے آئے جیسے کتے کے گوشت کا سوپ، جسے ’بوسنٹانگ‘ کہا جاتا ہے، اور کتے کے ابلے گوشت کا پکوان۔ بوڑھے جنوبی کوریائی باشندوں سے بات کریں تو بہت سے لوگ اب بھی اس کی خوبیوں کو ایک نفاست کے طور پر بیان کرتے ہیں جیسے خاص طور پر گرمی کے موسم میں اسےہضم کرنا آسان ہے اور توانائی کو بڑھاتا ہے۔
چنانچہ سنہ 1988 کے سیول اولمپکس کے دوران بہت سے لوگوں کو اس بارے میں جان کر دھچکا لگا کہ کوریا میں کتے کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ سنہ 1988 میں جنوبی کوریا نےپہلی مرتبہ سب سے بڑے بین الاقوامی مقابلے کی میزبانی کی تھی اور پھر کتے کے گوشت کے استعمال پر تنقید پوری دنیا میں سرخیوں میں آنے لگی۔
ڈاکٹر جو کہتے ہیں کہ ’شروعات میںبہت سے لوگ خاص طور پر سماجی اشرافیہ نے اسے دوسری ثقافتوں کی بے عزتی کے طور پر سمجھا تاہم بعدازاں زیادہ لوگوں نے اس پر شرمندگی محسوس کی اور اس بارے میں زیادہ تنقیدی ہو گئے۔‘
آج تین دہائیوں بعد جنوبی کوریا ایک بہت مختلف ملک ہے، کم از کم اس لحاظ سے کہ یہاں اب بہت کم لوگ کتے کا گوشت کھاتے ہیں۔
پچھلے سال ایک گیلپ سروے کے مطابق، پچھلے 12 مہینوں میں صرف آٹھ فیصد لوگوں نے کتے کا گوشت کھایا تھا، جو کہ 2015 میں 27 فیصد کے مقابلے میں نمایاں کمی ہے۔
اس سروے میں کہا گیا کہ اب جنوبی کوریا میں کتے کی افزائش نسل کے تقریباً 3,000 فارمز ہیں، جو 2010 کی دہائی کے اوائل میں 10,000 تھے۔ لیکن اب بھی یہ حکومت کے اعداد و شمار سے کافی زیادہ ہے جس کے مطابق ان فارمز کی تعداد تقریباً 1100 ہے۔
دریں اثنا کتوں کو بطور پالتو جانور رکھنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے. وزارت زراعت، خوراک اور دیہی امور کے مطابق، 2022 کے سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنوبی کوریا میں چار میں سے ایک شخص پالتو جانور کا مالک ہے۔
دسمبر میں یہ خبر بھی آئی تھی کہ ملک میں بچوں کے مقابلے میں پالتو جانوروں کی سٹالر کی تعداد زیادہ ہے۔ اور یہ بات جنوبی کوریا کی گرتی ہوئی شرح پیدائش کا اتنا ہی عکاس ہے جتنا کہ اس کی جانوروں سے محبت۔
اور پھر صدر یون سک یول اور خاتون اول کم کیون ہی ہیں، دونوں پالتو جانوروں سے محبت کرنے کے لیے مشہور ہیں اور ان کے پاس چھ کتے اور پانچ پالتو بلیاں ہیں۔
Getty Images
اس حکومت کو کتے کے گوشت پر پابندی کا قانون لانے میں دو سال سے بھی کم کا عرصہ لگا ہے جسے پچھلی انتظامیہ نافذ کرنے میں ناکام رہی تھی۔ جبکہ یہ خیال دہائیوں پہلے پیش کیا گیا تھا۔ مسٹر یون کے پیشرو کے تحت اس پر نظرثانی کی جانے والی تجویز کو سخت تنقید کے بعد روک دیا گیا تھا۔
اب اس نئے قانون کا مطلب ہے کہ تین سال کے عرصے میں اس کاروبار میں ملوث افراد کو یا تو جرمانے یا جیل کا سامنا کرنا پڑے گا اگر وہ اپنا کاروبار جاری رکھیں گے۔ تاہم یہ کتے کا گوشت کھانے کو غیر قانونی قرار نہیں دیتا۔
