جنوری کا سرد موسم آپ کے مزاج، یادداشت اور سیکس لائف پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 12, 2024

Getty Images

موسموں کی تبدیلی کے ساتھ ہمارا رویہ اور فیصلے مختلف ہوسکتے ہیں۔ مزہ اس میں ہے کہ ہم اس قدرتی تغیر سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا سیکھیں۔

شمالی نصف کرہ اپنا مختصر ترین دن تو گزار چکا ہے لیکن موسمِ سرما ابھی ختم نہیں ہوا۔ چھٹیوں اور اس دوران ہونے والی تقریبات کی چمک دمک کے بعد، بہت سے لوگ جنوری کو سیاہ ترین یا ایک خاموش مہینے کی طرح محسوس کرتے ہیں۔

یہ صرف ہمارے جذبات نہیں، جو متاثر ہوتے ہیں۔ سائیکولوجیکل سائنس جرنل میں شائع ہونے والے ایک حالیہ سائنسی مقالے میں بہت سے اُن طریقوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جن سے یہ پتا چل سکے کہ کیسے موسم ہماری دماغی صحت پر اثر انداز ہوسکتے ہیں بلکہ ہماری جنسی صروریات سے لے کر ہماری ذہانت اور ہماری سماجی سرگرمیوں تک۔

اگرچہ اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ کینیڈا کے کالے ریچھ بھی موسموں کے ساتھ ساتھ اپنے طرز عمل اور رویوں میں تبدیلی لاتے ہیں یا یوں کہہ لیا جائے کہ وہ اپنے آپ کو ہر آنے والے وقت کے مطابق ڈھالتے ہیں لیکن انسانی نفسیات میں ان تغیرات پر بہت کم تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

گمان یہی ہے کہ یہ تغیرات ہماری فیصلہ سازی اور فلاح و بہبود کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوسکتے ہیں۔

محققین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یہاں کچھ قابل ذکر نتائج ہیں:

مزاج

موسمِ سرما میں ڈپریشن کی موجودگی، جسے ’سیزنل ایفیکٹو ڈس آرڈر‘ (ایس اے ڈی) کے نام سے جانا جاتا ہے، اب نہ صرف عام ہو چُکا ہے بلکہ اب اسے قابلِ علاج مرض کے طور پر قبول بھی کیا جاتا ہے۔

اس کی علامات میں کم از کم دو ہفتے تک مسلسل اداسی یا اضطراب شامل ہے۔ ناامیدی اور بے مقصدی کا احساس، توانائی میں کمی، ضرورت سے زیادہ کھانا اور نیند کا بہت زیادہ آنا شامل ہیں۔

بہت سے لوگوں کو ایس اے ڈی کی کلینیکل تشخیص یا اس کی تمام علامات کے بغیر بھی اُداسی اور توانائی میں کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس عام افسردگی کو غیر رسمی طور پر ’ونٹر بلیوز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے۔

سنہ 2010 کی دہائی کے اوائل میں نیویارک کے شہر اتھاکا کی کارنیل یونیورسٹی کے محققین نے 84 ممالک کے 50 کروڑ 90 لاکھ ٹویٹس کے مواد کا تجزیہ کیا تھا۔

انھوں نے دن کی روشنی کے اوقات میں تبدیلی اور پوسٹوں کے جذباتی مواد کے درمیان ایک تعلق پایا۔ جیسے جیسے دن چھوٹے ہوتے گئے، صارفین کی جانب سے مثبت الفاظ کے استعمال میں بھی کمی آتی گئی۔

Getty Images

ونٹر بلیوزیا دکھی خیالات سے متعلق ان احساسات کے درمیان بہت سی ممکنہ وضاحتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک مقبول نظریہ یہ بھی ہے کہ روشنی کی کم سطح جسم کی حیاتیاتی گھڑی میں مداخلت کرتی ہے، یعنی دن کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ انسانی مزاج میں بھی تبدیلی آتی ہے اور وہ سُست ہوتا چلا جاتا ہے مگر رُکتا نہیں۔

