انگلینڈ کی سینٹرل لنکاشائر یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے خلا میں انگوٹھی نما ایک بہت بڑا ڈھانچہ دریافت کیا۔ ماہرین فلکیات نے اسے ’گریٹ رنگ‘ یعنی عظیم حلقہ کہا ہے اور یہ کہکشاؤں کے جھرمٹ سے بنا ہے۔
اس کا قطر 1,300,000,000 نوری سال ہے اور یہ رات کو آسمان میں زمین سے نظر آنے والے چاند کے سائز سے 15 گنا زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ اتنا بڑا ہے کہ یہ کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
اسے عام انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ جھرمٹ بہت دور ہے اور ان تمام کہکشاؤں کی شناخت کرنے میں جو اس رنگ کو تشکیل دیتی ہیں بہت زیادہ وقت اور ’کمپیوٹیشنل‘ طاقت کی ضرورت ہے۔
فلکیات کے ایک اہم نظریے کائناتی اصول کے مطابق اس حجم کے ڈھانچے یا جھرمٹ کو موجود نہیں ہونے چاہیے۔ یہ فلکیاتی اصول یہ بتاتا ہے کہ تمام مادے پوری کائنات میں یکساں طور پر تقسیم ہیں۔
اگرچہ ہمارے نقطہ نظر سے ستارے، سیارے اور کہکشائیں مادے کے بہت بڑے جھرمٹ کی طرح نظر آتے ہیں، لیکن کائنات کی وسعت کے تناظر میں وہ غیر معمولی ہیں اور فلکیات کے اس نظریہ کے مطابق اس طرح کے مادے کے بڑے جھرمٹ نہیں بننے چاہیے۔
’دی گریٹ رِنگ‘ (عظیم انگوٹھی) کسی بھی طرح سے اس کائناتی اصول کی پہلی خلاف ورزی نہیں ہے، جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کائنات کو سمجھنے کے لیے ایک اور عنصر بھی ہے جس کی دریافت ابھی باقی ہے۔
برطانیہ کی رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ میسی کے مطابق، اس بات کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے شواہد بڑھ رہے ہیں کہ فلکیات کے مرکزی نکات میں سے ایک کیا رہا ہے۔
’کائنات میں دریافت ہونے والا یہ ساتواں بڑا ڈھانچہ ہے جو نظام کائنات کے تصور کی بڑے پیمانے پر تردید کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر یہ ڈھانچے حقیقی ہیں تو کائنات کے ماہرین کے لیے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کائنات وقت کے ساتھ کیسے معرض وجود میں آئی۔‘
نئی دریافتوں کا موقع
گریٹ رِنگ کی دریافت یونیورسٹی آف سنٹرل لنکاشائر میں پی ایچ ڈی کی طالبہ الیکسیا لوپیز نے کی، جنھوں نے گریٹ آرک کو بھی دریافت کیا تھا۔ یہ ڈھانچہ 3,300,000,000 نوری سال پر محیط ہے۔
اس سوال پر کہ وہ ان دریافتوں پر کیا محسوس کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ’یہ واقعی ناقابل یقین ہے، مجھے اپنے آپ کو یقین دلانے کے لیے چٹکی کاٹنی پڑی کیونکہ میں نے یہ دریافتیں حادثاتی طور پر کی ہیں، یہ دریافتیں میری خوش قسمتی ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی بات ہے اور میں یقین نہیں کر سکتی کہ میں اس کے بارے میں بات کر رہی ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ یہ میں ہوں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’کائنات کے بارے میں ہمارے موجودہ علم میں ان دو انتہائی بڑے ڈھانچے میں سے کسی کی بھی وضاحت کرنا آسان نہیں ہے۔‘
اور ان کے انتہائی بڑے سائز، مخصوص شکلیں، اور کائناتی تشکیل لازمی طور پر ہمیں کچھ اہم بتا رہی ہو گی، لیکن یہ نہیں پتا کہ اصل میں یہ کیا؟
خلا میں گریٹ رِنگ اور گریٹ آرک ایک دوسرے کے نسبتاً قریب نظر آتے ہیں۔
NASAکائنات کا ایک عظیم راز
انگلینڈ کی یونیورسٹی آف واروک کے شعبہ طبیعیات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈان پولاکو نے نشاندہی کی کہ ایسا ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ دونوں اشیا ایک دوسرے سے متعلق ہوں اور اس سے بھی بڑی ساخت کا حصہ ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ’سوال یہ ہے کہ یہ بڑے ڈھانچے کیسے بنتے ہیں؟‘
ایک میکانزم کا تصور کرنا ناقابل یقین حد تک مشکل ہے جو ان ڈھانچے کو پیدا کر سکتا ہے لہٰذا مصنفین قیاس کرتے ہیں کہ وہ ابتدائی کائنات کے آثار دیکھ رہے ہیں جہاں اعلیٰ اور کم کثافت والے مواد کی لہریں ایکسٹرا گیلیکٹک میڈیم میں منجمد ہیں۔‘
کائنات میں دیگر بڑے ڈھانچے بھی ہیں جو دیگر ماہر فلکیات نے دریافت کیے ہیں، جیسے سلوان گریٹ وال، کائنات میں ایک دیوقامت دیوار جس کی لمبائی 1,500,000,000 نوری سال ہے، اور جنوبی قطب کی دیوار جو 1,400,000,000 نوری سال پر محیط ہے۔
لیکن سائنسدانوں کے ذریعہ اب تک دریافت ہونے والی سب سے بڑی واحد ہستی کہکشاؤں کا بڑا جھرمٹ ہے جسے گریٹ وال آف ہرکولیس۔کورونا بوریلیس کہا جاتا ہے، جو تقریباً 10 بلین نوری سال طویل ہے۔
اگرچہ یہ گریٹ رنگ یعنی انگوٹھی نما کہکشاؤں کا جھرمٹ خلا میں تقریباً ایک مکمل دائرے کی شکل میں نظر آتا ہے، لیکن الیکسا لوپیز کے تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی شکل زیادہ مرغولے دار یا چکر دارکی طرح ہے،جس کا سامنے کا حصہ زمین کی طرف ہے۔
جب ہم کائنات اور اس کی ترقی کو سمجھنے کے لیے کام کرتے ہیں تو ایسے میں گریٹ رنگ اور گریٹ آرک جیسی دریافتیں انفرادی طور پر اور مل کر ہمیں کائنات کے ایک عظیم راز کو سمجھنے کا موقع دیتی ہیں۔
یہ دریافتیں نیو اورلینز میں امریکن ایسٹرانومیکل سوسائٹی کے اجلاس کے دوران پیش کی گئیں۔