Getty Images
مہینہ بھر آسٹریلیا کے کٹھن راستوں پر کرب کھوجنے کے بعد اب پاکستانی ٹیم آکلینڈ میں پڑاؤ ڈال چکی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے قدرے شناسا گلیاں ہیں کہ یہاں فارمیٹ بھی سہل ہے اور حریف بھی کینگروز کے جیسا ناقابلِ تسخیر نہیں ہے۔
کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں سے اگر کہیں پاکستان کے وسائل فراواں ہیں اور قوت عالمی مسابقت کے معیار کی، تو وہ ٹی ٹونٹی فارمیٹ ہے جہاں گاہے بگاہے یہ ٹیم نمبر ون رینکنگ تک بھی پہنچتی رہتی ہے۔
ٹی ٹونٹی میں پاکستان کے سنہرے دور کا آغاز پی ایس ایل کی شروعات سے ہوا تھا اور وہاں سے ٹیلنٹ کے جو نئے ذخائر میسر ہوئے، وہ اس قدر پختہ تھے کہ عالمی معیار کی مسابقت کے لیے تیار تھے۔ انھی میں سے فراہم کردہ کئی وسائل پاکستان کے موجودہ سکواڈ کا حصہ بھی ہیں۔
مگر یہاں امتحان نہ تو پاکستان کی ٹی ٹونٹی قوت کا ہے اور نہ ہی نئے ٹیلنٹ کی صلاحیت کا۔ یہاں آزمائش ہو گی پی سی بی کے ان تمام انتظامی فیصلوں کی، جو ون ڈے ورلڈ کپ کی ناکامی کے بعد اٹھائے گئے تھے۔
شاہین آفریدی ٹی ٹونٹی کرکٹ میں اپنی قائدانہ صلاحیتیں پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں، جہاں وہ اپنی پی ایس ایل فرنچائز لاہور قلندرز کو دو ٹائٹل جتوا چکے ہیں۔ مگر فرنچائز کرکٹ اور انٹرنیشنل کرکٹ میں دباؤ اور مسابقت کے معیار کا جو فرق ہے، وہ بہرحال شاہین آفریدی کے اعصاب کا امتحان ضرور ثابت ہو گا۔
شاہین پر کچھ مزید کڑی نظریں یوں بھی جمی ہیں کہ آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میں آرام کرنے کے باعث مبصرین اور سابق کرکٹرز کی تنقید بھی ان پر خوب ارزاں ہوئی۔ اب اگر یہاں وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائے تو ان ناقدانہ آوازوں کا شور بڑھ سکتا ہے۔
مگر امتحان اکیلے شاہین آفریدی کا ہی نہیں، محمد حفیظ کی سربراہی میں جوڑی گئی اس نئی ٹیم مینیجمنٹ کا بھی ہے جو اپنے سخت گیر ڈسپلن کے نفاذ کے سبب کھلاڑیوں میں پہلے ہی مقبول نہیں ہے اور غیر متوقع نتائج کی صورت میں اس کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے دیر نہیں لگے گی۔
پاکستان نے جو عجیب تر اقدام اس ٹور کی ٹیم سلیکشن میں اٹھایا ہے، وہ محمد حارث کو آرام دینے کا فیصلہ تھا۔ محمد حارث نہ تو عمر کی چوتھی دہائی میں داخل ہو چکے ہیں اور نہ ہی وہ سال میں ڈیڑھ درجن ٹیسٹ میچز کھیلتے ہیں کہ انھیں ایسے دورے سے آرام دیا جانا ضروری ہوتا۔
چونکہ یہ دورہ رواں برس کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کی تیاری میں پہلا قدم ہے اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض بھی محمد حارث کو ورلڈ کپ پلاننگ کا حصہ قرار دے رہے ہیں تو میگا ایونٹ کی تیاری کے پہلے قدم پر ہی ایسے کھلاڑی کو آرام دے دینا یکسر ناقابل فہم ہے جو گذشتہ ورلڈ ایونٹ میں پاکستان کی فائنل تک رسائی میں کلید ٹھہرا تھا۔
کیویز نے اس مقابلے کے لیے بھرپور قوت کا سکواڈ ترتیب دیا ہے اور اپنی ہوم کنڈیشنز میں وہ شاہین آفریدی کی ٹیم کو بھرپور چیلنج دے سکتے ہیں۔ یہاں ولیمسن کی قیادت میں ایک توانا کیوی ٹیم میدان میں اترے گی اور پاکستان کے اعصاب کا خوب امتحان لے گی۔
پاکستان کے برعکس کیوی ٹیم تینوں فارمیٹس پر دسترس رکھتی ہے اور ٹی ٹونٹی میں جس طرح کے بیٹنگ وسائل انھیں میسر ہیں، وہ کسی بھی حریف کے منھ سے میچ کھینچ لینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
اگرچہ آل راؤنڈ صلاحیتوں میں پاکستان بھی کیویز سے پیچھے نہیں، لیکن جو ذہنی پختگی اور تجربہ اس کیوی سکواڈ کو میسر ہے، بہرحال پاکستان کو اس کی کمی کا سامنا ضرور ہے۔ ایسے میں پاکستان کے سینیئر کھلاڑیوں کی ذمہ داری دوچند ہو جائے گی کہ نہ صرف اپنے حصے کا کردار نبھائیں بلکہ نو آموز کھلاڑیوں کی ممکنہ کوتاہیوں کا بوجھ بانٹنے کو بھی تیار رہیں۔
کوئی بھی ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈز پر آسان حریف نہیں ہوا کرتی۔ کیویز بھی بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک سخت محاذ ثابت ہوں گے۔ مگر پچھلے ہفتے تمام ہوئے ٹیسٹ میچز کے برعکس یہ فارمیٹ ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی ٹیم بآسانی پاکستان پر چڑھ دوڑے۔