اسے ’سرکیڈیئن ردھم‘ کہا جاتا ہے (انسانی جسم 24 گھنٹے کام کرتا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی تاخیر نہیں ہوتی اس سارے معاملے کو ’سرکیڈیئن ردھم‘ کہتے ہیں)۔

جس کے نتیجے میں جذباتی پروسیسنگ میں شامل نیورو ٹرانسمیٹرز کے صحت مند ضابطے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ماہرِ نفسیات کری لیبووٹز کی حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ہماری ذہنیت بھی ایک کردار ادا کر سکتی ہے۔ ٹرمسو یونیورسٹی میں جوار ویٹرزو کے ساتھ کامکرتے ہوئے لیبووٹز نے ناروے کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شرکا سے موسم سرما کے بارے میں ان کے رویوں کے بارے میں سوالات کیے۔

مثال کے طور پر، ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ان جملوں کی درجہ بندی کریں جیسے ’موسم سرما سال کا ایک خاص طور پر خوبصورت وقت ہے، مجھے موسم سرما کے مہینوں کی ٹھنڈک پسند ہے اور مجھے موسم سرما کے مہینوں کے دوران نرم اور ٹھنڈی روشنی پسند ہے۔‘

لیبووٹز اور ویٹرزو نے پایا کہ جو لوگ ان بیانات سے متفق تھے وہ سردی اور اندھیرے سے بہتر طور پر نمٹتے ہیں، سردیوں کے مہینوں میں زندگی کے اطمینان کی اعلی سطح اور زیادہ مثبت جذبات کے ساتھ۔

تبدیل شدہ ذہنیت یقینی طور پر شدید اداس لوگوں کے لیے علاج نہیں ہو سکتی لیکن لیبووٹز تجویز کرتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگ موسم سرما کی مثبت خصوصیات کو محسوس کرنا اور اسے اپنانا سیکھ کر اداسی کو شکست دے سکتے ہیں، جیسے قدرتی خوبصورتی جو اس سے آتی ہے۔

یادداشت اور کسی ایک جانب جھکاؤ

اگر آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ دن کی روشنی کے ساتھ آپ کے اندر سے مزاج کی سختی کم ہو رہی ہے تو، آپ اکیلے نہیں۔

نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم میں ایراسمس یونیورسٹی میڈیکل سینٹر سے تعلق رکھنے والی سانی مولڈجک اور ان کے ساتھیوں نے حال ہی میں 45 سال یا اس سے زائد عمر کے 10 ہزار سے زائد افراد پر کیے گئے ایک بڑے طویل مدتی مطالعے کے اعداد و شمار کاتجزیہ کیا۔

انھوں نے دریافت کیا کہ موسم سرما میں جن لوگوں کا تـجزیہ کیا ان افراد میں موسم گرما کے مقابلے میں سیکھنے، یادداشت اور ارتکاز کے پیمانوں پر قدرے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

ہم ابھی تک اس موسمی تغیر کی وجوہات نہیں جانتے ہیں۔ خراب علمی کارکردگی لوگوں کے عام طور پر افسردہ احساسات کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ جب ہم دکھی محسوس کرتے ہیں تو ہمیں سیدھی بات بھی سوچنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ایک اور امکان یہ ہے کہ یہ موسم سرما میں وٹامن ڈی کی کمی کی عکاسی کرتا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دماغ کی صحت میں مدد کرتا ہے۔

وٹامن ڈی جسم کی طرف سے اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہماری جلد سورج کی روشنی کے سامنے آتی ہے اور جبکہ ہم کچھ کھانوں سے غذائیت کو جذب بھی کرسکتے ہیں، صرف اپنی غذا سے کافی وٹامن ڈی حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔

خاص طور پر اونچے علاقوں میں موسم سرما کے مختصر دن، خراب موسم، سب مل کر بہت سے لوگوں کے لیے وٹامن ڈی کے حصول میں مُشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

اس بنیادی میکانزم کی تحقیقات سے سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ اسی عرصے میں ڈیمنشیا کی تشخیص میں اضافہ کیوں ہوا۔ موسم سرما کے دوران ذہنی مسائل کی علامات بڑھ سکتی ہیں، جس سے زیادہ سے زیادہ لوگ ڈیمنشیا کے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