اس کے باوجود کورین اینیمل ویلفیئر ایسوسی ایشن (KAWA) کی سربراہ جو ہی کیونگ سمیت دیگر کارکنوں نے اس قانون کا خیر مقدم کیا ہے، جو 1990 کی دہائی کے آخر سے اس مسئلے پر مہم چلا رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پابندی کتوں کے ساتھ بدسلوکی کو روکنے کا ’واحد حل‘ تھا، انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ دنیا روایت یا ثقافت کے نام پر جانوروں کے ساتھ بدسلوکی بند کر دے گی۔‘
لیکن ہر کوئی اس بات پر قائل نہیں ہے، کم از کم وہ لوگ جو کتے کے گوشت کی تجارت سے اپنی روزی کماتے ہیں۔
جو یونگ بونگ جو ایک کتے کے گوشت کے لیے اس کی افزائش نسل کرنے والے اور کورین ایسوسی ایشن آف ایڈیبل ڈاگ کے صدر ہیں کا کہنا ہے کہ ’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کتے کا گوشت زیادہ لوگ نہیں کھاتے۔ ہم جانتے ہیں کہ مارکیٹ کم ہو رہی ہے… لیکن پھر بھی یہ کاروبار چلانا ہمارا حق ہے۔‘
ان کا استدلال ہے کہ اس صنعت کا پہلے کوئی بہتر ضابطہ نہیں تھا، اور اگر بہتر قوانین ہوتے تو جانوروں کے حقوق پر بہت سے خدشات سے نمٹا جا سکتا تھا۔
اور پھر چنگنم نیشنل یونیورسٹی میں فوڈ انجینئرنگ کے سابق پروفیسر ڈاکٹر آہن یونگ گیون ہیں جنھیں اکثر ’ڈاکٹر ڈاگ میٹ‘ کہا جاتا ہے۔
جنوبی کوریا میں کتے کے گوشت کے بہت کم محققین میں سے ایک ڈاکٹر آہن یونگ گیون نے 1988 کے اولمپکس کے دوران اپنی تحقیق کا آغاز اس بات سے مایوس ہو کر کیا کہ انھیں حکومت اور تعلیمی اداروں کی جانب سے بیرون ملک تنقید کا غیر فعال ردعمل محسوس ہوا، اور اب وہ کتے کا گوشت کھانے کے فوائد کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔
ڈاکٹر آہن کے مطابق اس میں کم غیر سیر شدہ چکنائی ہوتی ہے اور یہ گائے کے گوشت یا سور کے گوشت کے صحت مند متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔
اس کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ اسے تاریخ کے حوالے کر دیا جائے گا - ایک ایسا اقدام جس پر وہ سوال کرتے ہیں کہ وہ ملک کے آئین میں بیان کردہ بنیادی آزادیوں سے متصادم ہے۔
کتے کے فارمر مسٹر جو کہتے ہیں کہ ’آپ یہ حکم نہیں دے سکتے کہ لوگ کیا کھا سکتے ہیں اور کیا نہیں کھا سکتے۔‘
30 کے پیٹے میں کتے کی ایک مالک لی بورا جو کتے کا گوشت کھانے کے خلاف ہے اور نئے قانون کا خیرمقدم کرتی ہیں کا کہنا ہے کہ وہ اس کے مضمرات کے بارے میں ’ایک طرح سے فکر مند‘ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جذباتی طور پر، میری خواہش ہے کہ لوگ کھانے کے لیے کتوں کی افزائش اور انھیں کاٹے نہیں۔ تاہم اصولی طور پر میرے خیال میں کتے گائے یا سور سے اتنے مختلف نہیں ہیں۔‘