Getty Images
میچ کی دوسری ہی گیند پر یکبارگی گمان گزرا کہ وہ شاہین آفریدی لوٹ آئے ہیں جن کی شناخت پہلے اوور میں حریف بلے بازوں کی شامت ہوا کرتی تھی۔ اس گیند میں وہ تاخیری سیم موومنٹ تھی جو ڈیون کانوئے کے لیے حرزِ جاں ثابت ہوئی۔
لیکن بگاڑ وہاں سے شروع ہوا جب شاہین آفریدی اپنے دوسرے اوور کے لیے آئے۔ کیوی اننگز پہلے ہی اوور میں کانوئے کی وکٹ گنوانے کے بعد اضطراب کا شکار تھی مگر شاہین کی لینتھ نے فن ایلن کی زندگی سہل کر دی اور دباؤ واپس پاکستانی بولنگ پر پلٹ آیا۔
پہلی گیند آف سٹمپ پر فل لینتھ تھی اور ایلن نے بِلا دقت باؤنڈری پار پھینک ڈالی۔ دوسری گیند پر پھر ایلن کو بازو کھولنے کا بھرپور موقع ملا اور اس کا نتیجہ بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ اگلی تین گیندیں بھی صحیح لینتھ کی کھوج میں بھٹکتی پائی گئیں اور باؤنڈری کے پار سے دریافت ہوئیں۔
آکلینڈ کا ایڈن پارک گراؤنڈ اپنی نوعیت میں بہت دلچسپ ہے کہ جہاں باؤنڈریز کا فاصلہ دیگر انٹرنیشنل وینیوز سے کہیں مختصر ہے تو اس کی ڈراپ ان پچ کا باؤنس بھی دیگر وینیوز سے کہیں زیادہ ہے۔
یہاں عموماً بولرز کی زندگی آسان نہیں ہوتی۔ لینتھ ذرا سی بھی چوک جائے تو گیند پھر ہجوم کے بیچ سے ہی واپس ملتی ہے۔ اگر پاکستان کو یہاں کسی ہدف کا حقیقت پسندانہ تعاقب ملحوظ تھا تو وہ 190 سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
مگر پاکستانی بولنگ میں صرف پہلا میچ کھیلنے والے عباس آفریدی ہی اس سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کر پائے کہ یہاں لینتھ کیسی درست رہے گی اور رفتار کے تغیر کا وہ درست مارجن کیا ہو گا کہ جہاں سے کیوی بلے بازوں کو شکار کیا جا سکے۔
مچل سینٹنر کی عدم دستیابی کے باعث یہ کیوی ٹیم اپنی بیٹنگ میں کافی ہلکی ہو چکی تھی اور اگر پاکستانی بولنگ پاور پلے میں ہی اپنے اوسان گنوا نہ بیٹھتی تو ایک آسان فتح اس کا مقدر ہو سکتی تھی۔
بہرحال پاکستان کو یہاں ہدف کا تعاقب کرنے کا موقع ملا تھا اور یہ گراؤنڈ تعاقب کے لیے زیادہ سازگار رہتا ہے۔ اس پر ابتدائے شب کی اوس کا اضافی فائدہ بھی پاکستان کے حق میں تھا کہ دوسری اننگز میں بولرز کے لیے گیند پر گرفت رکھنا دشوار ہوتا ہے۔
Getty Imagesشاہین کی لینتھ نے فن ایلن کی زندگی سہل کر دی اور دباؤ واپس پاکستانی بولنگ پر پلٹ آیا
لیکن پاکستانی پیسرز ہی کی طرح سپنر اسامہ میر بھی صحیح لینتھ کی کھوج میں بھٹکتے نظر آئے اور بحیثیتِ مجموعی یہ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں پاکستان کی بدترین بولنگ پرفارمنس رہی۔
اتنے بڑے ہدف کے تعاقب کو فقط کوئی معجزہ ہی زندہ رکھ سکتا تھا۔ پاکستان کو بھی صائم ایوب کی مختصر سی اننگز میں اس معجزے کی ایک جھلک تو دکھائی دی لیکن وہاں غیر متوقع رن آؤٹ نے وہ امید بھی ختم کر ڈالی۔
گو شاہین ہی کی مانند ٹم ساؤدی نے بھی اپنے پہلے اوور میں پچ کے باؤنس کو نظر انداز کرتے ہوئے فل لینتھ سے سوئنگ کھوجنے کی کوشش کی مگر جلد ہی ان کی دانش بروئے کار آئی اور لینتھ واپس کھینچ کر انھوں نے پاکستانی بلے بازوں کا بہاؤ قابو کر لیا۔
جب کوئی ٹیم نئے کمبینیشن کے ساتھ میدان میں اترتی ہے تو زیادہ نگاہیں ڈیبیو کرنے والوں پر جمی ہوتی ہیں کہ ان کی کارکردگی میچ کی سمت متعین کرے گی۔ پاکستان کے لیے بھی یہاں آزمائش یہی تھی کہ ان کے ڈیبیو کھلاڑی کیسا کھیل جمائیں گے۔
اسامہ میر کی کارکردگی تو لگ بھگ ویسی ہی رہی جو پچھلے کچھ عرصہ میں شاداب خان دکھاتے رہے ہیں لیکن عباس آفریدی کی بولنگ میں وہ پختگی نظر آئی کہ اگر باقی پیسرز بھی ان سے کچھ سیکھ لیتے تو شاید یہ نتیجہ پاکستان کے حق میں نکلتا۔