Getty Imagesسماجیت اور کسی ایک صنف کی جانب مائل ہونا

ہم ’گرم‘ اور ’ٹھنڈے‘ طرز عمل کی اپنی وضاحتوں کو محض علامتی سمجھ سکتے ہیں لیکن سامنے آنے والے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ الفاظ ماحول کے درجہ حرارت اور معاشرتی تعلق کے مابین قدیم تعلق کی عکاسی کرسکتے ہیں۔

’سوشل تھرموریگولیشن‘ کے نظریہ کے مطابق، ہم دوسروں کو جسمانی گرمجوشی اور آرام کے ذرائع کے طور پر دیکھنے کے لیے تیار ہوئے۔ اس طرح ہم پینگوئن اور بہت سے دیگر جانداروں کی طرح ہیں جو قدرتی طور پر اپنے جسم کی گرمی کو بانٹنے کے لیے ایک ساتھ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔

اگر یہ نظریہ درست ہے، تو کم درجہ حرارت ہمیں زیادہ سے زیادہ سماجی رابطے کی تلاش کی ترغیب دیتا ہے۔ اس پیشگوئی کو پرکھنے کے لیے فرانس کی یونیورسٹی گرینوبل الپس میں ہانس ایزرمین کی سربراہی میں ایک ٹیم نے شرکا سے کہا کہ وہ اپنے خیالات کے مندرجات کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے مختلف سوالنامے مکمل کرتے ہوئے گرم یا ٹھنڈے مشروبات رکھیں۔

انھوں نے دریافت کیا کہ کولڈ ڈرنکس رکھنے والے افراد گرم مشروبات رکھنے والوں کے مقابلے میں اپنے قریبی پیاروں کے بارے میں سوچنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں جو سماجی رابطے کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔

اس کا مزید ثبوت ہماری فلم دیکھنے کی عادات سے ملتا ہے۔ آن لائن فلموں کے پسندیدگی سے متعلق ملنے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ جب درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو لوگ دیگر فلموں کے مقابلے میں رومانوی فلموں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک ایسی دریافت جسے متعدد لیبارٹری تجربات میں دہرایا گیا۔ دل کو چھو لینے والی فلم بظاہر باہر کی سردی کی وجہ سے جذباتی گرمجوشی اور پیار کی ہماری بڑھتی ہوئی خواہش کو پورا کرتی ہے۔

Getty Images

ہماری جنسی سرگرمی زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔ پنسلوانیا کی ولانووا یونیورسٹی اور نیو جرسی کی رٹگرز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق گوگل کے صارفین موسم سرما کے وسط اور موسم گرما کے اوائل میں فحش مواد کی تلاش میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ڈیٹنگ ویب سائٹس کی تلاش میں بھی زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

ایک بار پھر، بہت سے عوامل شامل ہونے کا امکان ہے لیکن یہ اندازہ لگانا مناسب لگتا ہے کہ موسم سرما کا عروج، جزوی طور پر، زیادہ سے زیادہ انسانی رابطے کے لیے ہماری خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔

وضاحت جو بھی ہو، اس تغیر کے حقیقی عالمی صحت کے نتائج ہیں، مزید مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ اسی عرصے میں جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن میں اضافہ اور کمی ہوئی ہے۔

مزید تحقیق کے ساتھ، سائنسدان انسانی طرز عمل میں بہت سے مزید سائیکلوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں جو حیاتیات اور ثقافت کے پیچیدہ باہمی تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور اس وسیع علم کے ساتھ، ہم اپنے طرز عمل میں ان تبدیلیوں کا بہتر حساب دے سکتے ہیں۔

بھول جانے کے عجیب و غریب لمحات کے لیے خود کو معاف کر کے اور اپنی بڑھتی ہوئی معاشرتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مزید ٹھوس منصوبے بنا کر۔ ہم سب موسم سرما کے ’بلیوز‘ کو شکست دینے اور نئے سال کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے اقدامات کرسکتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More